جگر تھام لیجئے ، میں آپ کو کائنات کی کہانی سناتا ہوں ۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کائنات میں توانائی کا بنیادی ماخذ ، ایک سورج یا ستارہ کیسے جنم لیتاہے ۔ہلکی ترین گیسوں ، ہائیڈروجن اور ہیلیم کے بادل اور گرد کششِ ثقل کے تحت آپس میں جُڑتے ہیں (یہ بادل ہر کہکشاں میں بکثرت موجود ہوتے ہیں)۔ بادلوں کے اس مجموعے کا وزن ایک خاص حد سے بڑھ جاتاہے۔ مرکز میں دبائو اور درجہ حرارت اس قدر شدید ہو جاتاہے کہ آخر کار فیوژن کا عمل شروع ہو جاتاہے ۔ ہائیڈروجن کے چار ایٹم مل کر ہیلیم کا ایک ایٹم بناتے ہیں ۔ اب یہ کہا جا سکتاہے کہ ستارہ پیدا ہو چکا ۔ توانائی کی ایک عظیم الشان لہر خارج ہو تی ہے اور گرد و نواح کو صاف کردیتی ہے ۔ کچھ گرد پھر بھی بچ رہتی ہے اور نوزائیدہ سورج کے مدار میں گردش کرتی رہتی ہے ۔ کئی ملین سال میں وہ آپس میں جُڑکے چٹانیں بناتی ہے ۔ یہ بڑے اجسام ایک دوسرے سے ٹکراتے اور جڑتے ہیں۔ آخر کار وہ سیاروں میں ڈھل جاتے ہیں ۔ گویا سیارے اپنے ستارے کے بچے کھچے ملبے سے تعمیر ہوتے ہیں ۔
سورج تقریباً ساڑھے چار ارب سال کا ایک جوان ہے اور ابھی اس کی نصف سے کچھ زیادہ زندگی باقی ہے ۔ نظامِ شمسی کی
کہانی بظاہر یہاں تمام ہو تی ہے لیکن دو اجسام کا ذکر ضروری ہے۔ سیّارہ مشتری، جو اس قدر جسیم ہے کہ باقی تمام سیارے اس میں سما جائیں ۔ اجزائے ترکیبی اس کے وہی ہیں ، جو ایک سورج کے ہوا کرتے ہیں ، یعنی ہائیڈروجن اور ہیلیم ۔ اس بنا پر اسے ایک ''ناکام سورج ‘‘کہا جاتا رہا لیکن یہ غلط ہے ۔ سورج سے اس کا موازنہ ممکن نہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ چند اینٹیں اور بجری کا ایک چھوٹا سا ڈھیر دیکھ کر کہا جائے کہ یہاں ایک گھر بننا تھا مگر بن نہ سکا۔بہر حال اپنے بڑے قد ّو قامت اور خطرناک کشش سے یہ سیارہ نظامِ شمسی کی آوارہ چٹانوں کو اپنی طرف کھینچ کر صفائی ستھرائی کا کام بخوبی انجام دیتا ہے وگرنہ ہماری زندگی بھی خطرے سے دوچار رہتی ۔
نظامِ شمسی کا دوسرا شاہکار زحل کا چاند ٹائٹن ہے ۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہاں کرّہ ارض کے تیل اور گیس کے مجموعی ذخائر سے کئی گنا زیادہ مائع قدرتی گیس زمین پہ بہتی اور آسمان سے برستی ہے ۔ اس لیے بھی کہ کرّہ ء ارض کے بعد یہ بھاری فضا رکھنے والا نظامِ شمسی کا واحد جسم ہے ۔ موسم یہاں بدلتے ہیں اورماحول وہی ہے ، جو سیارہ ء ارض پہ چار ارب سال قبل تھا۔ زندگی کی پیدائش اور نشو و نما کے لیے تین بنیادی شرائط ہوا کرتی ہیں ۔ آرگینک مالیکیولز، پانی یا ایسا کوئی مائع ، جو ان مالیکیولز کو حل کر کے مزید پیچیدہ ہونے میں مدد دے اور توانائی کا منبع(سورج)۔ یہاں یہ تینوں موجود ہیں اور کوئی عجب نہیں کہ دو تین ارب سال کے بعدزندگی یہاں کھلکھلا رہی ہو۔ اس وقت تک ہمارے سورج کی گرمی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہوگا ۔ کرّہ ء ارض پہ تو حیات جل کے بھسم ہو چکی ہوگی (اگر قیامت کا حادثہ رونما نہ بھی ہوا تو ) لیکن ٹائٹن سورج سے کافی دور ہے ۔ اس کے لیے تو یہ شدید گرمی خوشگوار ہوگی ۔
ہماری کہکشاں میں سو ارب سورج (ستارے ) ہیں ۔ ان میں سے اکثر دو یا تین کے گروپ میں روبہ عمل ہیں(ہمیں اس پر شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہمارا سورج تنہا ہے ورنہ ایک تو ہم رات سے محروم ہو تے اور دوسرا گرمی شدید ہوتی )۔ ہم اپنے سورج سے 93ملین میل کے فاصلے پر ہیں ۔ یہ ایک محفوظ فاصلہ ہے مگر اس پر بھی کچھ ممالک شدید گرمی سے دوچار ہیں اور بعض برف کی تہوں میں دبے ہیں ۔ ہر سیارہ ہماری زمین جیسا خوش قسمت نہیں ہوتا، مثلاً او سائرس۔ وہ اپنے سورج سے صرف 6.5ملین کلومیٹر دور ہے اور اس کا درجہ حرارت ہزار ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ ہماری زمین کی کششِ ثقل بھی موزوں ہے ورنہ چاند جیسے چھوٹے کرّے کی طرح ہم قدم اٹھاتے ہوئے ہوا میں اچھل جاتے ۔ بعض سیارے اپنے سورج کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے اس کی خوفناک کشش کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ تب وہ ستارے کے گرد تو گھومتے ہیں مگر اپنے گرد نہیں ۔ مطلب یہ کہ ان کے ایک حصے پر مسلسل رات اور دوسرے پر ہمیشہ دن ہوتا ہے ۔ ایک طرف پگھلی ہوئی چٹانیں ، دوسری طرف سخت سردی ۔
کائنات ایک عجائب گھر ہے ۔ مثلاً آپ ایک سیارے کا عجیب و غریب مدار دیکھتے ہیں ۔ ایک طرف وہ اپنے سورج کے بہت قریب سے گزرتا ہے اور پھر انتہائی دور سے جا کر پلٹتاہے ۔ یہ مدار شدید ترین موسموں کا باعث بنتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ سیارے اپنے سورجوں کے گرد گردش کرتے ہیں لیکن اگر آپ ایک سورج ہی کو ناقابلِ یقین رفتار سے کسی نادیدہ چیز کا طواف کرتے دیکھیں تو ہرگزپریشان نہ ہوں ۔ یہ کوئی عظیم الجثہ بلیک ہول ہوگا ، جو ستارے ہضم کر لیتا ہے ۔ پھر آپ کو کسی بھی سورج سے محروم کچھ یتیم سیارے نظر آئیں گے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ کون سی قوت تھی ، جس نے انہیں اپنے مدار سے مار بھگایا۔ ہو سکتاہے کہ ان کے ہمسایے میں سیاروں کی تعداد بہت زیادہ ہو اور ان کے باہمی تصادم سے یہ عجوبہ رونما ہوا ہو۔
سو ارب کہکشائیں ۔ ایک ایک کہکشاں میں سینکڑوں ارب ستارے اورکم از کم اتنے ہی سیارے ۔ ایسے میں پلٹ کر خود کو دیکھو اور شرم سے پانی پانی ہو جائو۔ ایٹموں کا ایک مجموعہ یکایک سوچنا شروع کر دیتاہے ۔ وہ اپنی منفعت کے ہر پہلو پہ غور کرتاہے، سوائے اپنی تخلیق کے بنیادی مقصد کے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کا پہلا کام تخریب ہے ۔ کیا انسانیت اسی کانام ہے ؟