برصغیر پاک و ہند پر برطانوی اقتدارکی تاریخ تقریباً دوصدیوں پر محیط ہے۔ پہلی صدی کلکتہ سے شروع ہوتی ہے اور 1857ئکے مکمل اقتدار پر ختم ہو تی ہے۔اس کے بعد کے نوّے سال تاجِ برطانیہ کے مکمل اختیار کے ہیں۔ان دو صدیوں کے بدیسی اقتدار نے بھی اس قوم کے ساتھ اس قدر بھونڈا مذاق نہیں کیا جو مذاق پاکستان کے ثقافتی مرکز لاہور میں کارپوریٹ سرمائے کے بل بوتے پرلاہورلٹریری فیسٹول منعقدکرکے کیاگیا۔ یہ اس قوم کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے جس کی اپنی ایک تہذیب ہے ‘شناخت ہے اور جس کی زبان میں اس قدر عظیم ادب موجود ہے کہ دنیا کی بہت کم زبانوں میں اس کی مثال ملتی ہے۔وہ دن جرمنی ‘ فرانس ‘ چین یا کسی اور ملک کے لیے کتنا حیران کن ہو سکتا ہے جب ان کے کسی بڑے شہر میں انگریزی ادب کو ان کا ادب تصورکر کے ایک فیسٹول منعقد کیا جائے اور پھر اسے ان کی تہذیب کا حصہ قراردے دیا جائے۔ شاید یہ قومیں اس دن غیرت وحمیت سے ڈوب مریں۔کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسا ہی واقعہ لندن کے البرٹ وکٹر ہال میں ہو جہاں فرانسیسی لکھاریوں کو لندن لٹریری فیسٹول کے نام پر جمع کیا جائے ، مباحث اور مذاکروں کی زبان فرانسیسی ہو اورتڑکے کے طور پر انگریزی ادب کے بھی کچھ شہ پارے پیش کر دیئے جائیں؟ شاید ایسا واقعہ انگلستان کی تاریخ میں کبھی پیش نہ آ سکے اور اگرکوئی کارپوریٹ سرمائے کے بل بوتے پر ایسا کرنے کی کوشش کرے تو پورا لندن جاگ اٹھے۔
لیکن جس قوم کے حلق میں‘ گزشتہ تیس برسوں سے میٹھے زہرکی شکل میں پہلی کلاس سے او اور اے لیول تک افسانوں ‘کہانیوں ‘کارٹونوں اور نظموں کی صورت میں پوری انگریزی تہذیب و ثقافت کو اتارا گیا ہو، جن کے خوابوں میں ان سارے کرداروں کواودھم مچانے کی آزادی ہو، جن کے ذہنوں کے پردوں پر سنڈریلا ‘سانتا کلازاورسنو وائٹ جیسی تصویروں کے نقش و نگار بنائے گئے ہوں،ان کے لیے اپنے ملک کے ہیر رانجھا‘سسی پنوں‘ سوہنی مہینوال اور آدم خان درخینیے سب کے سب ایک بدیسی مخلوق اوراجنبی کردار ہیں۔ وہ اس ملک کی تہذیب کے کرداروںکواسی طرح دیکھتے ہیں جیسے امریکہ کے قابضین ریڈ انڈین مخلوق کو جانتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسے کسی کلچرل شو میں ‘میوزیم کی الماریوں میں یا تاریخ کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ان پرصرف انگریزی زبان میں بڑی بڑی تحقیقی کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں۔
اس ملک کے جس نوجوان طبقے کو گزشتہ تیس برسوں میں انگلش میڈیم سکولوں کے ذریعے تخلیق کیا ہے ، اس کا رویہ اور اس کی سوچ بالکل ویسی ہی ہے۔ یہ پاکستان کے مسائل کا ادراک کرنا چاہے تو سب سے پہلے ان تمام انگریزی مصنفین کو پڑھتی ہے جو اپنے خاص تعصب اور مخصوص عینک کے ساتھ دیکھتے اور لکھتے ہیں۔عالمی میڈیا سے جنم لینے والی کہانیاں اور تصورات اس کی سوچ کا حصہ بن جاتے ہیں۔پھران میںایک ایسی نسل پیدا ہو چکی ہے جو یوں تو پاکستانی ہے لیکن اس کا اس زمین سے اتنا ہی رشتہ ہے جتنا کسی ریڈ انڈین پر انگریزی زبان میں کتاب لکھنے والے کا ہوتا ہے۔ یہ پاکستانی نژاد انگریزیا انگریزی نژاد پاکستانی ہیں جو انگریزی زبان میں اس مظلوم قوم کا المیہ تحریر کرتے ہیں۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیاں اور پبلشر ان کی پذیرائی کرتے ہیں اور عالمی کارپوریٹ سرمائے سے چلنے والے ٹیلی ویژن انہیں پاکستان کے معاملات پر ایک اتھارٹی سمجھ کرمدعو کرتے ہیں اور ان کی کہی ہوئی باتوں کو ہزاروں مضامین اور لاکھوں تحقیقی مقالوں میں سندکے طور پر درج کرتے ہیں اور پھر پورے مغرب میں ان کی کہی ہوئی باتوں کو عام کرتے ہیں۔یہ وہ نسل ہے جو اس ملک کے عوام کو پسماندہ ‘بدتہذیب‘ جاہل ‘ان پڑھ ‘گنوار ‘متعصب جیسے اہانت آمیز القابات سے پکارتی ہے۔یہ نسل پوری قوم کی بحیثیت مجموعی کتنی ہی توہین کرے‘ اسے مکمل عزت واحترام دیا جاتا ہے اور انہیں ایک آزاد اور روشن خیال مصنف کے طور پر عالمی سطح پراجاگرکیاجاتا ہے۔
لاہور میں چند دن ایسے ہی لوگوں کا میلہ تھا جسے لاہوراورپاکستان کی ثقافت کا نام دیا گیا۔اس میں ریڈانڈین کی طرح تڑکے کے طور پر پرانے مصنفین کے اوراق بھی پڑھ کر سنائے گئے اوررقص وموسیقی کے نمونے بھی دکھائے گئے۔ان میں موجود لوگوںکو شاید ہی علم ہوکہ اس ملک میں کس قدر ادب تخلیق ہو رہا ہے اورکیسے کیسے لوگ راتیں جاگ کر تحقیق کرتے ہیں۔صرف شاعری کی کتابوں کا ذکر کریں تو ہر سال سو سے زیادہ کتابیں مارکیٹ میں آتی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جس قدر ترجمے نے رواج پایا اس کی پہلے عشروں میں مثال نہیں ملتی ۔ ہر تازہ کتاب کا ترجمہ چند ماہ میں مارکیٹ میں آ جاتا ہے۔ یہ کسی قوم کی تخلیقی جستجو کا کمال ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان ترجمے سے آگے بڑھی۔افسانہ اور تحقیق پر بھی کتب آئے روزچھپ رہی ہیں ، یہاں تک کہ اب تو بچوں کا ادب تحریر کرنے والے بھی دوبارہ کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ یہ سب کتابیں کئی کئی ایڈیشنوں میں شائع ہوتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں ، لیکن چونکہ کارپوریٹ سرمائے نے یہاں ایک دنیا آباد کرنی ہے تاکہ اس کا مال بکے تو اسے وہی مصنف چاہئیں جو اپنی تحریروں میں ایسی دنیا تخلیق کریں جس میں قتلمے کی جگہ پیزا‘بندکباب کی جگہ برگر‘شلوار قمیض کی جگہ جینز‘جیکٹ اور چپل کی جگہ جاگروالے کردار نظرآئیں۔آرائش حسن و جمال کے سامان لے سے کر لباس کے رنگ ڈھنگ تک سب کا سب بدل جائے تو ان کے مال کی کھپت ہوتی ہے۔
یہ لٹریری فیسٹول نہیں عالمی منڈی کا ایک خوبصورت اشتہار تھا جو کئی دن میرے شہر لاہور میں سجایا گیا۔ جب چائے ہندوستان میں متعارف کرائی گئی تو ہر چوک پر چائے کے مفت سٹال لگائے گئے اور لوگوں کو پلائی گئی اورآج آپ چائے کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ کر رہے ہیں۔ یہی حال اس ملک کا ہے جہاں ایک سچااورکھرا ادیب خون تھوک تھوک کر مر جاتا ہے۔ جہاں شاعر‘ادیب اور افسانہ نگار اپنی کتاب بغل میں تھامے پبلشرزکی منتیں کر رہا ہوتا ہے، وہاں کارپوریٹ سرمائے سے ایک ایسا میلہ سجایا جاتا ہے جس کی زبان اس ملک کے 99.9فیصد عوام جانتے تک نہیں۔اس قدر ظلم‘اتنا تمسخر تو انگریز حکمرانوں نے بھی ہمارا نہیں اڑایا تھا۔