تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     03-03-2014

خارجہ پالیسی اور توازن

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا مقصد امن کا حصول‘ اقتصادی ترقی‘ عالمی سطح پر تکریم اور اندرونی قومی یک جہتی اور مفاہمت کا فروغ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے داخلہ پالیسی کے اہداف خارجہ پالیسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اقتصادی امداد کا ہر وقت حصول‘ دفاعی تیاری‘ ٹریننگ اور جدید ٹیکنالوجی کا حصول سب اس بات کے متقاضی ہیں کہ خارجہ پالیسی اور اندرونی اہداف ساتھ ساتھ چلیں اور ملکی قوت میں اضافہ کریں۔ اب اگر اعلیٰ تعلیم‘ ریسرچ کے ا دارے‘ جدید ہتھیار‘ عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں اثرورسوخ کے اعتبار سے امریکہ سب سے آگے ہے اور ہم پھر بھی امریکہ مخالف نعرے لگا کر ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سوچ پر جذباتیت غالب ہے‘ واقعیت اور ٹھہرائو کی کمی ہے۔ 
امریکہ سے تعاون کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس کی ہر پالیسی کی تائید کریں، مثلاً پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور یہ فیصلہ ہماری عوامی سوچ کے عین مطابق ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ہند چین جنگ کے بعد پاکستان نے فوراً اس بات کا ادراک کیا کہ چین سے ہماری دوستی اور مفاہمت خطے میں طاقت کے توازن کے لیے ضروری ہے۔ آج اگرچہ بھارت اور چین کے تعلقات بہت بہتر ہو چکے ہیں لیکن پاک چین دوستی اپنی جگہ قائم ہے۔ چین کے ساتھ دوستی سے ہماری خارجہ پالیسی میں توازن آیا اس لیے کہ اپنے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دینا دانش مندی نہیں تھی۔ 
اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم چیلنج یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران سے دوستی میں توازن کیسے رکھا جائے اور یہ کچھ حساس معاملہ ہے اس لیے کہ دونوں ممالک کی اندرون پاکستان Lobbies موجود ہیں۔ چند ہفتے پہلے سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر آئے۔ تین سعودی وزیران سے پہلے پاکستان سے ہو گئے تھے۔ انٹرنیشنل میڈیا نے خبریں لگانی شروع کردیں کہ سعودی عرب پاکستانی ہتھیار خریدے گا اور شامی باغیوں میں تقسیم کرے گا۔ اس سے پہلے ایک اور بے تکی خبر بلکہ تخیل کی پرواز انٹرنیشنل میڈیا کے حوالے سے یہ آئی تھی کہ سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان سے منتقل ہو گی۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں جب آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر کمپیوٹر پر اپنی گلی اور گھر کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں تو کسی بھی ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی منتقل کرنا کیا اتنا آسان ہے؟ 
سعودی عرب اور پاکستان کے مابین تعاون کا فروغ دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے ، انرجی کی صورت حال کو بہتر بنانا ہے ، شدت پسندی کا مقابلہ کرنا ہے۔ سعودی عرب ان تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان پر مالی طور پر سخت وقت آیا تھا تو ہمیں مدد سعودی عرب ہی سے ملی تھی۔ سعودی عرب کی خوراک کی ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں۔ سعودی عرب کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ آزادی اور قومی سلامتی کے لیے مضبوط دفاع ضروری ہے۔ کویت کے ساتھ جو صدام حسین نے کیا تھا وہ اب بھی خلیجی ممالک نہیں بھولے۔ کویت کے پاس مال و دولت بہت تھی لیکن دفاع کمزور تھا۔ 
ایران کی اہمیت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسلمہ ہے۔ ایران نے پاکستان کو تسلیم کرنے میں سب پر سبقت لی تھی۔ شاہ ایران پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ تھے۔ 1979ء میں تہران میں اسلامی انقلاب کا علم لے کر امام خمینی کے حامی کامیاب ہوئے تو پاکستان نے سب سے پہلے انقلابی حکومت کو تسلیم کیا۔ 1965ء کی جنگ میں ایران پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا۔ چونکہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تنائو رہتا ہے ، لہٰذا چین اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات پاکستان کی ضرورت ہیں۔ مستقبل میں انرجی کے وسائل ایران سے آئیں گے۔ 
یہ بات خوش آئند ہے کہ ایران کا دورہ وزیراعظم نوازشریف کے پروگرام میں شامل ہے۔ یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ موجودہ حکومت ایران کی اہمیت کا ادراک رکھتی ہے۔ میرے ایک دوست ابھی حال ہی میں تہران سے ہو کر آئے ہیں۔ ان کی خارجہ امور پر بڑی گہری نظر ہے‘ فرماتے ہیں کہ پاکستان کی ساکھ ایران میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس میں کچھ ہماری غلطیاں ہیں کچھ ایرانیوں کی۔ صدر زرداری اپنے آخری ایامِ حکومت میں گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط کر آئے حالانکہ انہیں پتا تھا کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی اور اس کے لیے اچھے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن الیکشن سے پہلے اس قسم کی شعبدہ بازی کو ضروری سمجھا گیا۔ بوجوہ ایران کی توقیر و تکریم اب پاکستان میں بھی پہلے والی نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ شوق سے خانہ فرہنگ ایران جاتے تھے ، ایرانی اخبار پڑھتے تھے ، لاہور میں خانم بہنام بہت ہی مقبول شخصیت ہوا کرتی تھیں۔ آج کل ایرانی وزیر اس قسم کے بے تُکے بیان دیتے ہیں کہ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے تعاقب میں پاکستان میں داخل ہو سکتی ہیں۔ ایران کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ خیالِ خاطرِ احباب رکھے اس لیے کہ پاکستان اس کا ہمسایہ بھی ہے اور پرانا دوست بھی۔ 
شام کے بارے میں بھی تین سال تک پاکستان کی پوزیشن واضح نہیں تھی۔ سعودی ولی عہد کے دورے میں پاکستان نے 2012ء کی جنیوا کانفرنس کے اس اعلامیے کی تائید کا عندیہ دیا کہ شام میں امن لانے کے لیے عبوری حکومت کا قیام ضروری ہے۔ اس وقت پاکستان کی پوزیشن عالمی نقطۂ نظر سے خاصی قریب آ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں ہماری غیر واضح پوزیشن کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ پی آئی اے کے جہاز کی ہائی جیکنگ کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو اور بہت سے جیالے شام کی سیاسی پناہ میں رہے۔ شام کے بارے میں پاکستان کی پوزیشن کی وضاحت مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز نے کردی ہے کہ پاکستان اب بھی غیر جانبدار ہے اور میرے خیال میں یہ غیر جانبداری ضروری ہے۔ 
کئی تخیل کی اعلیٰ پرواز رکھنے والے مبصر اب بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی جہادی شام میں لڑ رہے ہیں ، لیکن اگر کوئی گیا بھی ہے تو ذاتی حیثیت میں گیا ہوگا۔ اگلے روز وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں شام کے مسئلے پر بحث تھی۔ کئی مبصرین بذریعہ ٹیلی فون اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے‘ میں بھی ان میں شامل تھا۔ برطانیہ سے لارڈ نذیر شرکت کر رہے تھے۔ اس دن پتا چلا کہ چند ایک دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی اور فرانسیسی شہری شام لڑنے کو گئے ہیں۔ 
ابھی حال ہی میں سعودی ولی عہد ہندوستان کے سرکاری دورے پر گئے ، لیکن اس سے پہلے انہوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کو وزٹ کیا جائے۔ یہ خارجہ امور میں توازن کی واضح مثال ہے کہ ولی عہد پاکستان آئے بغیر ہندوستان چلے جاتے تو غلط فہمیاں جنم لے سکتی تھیں۔ لگتا ہے کہ میر انیس بھی ماہر امور خارجہ تھے ؎
خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم 
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو 
ماضی میں افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی یہ تھی کہ چونکہ پشتون علاقے ہمارے ہمسایہ میں ہیں لہٰذا ان کی حمایت پاکستان پر فرض ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شمالی اتحاد والوں کو ہندوستان‘ ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ اب یہ پالیسی کافی حد تک بدل چکی ہے۔ اب پالیسی یہ ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں‘ افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں۔ ہمارے لیے پشتون‘ تاجک‘ ازبک اور ہزارہ سب اہم ہیں اور افغان مسئلے کا حل افغانیوں نے کرنا ہے۔ ہم انہیں گائیڈ نہیں کر سکتے۔ افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی میں توازن آیا ہے۔ 
فارن پالیسی ملک و قوم کی امانت ہوتی ہے ، اس میں لیڈروں کی ذاتی خواہشات کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ میاں نوازشریف نے اگر سرور پیلس میں سات سال گزارے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان ایران کو نظرانداز کردے اور اچھی بات یہ ہے کہ میاں صاحب اس بات کا ادراک رکھتے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے جیالے اگر شام کی پناہ میں تھے تو بھی پارٹی اور اس کی حکومت کا فرض نہیں کہ وہ بشارالاسد کی حمایت کرے۔ خارجہ پالیسی میں سب سے اہم چیز پاکستان کا قومی مفاد ہے‘ باقی سب اضافی اور ثانوی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved