ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین طالبان کے خلاف بھرپور فوجی آپریشن کا شدّومد سے مطالبہ کررہے ہیں۔ان کے حکم پر ایم کیو ایم نے پولیس اور رینجرز کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے کراچی میں ایک عظیم الشان جلسہ عام کا اہتمام بھی کیا اور جواباً مذکورہ دونوں اداروں کی طرف سے شکریے اور تحسین کے الفاظ بھی وصول کئے۔اس سے پہلے ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی پولیس اور رینجرز کو اس سلوک کا مستحق نہیں گردانا گیا تھا۔ کئی رہنما تو ''مہاجر کشی‘‘ کی داستانیں بیان کرتے نہیں تھکتے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے کارکنوںکو چُن چُن کر ٹارچر کیا جا رہا ہے۔پولیس اور رینجرزکی طرف سے اس الزام کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے ایسی توجیہات بھی پیش کی جاتی رہیں، جن کو تفصیل سے بیان کرنا بھڑوں کے چھتے میںہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ ویسے بھی ''تجزیے‘‘ کو واقعاتی شہادت کا متبادل تسلیم کرنا آسان نہیں ہوتا۔منطقی تجزیات کے نتائج گمراہ کن ہو سکتے ہیں اور کسی واردات کے اصل مجرموں تک پہنچنے میں مدد دینے کے بجائے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی طالبان کے خلاف کراچی میں اقدامات اور قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائیوں نے ایم کیو ایم کو اطمینان کا سانس لینے پر مجبور کیا اور اس نے اپنی شکایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے بڑے حریف کونشانہ بنانے والوں کی پیٹھ ٹھونکنا اپنا فرض جانا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی میں طالبان ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں اور یہاں کے کسی بھی مسلح گروہ سے پنجہ آزمائی کر سکتے ہیں۔یہاں دہشت گردی کا جو راج برسوں سے چلا آ رہا ہے، اس میں یہ ایک نئے عامل کا اضافہ ہے۔ اس نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ بندوق برداروں کو اگر قانون کی طاقت نہیں روکے گی تو ان کو چیلنج کرنے والی کوئی اور بندوق ایجاد ہو جائے گی۔ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا گروہ پیدا ہوتا چلا جائے گاکہ جو سکہ بازار میں چل رہا ہو، اس ہی کی ٹکسال تو لگے گی۔
ہر وہ شخص جو دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے، اسے صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعریف ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ سیاسی عمل کو توانا کرنے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرے اور اس بات کے لئے پورا زور لگا دے کہ معاشرے میں دلیل اور مکالمے کی طاقت کو فروغ حاصل ہو۔ قانون کا ہاتھ ہر لاقانونیت تک پہنچے اور مجرم خواہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی چھپنے کی کوشش کر رہے ہوں، انہیں پناہ نہ ملے۔ قانون اتنا موثر، تفتیشی ادارے اتنے معتبر اور عدالتیں اتنی موقر ہوں کہ ان سے کوئی بچ نہ سکے۔ہماری تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مجرم حکومتوں کی پناہ میں جا کر پاک باز اور حکومتوں کے خلاف آواز اٹھانے والے پاک باز، مجرم قرار دیئے جاتے رہے ہیں۔ 1958ء کے مارشل لاء نے جہاں بہت سے اچھے کام کئے، وہاں ایک ایسی غلط کاری کا مرتکب بھی ہوا کہ جس نے (بالآخر) اس کی ساری خوبیوں پر پانی پھیر دیا۔1956ء میں جو آئین 9سال کی محنت کے بعد بنایا گیا تھا، اس پر پوری قوم کا اتفاق تھا۔تنقید تو اس کی کئی شقوں پر بھی ہو سکتی تھی اور کی بھی جا رہی تھی، لیکن اسے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل تھی۔ڈھاکہ سے لے کر پشاور تک اس کے تحت نظام مملکت چلنا شروع ہوگیا تھا۔ 1958ء میں اسے منسوخ کیا گیا تو جنرل ایوب خان کے عطا کردہ دستور پردوسرا (اور دیرپا) قومی اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جا سکا۔اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے بڑھتے بڑھتے تحریک کی شکل اختیار کرلی، انتظامی ڈھانچہ بے توقیر ہوا اور بالآخر ایوب خان صاحب کو اس کی بساط اس طرح لپیٹنا پڑی کہ ان کی اپنی بساط بھی لپٹ گئی اور ملک بھی تقسیم ہو گیا۔
1973ء کا دستور پھر اتفاق رائے سے بنایا گیا، لیکن اب مغربی پاکستان ہی کا نام پاکستان تھا۔ اس دستور میں یہ اضافہ کر دیا گیا کہ اسے سبوتاژ کرنا انتہائی غداری قرار پائے گا، جس کی سزا موت یا عمرقید ہو گی۔ اس کے بعد اس دستور کو منسوخ تو نہ کیا جا سکا، لیکن معطل کر کے فوج اقتدار سنبھالتی رہی۔ اس کا بہت کچھ بدلا گیا، پھر بدلے ہوئے کو بدلا گیا۔ یہ مشق ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئی، لیکن دفعہ 6بدستور موجود رہی، عدالتیں اور اسمبلیاں اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معاف کرتی رہیں، الاّ یہ کہ جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام تک نوبت آ گئی، جس کا ارتکاب 3نومبر 2007ء کو کیا گیا اور اعلیٰ عدالتوں کے متعدد ججوںکو گھر بھجوا دیا گیا۔اس کے خلاف سپریم کورٹ کے سات ججوں نے (فی الفور) ایک مختصر فیصلہ سنایا، اور پارلیمنٹ نے بھی اس کے مرتکب کو معافی دینے سے انکار کردیا۔ جنرل پرویز مشرف کا یہی کیااب ان کے سامنے دھرا ہے۔ ان پر مقدمہ قائم ہے، خصوصی عدالت میں سماعت جاری ہے، لیکن وہ راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں بیماری کی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے کی مشق کررہے ہیں۔
آج دہشت گردی کی جس وبا کی لپیٹ میں پاکستان آ چکا ہے اور جن طالبان سے لڑنے کے لئے جناب الطاف حسین پاکستانی فوج کو یہاں تک ہلہ شیری دے رہے ہیں کہ وہ حکومت کو ''ٹیک اوور‘‘ کرلے، یہ (طالبان) انہی پرویز مشرف کے فوجی دور ہی میں توجوان ہوئے ہیں، انہی کے اقدامات کی بدولت تو ان کو شہ ملی ہے۔گویا، جن پانیوں میں ان کی افزائش ہوئی ہے، انہی کے سیلابی ریلے کو پھر آب حیات قرار دیا جا رہا ہے۔آج پاکستان کو جگہ جگہ جن منہ زوروں کا سامنا ہے ، ان کا مقابلہ تو پوری قوم اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو طاقت فراہم کرکے ہی کر سکتی ہے۔اگر قوم کو الجھا دیا جائے، اس سے اس کی منتخب حکومت چھین کر اسے پھر کنفیوژن کے صحرا میں دھکیل دیا جائے، ملک بھر میں ''آمریت اور جمہوریت‘‘ کی ایک نئی کشمکش شروع کرا دی جائے تو پھر سب سے زیادہ خوشی تو ان دہشت گردوں ہی کو ہوگی، جن کا قلع قمع کرنے کے لئے شدید بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)