تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-03-2014

ملاقات

کچھ لوگوں سے‘ ان کی وفات کے بعد ملاقات ہوتی ہے۔ حاجی عبدالرزاق ان میں سے ایک ہیں۔ امید ہے آج شب ان سے ملاقات ہوگی۔ 
جنرل حمید گل نے سچ کہا تھا: کسی کا موقف سنے بغیر اسے مسترد نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی کہ کسی ایک کی غلطی کی سزا دوسروں کو نہیں دینی چاہیے۔ وہ چیز جو صوفی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے‘ بس یہی ہے۔ دوسروں کو وہ رعایت دیتا ہے‘ اپنے آپ کو ہرگز نہیں۔ خود ترحمی کا اگر کوئی مرتکب ہو تو وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ حتیٰ کہ پارسا بھی مگر فقیر نہیں۔ 
دلاسا دینے کے لیے طارق چودھری نے میاں محمد بخش کا شعر پڑھا اور واقعہ یہ ہے کہ قلق جاتا رہا۔ 
جِتن جِتن ہر کوئی کھیڈے ہارن کھیڈ فقیرا 
جِتن دا مُل کوڈی ہُندا‘ ہارن دا مُل ہیرا 
جیتنے کے لیے‘ سبھی کھیلتے ہیں۔ اگر تو فقیر ہے تو ہارنے کے لیے کھیل جا۔ ظفرمندی میں ایک کوڑی ملے گی اور ہارنے پہ ہیرا۔ 
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ 
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں 
گاہے‘ اب اشعار اور واقعات کی تکرار ہوتی ہے۔ معاف کردیا کیجیے‘ اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: جس کی عمر کے ساٹھ سال پورے ہوئے‘ اس کی زندگی مکمل ہو گئی (مفہوم)۔ 
دشت سے مدینہ منورہ میں داخل ہونے والے کا ذکر‘ اس سے پہلے بھی وہیں تھا۔ اس کے اشعار بھی۔ وہ اپنے بھائی کا ندیم تھا‘ ہمہ وقت کا ندیم‘ جسے ڈاکوئوں نے صحرا میں قتل کیا۔ اس درد کی اس نے پرورش کی اور گداز کو الفاظ کا پیرہن بخشا۔ ایسے اور اتنے مرثیے اس نے لکھے کہ عرب سرزمینوں میں دور دور تک گونجتے رہے۔ ایک دن‘ اپنے عہد میں شعر کے سب سے بڑے پارکھ امیرالمومنین عمر ابن خطابؓ کا پیغام اسے ملا۔ اگر چاہے تو آئے اور وہ اشعار سنائے‘ جن کی سامع تاب نہ لا سکتے۔ 
کچھ دن پہلے ہی عالی جناب کا بھائی شہید ہوا تھا۔ ان ایام میں کئی بار یہ جملہ کہا: ٹھنڈی ہوا اب ادھر نہیں آتی ؎
وہ شہر چھوڑ گیا اور اس کے بعد اسلمؔ 
چمن سے شہر کی جانب ہوا نہیں آئی 
دیر تک اس کا کلام سنتے رہے۔ پھر ٹھنڈی سانس لی اور بولے: اگر میں شاعر ہوتا تو اپنے بھائی کا ایسا ہی مرثیہ لکھتا۔ وہ بھی خوب نکلا‘ بے باک۔ بولا: امیرالمومنین‘ میرا بھائی جنگ موتہ میں شہید ہوا ہوتا تو میں کبھی اس کا مرثیہ نہ لکھتا۔ کوئی جائے اور جا کر طالبان کو بتائے کہ ایسی آزادی اور ایسی بے ساختگی اسلام نے بندوں کو عطا کی تھی۔ عمر ابن خطابؓ ایسے جلیل القدر کا قول بے تکلفی سے مسترد کیا جاتا‘ اگر کوئی دلیل رکھتا ہو۔ خطا ہو جاتی تو فرماتے‘ عمر ہلاک ہو گیا‘ گاہے دوسروں کو تسلی دینا پڑتی کہ اپنے ساتھ‘ یہ سلوک مت کیجیے۔ 
جس چیز کو فاروقِ اعظمؓ کا کوڑا کہا جاتا ہے‘ میں نے دیکھی ہے۔ چوٹ اس سے نہیں لگتی‘ البتہ آواز اس کی خوفناک ہوتی ہے۔ انتباہ کے لیے! گنتی کے چند واقعات ہوں گے مگر واعظ ان کی ایسی تصویر بناتا ہے کہ گویا ہر وقت برسانے کے لیے بے تاب رہتے ہوں۔ وہ تو اس بات پہ رو دیا کرتے کہ فلاں کے باب میں بدگمانی کے مرتکب ہوئے۔ معافی مانگ لیا کرتے۔ کون سا یہ اسلام ہے کہ خون بہاتا ہے اور شرمندہ بھی ہونے نہیں دیتا۔ نہیں‘ خدا کی قسم یہ محمدﷺ کا اسلام نہیں۔ خارجیوں کا ہو سکتا ہے‘ جن کے معیار پہ سیدنا علی ابن ابی طالب بھی پورے نہ اترے۔ سرکارؐ نے جن کے بارے میں کہا تھا: اللہ اور رسولؐ سے وہ محبت کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کا رسولؐ بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ کب کہا تھا؟ فتح خیبر کے دن۔ کل ایک رفیق سے عرض کیا: اگر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ اہل بیت سے تم زیادہ محبت کرتے ہو تو کس کافر کو اعتراض ہے۔ رہی بحث تو ہمیشہ‘ ہر وقت ہو سکتی ہے‘ آداب کے ساتھ۔ برسبیلِ تذکرہ یہ بھی کہ مجھ ناچیز کی رائے میں افغانستان کی طرح‘ ایران میں بھی گنتی کے لوگ ہیں‘ جو خدا کو یاد رکھتے ہیں‘ اللہ جن کی ترجیح اوّل ہے‘ اکثر بس انقلاب کو۔ اللہ جانے یہ انقلاب کس بیماری کا نام ہے کہ جو اس میں مبتلا ہوا‘ اکثر شفا کے امکان سے بھی محروم۔ 
معاف کیجیے گا‘ ہمیں تو سادہ سے مسلمان اچھے لگتے ہیں‘ خطا کار سے۔ حاجی عبدالرزاق مرحوم ان میں سے ایک تھے۔ زندگی میں ایک بار بھی ان سے ملاقات نہ ہوئی‘ حالانکہ ان کے ادارے نے تین بار پیشکش بھی کر ڈالی۔ ایک بار فون پر خود حاجی صاحب مرحوم نے‘ ایک بار برادرم سلمان اقبال‘ ایک بار ان کے والدِ گرامی حاجی اقبال صاحب نے کہا‘ مکہ مکرمہ کے نواح میں‘ جن سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں تو بھول گیا‘ انہوں نے یاد رکھی۔ تعلق نبھا دیا۔ شاذ ہی سہی‘ زرداروں میں بھی اہلِ انکسار ہوا کرتے ہیں۔ 
بریگیڈیئر باسط پہ خودکش حملہ ہوا تو اللہ نے انہیں محفوظ رکھا کہ اس وقت بھی‘ پروردگار کے ذکر میں مصروف تھے۔ چاہیے تھا کہ فوراً ان کو فون کرتا کہ برسوں کا تعلق ہے۔ میں ایک امتحان میں تھا‘ خود کو ٹالتا رہا۔ ادھر اللہ نے اس میں سرخرو کیا تو بیماری نے آ لیا۔ اللہ کا شکر ہے‘ اب اچھا ہوں؛ اگرچہ خال ہی کسی ایک دن بھی نیند پوری کر سکا۔ مسافرت اس کے سوا۔ کل لاہور میں تھا کہ خود کو کوسا۔ پیر صاحب پگاڑا شریف کا دن بھر پیغام آتا رہا۔ شب ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور دونوں بھائیوں سے‘ دیر تک گپ ہوتی رہی۔ صاحب کس قدر بے تکلف ہیں‘ کس قدر صاحبانِ مروت۔ کراچی کا ٹکٹ جیب میں تھا لیکن سفر ایک شب کے لیے ملتوی کردیا۔ 
یہ ایک اذیت ناک سفر تھا‘ عمر بھر جسے بھلا نہیں سکتا۔ جس پر الگ سے لکھوں گا۔ فی الجملہ یہ کہ جہاز بدترین سواری ہے‘ اڑتا ہوا قیدخانہ۔ کراچی کے ہوائی اڈے سے باہر نکلا تو اندازہ ہوا کہ موسم کے اعتبار سے لباس بے تکا ہے۔ کل دوپہر سے اب تک کچھ کھایا نہ تھا‘ صرف پھلوں کا رس پیا۔ حاجی صاحب ہاتھ پکڑ کر دسترخوان پر لے گئے۔ سیر ہو کے کھایا۔ دو تین گھنٹے کے بعد ملال کا کاسنی رنگ دُھلنے لگا۔ پتہ چلا کہ اپنے جیسے لوگ ہیں۔ 
دستر خوان پہ اول میٹھا رکھا گیا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ اگر موجود ہو تو سرکارؐ اول میٹھی چیز کھایا کرتے۔ پھر دیکھا کہ جو بزرگ ہیں‘ وہ پلائو بھی ہاتھ سے کھا رہے ہیں۔ رحمۃ اللعالمینؐ کی دعائوں میں سے ایک یہ ہے: ''اللھم اجعلنی من التوابین و من المتطھرین‘‘ اے اللہ‘ مجھے توبہ کرنے والوں میں شامل کردے‘ مجھے مطہرین میں شامل فرما۔ عارف کا کہنا ہے کہ وہ لوگ‘ جو صفائی اور پاکیزگی کا خیال کچھ زیادہ رکھتے ہیں‘ آمادگی کے ساتھ ہاتھوں سے کھانا وہی کھا سکتے ہیں۔ 
کالم کیا خاک لکھتا‘ تھکان سے نڈھال ہوں‘ کل سہی۔ یار زندہ صحبت باقی۔ 
کچھ لوگوں سے‘ ان کی وفات کے بعد ملاقات ہوتی ہے۔ حاجی عبدالرزاق ان میں سے ایک ہیں۔ امید ہے آج شب ان سے ملاقات ہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved