تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-03-2014

گند بہرحال صاف ہونا چاہیے

جمشید دستی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک عادی جھوٹا اور ڈرامے باز شخص ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس بار وہ سچ بول رہا ہے۔ جھوٹے کے ساتھ یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی سچ بولے تو عام لوگ اس کے ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی بات پر یقین نہیں کرتے اور جن کے بارے میں وہ سچ بول رہا ہوتا ہے وہ خاص طور پر اس کے ماضی کو کھنگال کر نہ صرف یہ کہ اس کی بات کو رد کر دیتے ہیں بلکہ اس سچ کو بھی اس کا ایک اور جھوٹ ثابت کر کے خود صاف بچ نکلتے ہیں اور الٹا اسے پھنسا دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے مجرہ نواز اور رند بلا نوش ارکان یہی کچھ کر رہے ہیں اور ان کے تماش بین اور ''گلاس فیلو‘‘ ساتھیوں کی پوری بٹالین ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ 
جمشید دستی کا ماضی مبینہ طور پرجھوٹ کا پلندہ ہے۔ بی اے کی ڈگری سے لے کر اس کی غربت تک سب ڈرامے کے سواکچھ نہیں، لیکن یہ جمشید دستی کا قصور نہیں، اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک چرسی ٹرک ڈرائیوروں کے درمیان برباد ہوگیا ہوتا۔ آخر ایک خوش شکل لڑکا آل پاکستان ٹینکرز ایسوسی ایشن کے صدرکے سیکرٹری کی حیثیت سے کتنی ترقی کر لیتا؟ یا پھرمظفرگڑھ کی کچہری میں حافظ احمد بخش کے منشی کی حیثیت سے وہ کیا تیر چلا لیتا؟ زیادہ سے زیادہ مظفرگڑھ کی ڈسٹرکٹ بار کے کلرکوں کا صدر بن جاتا یا اپنے ایک درجن کے لگ بھگ مبینہ طور پرجرائم پیشہ بھائیوں کے طفیل ضلع کا ایسا بھتہ خور بن جاتا جس کا نام ہر تھانے میں درج ہوتا اور بس! وہ ایک باہمت آدمی ہے اور اس کی اسی جرأت نے اسے ٹرک اڈوں میں برباد ہونے سے‘ مظفرگڑھ کے منشیوں کے ہجوم میں گم ہو جانے سے بچا لیا اور وہ اپنی ہمت‘ مبینہ دروغ گوئی اور ڈرامہ بازی کے طفیل ضلع کونسل کی ممبری سے ہوتا ہوا قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ شاید اس کی آخری درجے پر پہنچی ہوئی جرأت کا ہی کمال تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں نااہل ہونے سے بچ گیا۔ 
سیاسی سوجھ بوجھ سے بالکل فارغ اور اچھے وکیل کو فیس ادا کرنے میں ازحد بخیل نوابزادگان مظفرگڑھ یعنی نوابزادہ نصراللہ خان کے فرزندان نے اپنا سچا کیس ہارنے کے لیے جس دلجمعی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا‘ وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک ''روشن باب‘‘ ہے۔ دوسری طرف ریٹائرڈ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بھی اس کی ڈھٹائی کی حد تک بڑھی ہوئی جرأت پسند آ گئی اور انہوں نے پاکستان کے ہرجعلی ڈگری ہولڈرکو تو رگڑ کر رکھ دیا مگر جمشید دستی پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے اس کی قومی اسمبلی کی نشست بڑے ٹیکنیکل انداز میں بچا دی۔ سپریم کورٹ میں‘ جہاں بڑے بڑوں کی ہوا نکل جاتی ہے وہ سچ بولتے ہوئے بھی ہکلانے لگتے ہیں ، جمشید دستی نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس کا سامنا کیا اور ان کے سوالات کے ایسے کھرے کھرے جواب دیے کہ خود افتخار محمد چودھری صاحب ایک بار تو انگشت بدنداں رہ گئے۔ اس نے ایک مدرسے سے ''شہادۃ العالمیہ فی علوم الاسلامیہ والعربیہ‘‘ کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ گمانِ غالب ہی نہیں بلکہ یقین کامل ہے کہ موصوف کی یہ ڈگری جناب اسلم رئیسانی کے قول سے متاثرہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی ڈگری تھی۔ حقیقی طور پر یہ ڈگری پرائمری کے بعد گیارہ سالہ کل وقتی تعلیم کا نچوڑہوتی ہے جبکہ موصوف پرائمری کے بعد ٹرک اڈوں پر اور منشیوں کے جمگھٹے میں مظفرگڑھ اور محمود کوٹ وغیرہ میں مصروف ہوتے تھے؛ تاہم حساب‘ سائنس‘ حدیث‘ فقہ‘ ترجمہ‘ قرآن اور تفسیر کے عالم ہونے کے دعویدار جمشید دستی سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس نے قرآن مجید کی کون سی تفسیر پڑھی ہے تو جرأت رندانہ کے مالک ''عالم بے بدل‘‘ جمشید دستی نے جواباً نہایت ہی اعتماد سے بتایا کہ اس نے حضرت موسیٰؑ کی لکھی ہوئی تفسیر پڑھی ہے۔ یہ جواب سن کر جناب چیف جسٹس اگرگھبرائے نہیں توحیران ضرور ہوئے اور انہوں نے اس جرأت اور ہمت کو اتنا پسند فرمایا کہ نااہل کرنے کے بجائے جمشید دستی کو چوائس دے دی کہ وہ استعفیٰ دے دے وگرنہ اسے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ جمشید دستی نے استعفیٰ دے دیا اور اگلے انتخابات میں پھر آن موجود ہوا۔ جمشید دستی کا ماضی اپنی جگہ‘ مگر یہ کوئی قانون قدرت نہیں کہ کوئی جھوٹا شخص بہرحال سچ نہیں بول سکتا۔ جمشید دستی اس بار سچ بول رہا ہے۔
مجھے دو اڑھائی عشرے پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ تب پارلیمنٹ لاجز نہیں ہوتی تھیں اور ارکان اسمبلی کے لیے فیڈرل لاجز نامی رہائشی کمپلیکس تھا۔ میں وہاں اپنے ایک دوست کو ملنے گیا تو وہاں چند روز پہلے کا واقعہ چل رہا تھا۔ رات کو وہاں لائی گئی کسی خاتون نے ''معاہدے‘‘ کی خلاف ورزی ہونے پرکھپ مچا دی اور نامناسب حالات میں کمرے سے باہردوڑ لگا دی۔ اس نے استقبالیہ پر بیٹھے ہوئے ملازم سے کہا کہ وہ اس کی فلاں (ایک پولیس کے عہدیدار کا نام) سے بات کروائے۔ استقبالیہ کلرک نے کہا بی بی آپ واپس کمرے میں چلی جائیں ، وہ صاحب بھی وہیں ہیں۔
میں نے بذات خود ایک دو بار موجودہ پارلیمنٹ لاجز میں نیچے موجود ڈسٹ بنز میں شراب کی خالی بوتلیں دیکھی ہیں جو ظاہر ہے یہیں خالی ہوئی تھیںنہ کہ باہر سے خالی لا کر ان ڈسٹ بنز میں پھینکی گئی تھیں۔ 
ہمارے ہاں اب یہ چیزیں صرف مڈل کلاس میں معیوب اور قابل اعتراض رہ گئی ہیں۔ بالکل نچلی کلاس اپنی حیثیت کے مطابق اور ایلیٹ کلاس اپنی حیثیت کے مطابق ان چیزوں کو نہ صرف اپنا چکی ہے بلکہ سب اپنی اپنی جگہ اس کے جائز ہونے کے منطقی دلائل بھی دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ عوام کے سامنے یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ ابھی معاشرہ اپنی اقدار سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوا۔ ہر حلقے کے ووٹروں کی اکثریت کوعلم ہے کہ ان کا ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی کس قماش کا ہے اورکیا کرتا ہے؟ بس ایک پردہ ہے جو درمیان میں حائل ہے۔ اگر کوئی شخص اس پردے کو ہٹانے کی کوشش کرے تو ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ سارے مجرے باز‘ جواری اور شرابی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور کہنے والے کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ بھلا ایسی باتوں کے ثبوت کہاں ملتے ہیں؟ یہ کوئی کاروباری معاملہ تو ہے نہیں کہ رسیدیں لکھی جائیں اور نہ ہی ڈیفنس کی رجسٹری کہ موقعے پر بائع اور مشتری کی تصاویر لی جائیں۔ بس دیکھنے اور سننے کا معاملہ ہے ، باقی سب ہوائی باتیں ہیں۔ 
سچ تو یہ ہے کہ اب یہ معاملہ ایسا بھی نہیں کہ کسی کومعلوم نہ ہو اور نہ ہی ایسا ہے کو جو چھپا ہوا ہو۔ بس پبلک میں بدنام ہونے کا تھوڑا بہت خوف ہے تاہم وہ بھی اب نام کا ہی ہے وگرنہ کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ڈیرہ غازیخان میں گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں ایک امیدوار کی کیسٹ ملی اور ایسی چلی کہ ٹاپ فلموں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ شہرت کا یہ عالم تھا کہ بچے بچے کی زبان پر صوفی والی کیسٹ کا ذکر تھا۔ امیدوار اپنی شہرت کی بنیاد پر بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ ملتان میں بھی اسی الیکشن میں مجرے کی ایک کیسٹ چلی جس میں تین مخدوم دیگر رنگینیوں کے علاوہ ''ویلیں‘‘ دینے میں مصروف تھے۔ ان تین میں سے دو مخدوم الیکشن لڑ رہے تھے اور دونوں جیت گئے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو سب کا پتا ہے اور انہوں نے ان لوگوں کو ان کی تمام تر ''خوبیوں‘‘ کے ساتھ قبول کیا ہے۔ 
ایک دوست کا کہنا ہے کہ جمشید دستی کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے کہ اس وقت‘ جبکہ ملک سکیورٹی کے حوالے سے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، آپریشن اور مذاکرات کا معاملہ طے نہیں ہو رہا، سکیورٹی ایکٹ اسمبلی میں پیش ہو رہا ہے‘ جمشید دستی قوم کو نان ایشوز میں پھنسا رہا ہے۔ میرا مؤقف ہے کہ یہ قوم تو ایک عرصے سے کسی نہ کسی مسئلے میں پھنسی ہوئی ہے اورشاید پھنسی رہے گی، ہر معاملہ صرف اس لیے تو نہیں چھوڑا جا سکتا کہ اور معاملات زیادہ اہم ہیں۔ سکیورٹی والے معاملات ترجیحاً اپنی جگہ مگر یہ گند بھی اب صاف ہونا چاہیے‘ اس بات سے قطع نظر کہ مدعی کا اپنا کردار کیساہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved