تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     02-03-2014

نااہل افراد کی تعیناتی

بیرون ِ ملک اپنی نمائندگی کے لیے نہایت نااہل افراد کا انتخاب کرنے میں پاکستان اکیلا نہیں، اس صف میں بہت سے دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ صدر اوباما کے دورِ صدارت میں جن دوسو بیاسی افراد کو دیگر ممالک میں خدمات سرانجام دینے کے لیے بطور سفارت کار منتخب کیا، ان میں سے اگرچہ کچھ بہت عمدہ افراد بھی تھے لیکن تمام اس اہم عہدے پرنامزد ہونے کے اہل نہ تھے۔ حال ہی میں ''امریکن فارن سروس ایسوسی ایشن‘‘، جس میں موجودہ اور سابقہ اکتیس ہزار سفارت کار شامل ہیں، نے صدر اوباما اور آنے والے امریکی صدر کے نام اپنے پیغام میں کہا۔۔۔ ''جناب صدر صاحب، برائے مہربانی انتخابات کے دوران پارٹی کو بھاری بھرکم چندے دینے والوں کونوازنے کے لیے سفارت کار لگانے کی پالیسی پر نظر ِ ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ان افراد کونہ تو ان ممالک کے معروضی حالات کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی سفارت کاری کے عمومی تقاضوںکا۔ ‘‘اس کے بعد سفارت کارں کی ایسوسی ایشن کی طرف سے گائیڈلائن دی گئی تاکہ اس کی روشنی میں وائٹ ہائوس اس اہم عہدے کے لیے بہترین افراد کا انتخاب کرسکے۔ اس گائیڈلائن کے مطابق۔۔۔ ''ایک اچھے سفیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میزبان ملک، اس کی ثقافت، زبان، رہن سہن اور دیگرانٹر نیشنل امور کا تجربہ رکھتا ہو۔‘‘
ایسوسی ایشن نے اپنے صدر کے نام پیغام میں کہا کہ ایک سفیر 
کے الفاظ اور افعال کا امریکہ کی قومی سلامتی اور مفادات پر گہرا اثر پڑتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ ۔۔۔''ایسے امیدواروں کا انتخاب کیا جائے جو ہمارے ملک اور اس کے سفارتی مشن کی حساسیت سے آگاہ ہوں۔‘‘میراخیال ہے کہ صرف امریکی صدر کو ہی نہیں، پاکستانی وزیرِ اعظم اور صدر صاحبان کو بھی ان اصولوںکو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جہاں ہم امریکیوں سے بہت سی چیزوںکے طالب رہتے ہیں تو ہدایت اور رہنمائی لینے میں کیا حرج؟تاہم کیا ہمارے سیاسی سرکل میں کسی کے پاس اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے حکمرانوںکو کہہ سکے کہ جناب آپ نے بطور سفارت کار اور سفیر جن افراد کا انتخاب کیا ہے، وہ ان عہدوںکے لیے موزوں نہیں۔کئی سالوں سے دنیا کے اہم دارالحکومتوں کے لیے نامزد کیے گئے سفیر فارن سروس سے نہیں بلکہ ان کے لیے منظورِ نظر اور من پسندافراد، جو نااہل ہوتے ہیں، کا چنائو کیا جاتا ہے۔اس پس ِ منظر میں آپ نے شاید Spoil System نامی ایک اصطلاح کانام سنا ہو۔ اس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔۔۔''عملی طور پر ایک سیاسی جماعت کی تما م توجہ انتخابات جیتنے پر ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے من پسند افرا د، جو عام طور پر وہ ہوتے ہیں جو پارٹی 
کو انتخابی عمل میں کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، کو سرکاری ملازمتوں یا دیگر مراعات سے نوازا جاتا ہے ۔ ‘‘ یہ اصطلاح 1828ء میں ایک امریکی قانون ساز نے وضع کی۔ 
گزشتہ کئی سالوں سے میںنے نہایت دکھ کے ساتھ مختلف سربراہوں، جیسا کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف ، مشرف اور زرداری کو دیکھا ہے کہ اُنھوںنے کس طرح اپنے اختیار کا منفی فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی نااہل افراد کو سفارت کاروں جیسے اہم عہدوںپر نامزد کیا۔ ان افراد میں اس کے سوا کوئی اور خوبی نہ تھی کہ وہ ''حاکم ِ وقت ‘‘سے کسی قسم کا تعلق رکھتے تھے۔ صدر زرداری نے واشنگٹن کے لیے حسین حقانی کو نامزدکیا اور مجھے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کس طرح نہ صرف صدر ِ پاکستان بلکہ ریاست کے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔ ان کی طرف سے اچھالے گئے میمو کی وجہ سے عسکری ادارے حکومت سے ناراض ہوئے کیونکہ اس کے بارے میں گمان یہی کیا گیا کہ وہ میمو ایبٹ آباد میں بن لادن کی ہلاکت کے بعد صدر کے کہنے پر لکھا گیا تھا۔اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا واشنگٹن گئے تاکہ میمو کے بارے میں تحقیقات کرسکیں۔ اسی طرح زرداری حکومت کی طرف سے مسقط میں متعین کیے گئے سفیر امین اﷲ رئیسانی کے بارے میں بہت سوںکو یاد ہوگا کہ کس طرح وہ اپنے تمام خاندان کو دمشق لے گئے اور وہاں پاکستان انٹر نیشنل سکول میں ملازمتیں دلا دیں ۔ دو سال کے دوران اُن کی بہن سعیدہ کو سکول پرنسپل بنایاگیا تھا ، ایک اور بہن مس عباس اردو کی ٹیچر مقرر کی گئیں، ان کی بیٹیاں آمنہ اور قرأۃ العین ٹیچر، برادر ِ نسبتی اشفاق کلرک،بھتیجے عتیق اور علی بزنس ٹیچر، پوتی نائلہ ریاضی کی ٹیچر،ان کی بہن کے داماد عبداﷲ اور اس کے کزن احسان کو بھی ٹیچر مقررکیا۔۔۔ ہاں ایک اور کزن رشید بیالوجی کے ٹیچر بھی بنے۔ ان سب کی تنخواہوں کی مدمیں دوسال کے دوران دو ملین ڈالر ادا کیے گئے۔ شام میں تعینات رہنے والے ایک سابقہ سفیرنے مجھے بتایا۔۔۔''شاید سفیر صاحب کے پالتو کتے کوسکول میں ملازمت نہ مل پائی ہو، تاہم اگر وہ اسے بھی کسی شاہانہ ملازمت پرفائزکرنا چاہتے تو انہیںکوئی رکاوٹ نہ تھی۔آپ جتنے مرضی کالم لکھ کر ان پر تنقید کرتے رہیں، ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگاکیونکہ وہ زرداری کی پسند سے آئے ہیں۔ ‘‘پاکستان کے پیرس میں سفارت خانے کے لیے ایک فیشن ڈئزائنر کی سفارش پر ڈی ایم جی سطح کے ایک جونیئر افسر جہانزیب خاںکو سفیر مقرر کیا جانا تھا لیکن عدالت کی مداخلت کا شکریہ کہ پاکستان ایک اور شرمندگی سے بچ گیا۔ سینئر سول سرونٹس کے احتجاج پر عدالت نے وہ تعیناتی منسوخ کردی۔ 
تاہم اس ضمن میں موجودہ اور سابقہ حکمران ہی نہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں کچھ غلط افراد کو سفیر بناکر بھیجا، تاہم یہ امور ان کو بہت مہنگے پڑے۔ انہوں نے جن افراد کو نامزدکیاتھا، ان کی اصلیت سے صدر فاروق لغاری واقف تھے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کا تعلق بھی پی پی پی سے تھا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھاکہ معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے تو انہوں نے انتہا ئی قدم اٹھا لیا۔ مہران گیٹ اسکینڈل اب بہت کم افراد کی یادداشت میںہے اورشاید حامد اصغرقدوائی کو بھی فراموش کردیا گیا ہے۔ وہ نوے کی دہائی میں ایف آئی اے کو مطلوب تھے، لیکن جب میں نواز شریف عہدمیں پی ایم سیکرٹریٹ میں گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ سیف الرحمان کے ساتھ احتساب سیل میں کام کررہے ہیں۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی تفصیل ہے اور آئندہ کالموں میں گاہے بگاہے ان امور کا ذکرکیا جاتارہے گا تاکہ کوئی خود کو امیر المومنین نہ سمجھنے لگ جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved