تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-03-2014

بہت دُور کی سُوجھی!

بڑی مشکل سے قوم کی دُعائیں کسی حد تک مستجاب ہوئیں، امیدیں تقریباً بر آئیں۔ طالبان سے مذاکرات کا راستہ کھلا تو اہلِ وطن کے چہرے کِھل اُٹھے کہ ع 
کفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے 
اب تک حالت یہ تھی کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ صورتِ حال دیکھ کر کیا سمجھیں، کیا اندازہ لگائیں۔ ملک بھر میں ایسا بہت کچھ ہو رہا تھا جس کا سَر دِکھائی دے رہا تھا نہ پَیر۔ ؎ 
سُلگ رہا ہے نشیمن کہ جل رہا ہے چمن 
چلو، قریب سے دیکھیں یہ روشنی کیا ہے 
سبھی پریشان تھے کیونکہ جو کچھ ہو رہا تھا وہ کسی کی اُمنگوں کے مطابق نہ تھا اور جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ کسی صورت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے میں مبتلائے یاس ہونا فطری تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اُمید کے بادل تھوڑے سے برس گئے۔ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا دَر کھلا۔ مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی تو قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہوا۔ سبھی اٹکل کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ کوئی کہتا تھا کہ فریقین ٹائم آؤٹ کی راہ پر گامزن ہیں۔ کسی کا خیال تھا کہ حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے۔ کوئی طالبان کے حوالے سے بدگمانی کا اظہار کر رہا تھا۔ جتنے مُنہ تھے اُتنی باتیں۔ ٹی وی اینکرز کی تو باچھیں کِھل گئیں کہ چلیے، کچھ سوچنے (!) اور بولنے کا سامان تو ہوا۔ مبصرین اور ماہرین بھی سجدۂ شکر بجا لائے کہ فراغت سے جان چھوٹی اور قوم کو ''راہ‘‘ دِکھانے کی سبیل نکلی۔ 
مگر ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ در حقیقت ویسا نہیں‘ جیسا بیان یا پیش کیا جارہا ہے۔ اگر لوگ مذاکرات کے عمل کو ٹوپی ڈراما قرار دے رہے ہیں تو اِس میں ایک حد تک تو صداقت ہے۔ فریقین اب تک کوئی مشترکہ یا متفقہ راستہ تلاش کرنے سے زیادہ ایک دوسرے کو اپنی مرضی کی راہ پر لانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ سنجیدہ حلقے شکوہ سنج رہے ہیں کہ مذاکرات میں سنجیدگی کا عنصر عنقا ہے۔ یہ شِکوہ کچھ ایسا بے جا بھی نہیں۔ غالبؔ نے کہا ہے ؎ 
لاگ ہو تو اُس کو ہم سمجھیں لگاؤ 
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
حکومت اور طالبان دونوں ہی ایک گال میں آگ اور دوسرے میں پانی لیے مِل رہے ہیں۔ ایک طرف مذاکرات کا ڈول ڈالا جارہا ہے اور دوسری طرف ایک دوسرے کو طاقت کے استعمال سے مَرعُوب کرنے کے جتن بھی ہو رہے ہیں۔ یہ تماشا دیکھنے والے حیران ہیں کہ کس کی نیت کو درست جانیں اور کس کے بارے میں بدگمانی کو پروان چڑھائیں۔ طالبان کا شِکوہ ہے کہ فورسز آپریشن ختم کرنا ہی نہیں چاہتیں اور حکومت یہ کہتی ہے کہ طالبان قتل و غارت کی دُکان اب تک سجائے بیٹھے ہیں۔ 
مذاکرات پر یقین رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں قتل و غارت کے خاتمے کی راہ اِسی طور ہموار ہوتی ہے۔ مذاکرات بھی چلتے رہتے ہیں اور طاقت کا مظاہرہ بھی۔ فریقین ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں لانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اِس وقت طالبان بھی یہی چاہتے ہیں کہ اُن کی پوزیشن ایسی کمزور نہ ہو کہ حکومت کی ہر بات ماننی پڑے۔ ریاست سے لڑنا اُن کے بس کی بات نہیں‘ پھر بھی وہ انا کا لبادہ اتار پھینکنے کو تیار نہیں۔ قوم ایک بار پھر گومگو کی حالت میں ہے۔ ماحول پر شش و پنج کا عالم طاری ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ اِس بحر کی تہہ سے کیا اُچھلے گا۔ آنکھوں میں اُمیدوں کے روشن چراغ بھی ہیں اور مایوسی کا اندھیرا بھی۔ دِل کھلے ہوئے بھی ہیں اور بجھے ہوئے بھی۔ معاملات پَل پَل بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب نظر کا دھوکا ہے، نظر بندی ہے، شعبدہ ہے۔ ہوگا وہی جو طے کیا جاچکا ہے۔ کیا طے ہوچکا ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا۔ ایسے میں اہلِ وطن کیا سوچیں؟ یہی کہ جو کچھ ہوگا وہ کسی طور کم از کم اُن کے حق میں تو نہ ہوگا۔ اور وہ ایسا کیوں نہ سوچیں؟ اب تک یہی تو ہوتا آیا ہے۔ 
وفاقی وزیر داخلہ کو بے یقینی، بدگمانی اور مایوسی کے اندھیرے میں بہت دُور کی سُوجھی ہے۔ موصوف نے طالبان کو کرکٹ میچ کھیلنے کی دعوت دے ڈالی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ دعوت سیاسی وکٹ پر چَھکّا لگانے کی کوشش ہے یا کلین بولڈ ہونے کی خواہش کا اظہار! مرزا تنقید بیگ حیران ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کو خالص سنجیدہ و کشیدہ ماحول میں کرکٹ کی کیا سُوجھی۔ ہم نے سمجھانا چاہا کہ وفاقی وزیر داخلہ پر کام کے ''دباؤ کا پریشر‘‘ بہت زیادہ ہے اِس لیے وہ تھوڑی بہت دِل پشوری چاہتے ہوں گے۔ ہمارا اِتنا کہنا قیامت ہوگیا۔ مرزا پھٹ پڑے: ''بھلا یہ کون سا موقع ہے دِل پشوری کا؟ قوم کی جان حلق میں اٹکی ہے اور وزیر داخلہ کو طالبان سے کرکٹ میچ کھیلنے کی پڑی ہے۔ چَھکّے لگانے کی ایسی کوششوں ہی نے تو قوم کو بار بار رن آؤٹ کرایا ہے۔‘‘ 
ہم نے عرض کیا کہ وزیر داخلہ نے تو بس یونہی علامتی طور پر ایک بات کہی تھی۔ آپ تو پیچھے ہی پڑگئے۔ کیا وزیر داخلہ کو اِتنا حق بھی نہیں کہ دو چار ہلکی پھلکی باتیں ہی کرلے۔ آخر اُن کے پیشرو رحمٰن ملک بھی تو ایسا ہی مزاج رکھتے تھے۔ 
مرزا نے کہا ''رحم ملک کے کھلنڈرے پن نے جو گل کِھلائے ہیں اُن کی 'مہک‘ برقرار ہے۔ اُن کے مزاج کا اثر چوہدری نثار میں بھی در آیا ہے۔ مگر اب کسی بھی بات کو تمسخرانہ یا علامتی انداز سے کہنے کی گنجائش کہاں بچی ہے؟ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ جو کچھ سب کے سامنے ہے اُسے سات پردوں میں لپیٹنے کی کوشش صورتِ حال کے بھونڈے پن میں صرف اِضافہ کرسکتی ہے!‘‘ 
مرزا کی طرف سے یہ تنقید ہم سے ہضم نہ ہوسکی۔ ضروری تو نہیں کہ قوم کو چند ہلکے پھلکے لمحات دینے کی کوشش کا تمسخر ہی اُڑایا جائے۔ شدید ذہنی اور اعصابی دباؤ کے شکنجے میں پھنسی ہوئی قوم کو وزیر داخلہ اگر طالبان سے کرکٹ کے نام پر ہنسے کا موقع دے رہے ہیں تو اِس میں قباحت کیا ہے! مگر مرزا ہم سے متفق نہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ ہمارے ہاں جنہیں اقتدار اور اختیار ملا ہے اُنہوں نے اپنے لیے آسانیاں یقینی بنانے کی خاطر سیاست کو کھیل اور کھیل کو سیاست بنا ڈالا ہے۔ ''کرکٹ بے چاری پتہ نہیں کیسا نصیب لے کر پیدا ہوئی ہے۔ ڈھنگ سے کرکٹ کھیلنے کی توفیق تو کسی کسی کو ملتی ہے، ہاں خود کرکٹ سے کھیلنے والے قدم قدم پر موجود ہیں۔ پہلے سَٹّے باز اِس کھیل سے کھیلا کرتے تھے۔ پھر حکومتیں اِس سے شغل فرمانے لگیں۔ فرینڈلی کرکٹ کے نام پر ایسا ڈراما اسٹیج کیا جاتا ہے کہ نگاہیں پَردہ اُٹھنے کی منتظر ہی رہ جاتی ہیں! اب عسکریت پسندوں سے کرکٹ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی جارہی ہے۔‘‘ 
ہمیں حیرت ہے کہ مرزا کو حیرت کیوں ہے۔ جہاں اِتنا بہت کچھ ہو رہا ہے وہاں طالبان سے کرکٹ بھی سہی۔ ایک آدھ میچ کھیل لیا تو کون سی قیامت آجائے گی۔ کیا پتہ ایسا کرنے سے طالبان کے دِلوں میں حکومت کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو جائے۔ جب مار کُٹائی سے بات نہ بن رہی ہو تو متبادل کے طور پر کرکٹ کو آزمانے میں کیا ہرج ہے۔ آخر بھارت کے ساتھ بھی ہم کرکٹ ہی کی راہ پر چلتے ہوئے مفاہمت کی منزل کی طرف رواں ہیں! اور دیکھیے، جب سے فرینڈلی کرکٹ عام ہوئی ہے، جنگ و جدل کا ماحول پس منظر میں چلا گیا ہے۔ 
چوہدری نثار نے طالبان سے کرکٹ میچ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ امن کے خواہاں ہیں، خواہ وہ کسی راستے سے ہوتا ہوا آئے۔ طالبان سے لڑ کر نہ سہی، اُن کے ساتھ کرکٹ کھیل کر سہی۔ ہاں، طالبان نے کرکٹ کھیلنے سے معذرت کرکے اپنے سخت گیر اور غیر لچک دار ہونے کا ثبوت ضرور فراہم کیا ہے۔ ہمیں اُن سے ایسی ''سنگ دِلی‘‘ کی توقع نہ تھی۔ اصلی و نسلی کرکٹ میں تو اب ہمیں محظوظ کرنے کا دم رہا نہیں۔ ایسے میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے میچ سے شاید طبیعت کچھ بہل جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved