تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-03-2014

سرخیاں‘ متن اور مستنصر حسین تارڑ کے لیے

مری کی تاریخی عمارتوں کو اصل شکل 
میں بحال کیا جائے:نواز شریف
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ''مری کی تاریخی عمارتوں کو اصل شکل میں بحال کیا جائے‘‘البتہ ہم سیاستدانوں کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ اگرچہ طالبان کے آنے کے بعد ہم بھی آثارِ قدیمہ میں شمار ہونے لگیں گے حالانکہ خاص طور پر ہماری طرف سے انہیں بارہا یقین دہانی کروائی جا چکی ہے کہ ہم ان کے مخالف نہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے پنجاب کو کافی رعایت دے رکھی ہے اور ہم ان سے خوفزدہ اس لیے ہیں کہ ہم دل میں خوفِ خدا رکھتے ہیں چنانچہ خُدا کے بندوں کا خوف بھی اگر رکھ لیا جائے تو ایک طرح سے یہ بھی خوفِ خدا ہی کے ذیل میں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاحوں کی سہولت کے لیے ٹریفک مینجمنٹ پر خصوصی توجہ دی جائے‘‘کیونکہ فارغ ہونے کے بعد ہم خود بھی سیاحت کے لیے یہاں آیا کریں گے بشرطیکہ طالبان نے آٹے کے ساتھ گُھن بھی نہ پیس دیا اور ہمیں بھی دھر نہ لیا۔آپ اگلے روز ایوانِ وزیر اعظم میں مری میں سہولیات کی بہتری کے لیے منعقدہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
امریکہ میں دو چیزیں یقینی ہیں‘ایک
ٹیکس اور دوسرا موت...اسحق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ''امریکہ میں دو چیزیں
یقینی ہیں‘ایک ٹیکس اور دوسرا موت‘‘ جبکہ ٹیکس اس لیے یقینی ہے کہ وہاں اکیالیس اکیالیس کروڑ روپے کوئی اپنے بیٹے کو قرضِ حسنہ کے طور پر نہیں دیتا‘ اور اس بیچارے کو ٹیکس لازمی طور پر دینا پڑتا ہے اور حیرت ہے کہ اتنا ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود ان لوگوں کو ٹیکس بچانے کے ایسے صدری نسخوں ہی سے واقفیت نہیں ہے اور جس کا مطلب ہے کہ اس کا زوال باقاعدہ شروع ہو گیا ہے‘البتہ ہمارے ہاں موت یقینی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وقت مقرر ہے کیونکہ دہشت گرد حضرات اس کا وقت اپنی مرضی کے مطابق مقرر کرتے ہیں‘البتہ ہمارے ضمن میں ایک خفیہ معاہدے کے تحت انہوں نے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے کیونکہ ہم بہر صورت اُن کے ساتھ مذاکرات ہی پر زور دے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں ایک ''نکتہ‘‘ کی وضاحت پیش کر رہے تھے۔ 
ہمارے پاس جمہوریت کے علاوہ کوئی
آپشن نہیں ہے...بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمارے پاس جمہوریت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے‘‘کیونکہ جمہوریت ہی کے طفیل یہ ساری برکتیں ہیں جن میں بنک اکائونٹ‘ سرے پیلس جیسی عمارات‘لاہور کا جھونپڑہ اور ساری لہر بہر شامل
ہے‘ ورنہ جمہوریت کے بغیر اللہ کا اس قدر فضل کیسے ہو سکتا تھا۔ اور ہمارے ساتھیوں کی خوش حالی بھی کسی حساب کتاب میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے جمہوریت پر ہمارا ایمان روز بروز پُختہ سے پُختہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے جس کے متزلزل ہونے کا ہرگز کوئی امکان نہیں ہے‘نیب اور عدالتیں جتنا زور جی چاہے لگاتی رہیں‘ اُن کے ہاتھ انشاء اللہ کچھ نہیں آئے گا کیونکہ جمہوریت کے اصولوں پر عمل ہی اس قدر یکسوئی اور دانشمندی سے کیا جاتا ہے کہ اس کے کوئی نقوشِ پا باقی رہنے ہی نہیں دیے جاتے ۔انہوں نے کہا کہ ''آمریت دہشت گردی کے لیے انڈے سینے کی مشین کے مثل ہے‘‘ حالانکہ سونے کے انڈے صرف جمہوریت کی مُرغی ہی دیتی ہے جسے سینے کے لیے کچھ زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی‘صرف ان کے اوپر پورا بوجھ ڈال کر بیٹھے رہنا ہوتا ہے۔ آپ حسبِ معمول ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
لگ رہا ہے کہ حکومت 5سال 
پورے نہیں کرے گی...پرویز الٰہی
سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''لگتا ہے کہ حکومت 5سال پورے نہیں کرے گی‘‘ اگرچہ ہمیں تو یہ بھی لگ رہا تھا کہ یہ الیکشن جیت کر برسر اقتدار ہی نہیں آئے گی اور جنرل پرویز مشرف کی بے مثال قربانیاں ہمارے ہی کام آئیں گی جنہیں ہم وردی میں دس بار بھی مزید منتخب کرانے کے لیے تیار تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے وردی اُتار کر اپنا بھی خانہ خراب کر لیا اور ہمارا بھی‘اس لیے آئندہ آنے والے شرفاء کے لیے ایک سبق ہے کہ و ہ حتی الامکان وردی کے اندر ہی رہیں ورنہ وہ وقت بھی آ سکتا ہے جو آج کل جنرل صاحب موصوف پر آیا ہوا ہے اور اب وہ ساری نصیحتوں کو بالا ئے طاق رکھنے پر ہاتھ مل مل کر پچھتا رہے ہوں گے‘ہو ر چُوپو! انہوں نے کہا کہ ''مشرف کو سزا سے فوج کا مورال گر سکتا ہے‘‘ جبکہ ہمارا مورال‘ تو ابھی سے گرا ہوا ہے اور بھائی صاحب جگہ جگہ چیزوں میں وجتے پھر رہے ہیں‘ خد ایسا وقت دشمن کو بھی نہ دکھائے۔آمین ثمہ آمین۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کر رہے تھے۔
75ویں سالگرہ پر مستنصر حسین تارڑ کے لیے
کام تھا یوں تو کسی خواب کنارے جیسا
کوئی چمکا نہ تری طرح ستارے جیسا
کچھ ٹھہر ہی نہ سکا سامنے تیرے‘ کہ رہا
زورتجھ میں کسی چڑھتے ہوئے دھارے جیسا
بات کچھ اور بھی تھی بات کے پردے میں ضرور
کہ اشارہ ترا آدھا بھی تھا‘ سارے جیسا
یہاں کس کس پہ چڑھا رنگ تمہارا‘ لیکن
نہ ہوا پھر بھی کوئی اور تمہارے جیسا
تیرے اندر تھی کوئی چیز الگ سی‘ورنہ 
تُو کہ ظاہر میں تو لگتا تھا ہمارے جیسا
تیرے باہر میں جھلکتا تھا سکوں اور سکوت
کچھ تڑپتا رہا اندر ترے‘ پارے جیسا
ایک تشویش بھرا تیرا کرشمہ یکسر
دیکھنے میں ہے کسی نرم نظارے جیسا
تیری تصویر دکھاتی رہی سارا منظر
اپنے انواح کی تصویر اُتارے جیسا
ہمیں لگتا ہے ظفر بھی کوئی تیرا کردار
سختی و تلخیِٔ حالات کے مارے جیسا
آج کا مطلع
برسنا ہے کہیں اِس کو نہ کُھل کر چھانے والا ہے
فلک پر ابر کوئی اور ہی لہرانے والا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved