طالبان نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک حکومت بھی اپنی جانب سے اسی طرح کا اعلان کر چکی ہو گی اور بقول مولانا سمیع الحق ‘یہ واقعی حکومت کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ امن و امان کا مقصد حاصل کر سکے۔ایک مہینے کے لیے جنگ بندی کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر مذاکرات اس دوران کامیاب نہ ہوں تو اپریل میں گرمیاں شروع ہونے پر فوج کامیابی سے آپریشن شاید نہ کر سکے۔تاہم ‘طالبان شروع ہی سے بہ تکرار یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے چنانچہ اب حکومت کو اپنی سنجیدگی ثابت بھی کرنا ہو گی کیونکہ اب یہ کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں بلکہ زندگی موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس جنگ بندی کو دوام بخشنے کے لیے حکومت اس کے بدلے میں طالبان کو کیا پیشکش کر سکتی ہے یا اُن کا کونسا مطالبہ مان سکتی ہے اور ان مذاکرات میں لین دین کا انداز اور گنجائش کہاں تک ہو گی۔اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ طالبان ملک میں اپنی کوئی خود ساختہ یا مخصوص شریعت نافذ کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہمارے اسلامی آئین کو صحیح اسلامی بنانا ہی ان کا مقصود و مطلوب ہے جو عملی طور پر کسی طرح سے بھی اسلامی نہیں ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس سلسلے میں کئی تجاویز حکومت کو پیش کر رکھی ہیں لیکن حکومت کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی،اور یہ رویّہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ حکومت کے احساسات اس ضمن میں کیا ہیں۔
حق بات تو یہ ہے کہ عملی لحاظ سے ہمارا آئین اتنا ہی اسلامی ہے
جتنی کہ ہماری جمہوریت جمہوری ہے جو کہ حقیقتاً جمہوریت کی پیروڈی ہے۔انتخابات کے مرحلے پر آئین کے آرٹیکل 63,62پر کبھی صحیح معنوں میں عمل نہیں کیا گیا اور اس کے نتیجے میں جس قسم اور وضع قطع کے اراکین ظہور پذیر ہوتے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔جمشید دستی کے الزامات اگر ثابت نہ بھی ہو سکیں ‘تو بھی ایک اسلامی جمہوریہ کے ارکان اسمبلی پر اس طرح کے الزامات بلاوجہ نہیں ہو سکتے‘ نہ ہی اپنے ان ہم منصب حضرات سے موصوف کو کوئی دشمنی ہو سکتی ہے۔علاوہ ازیں ہماری سڑکوں اور بازاروں میں جس بے پردگی اور بے حیائی کا مظاہرہ شب و روز دیکھنے میں آتا ہے اُسے کہاں تک اسلامی اور آئین کی روح کے مطابق گردانا جا سکتا ہے۔شراب نوشی اگر ممنوع ہے تو صرف اس حد تک کہ آپ اسے پی کر سرِراہ غُل غپاڑہ نہیں کر سکتے جبکہ گھر کے اندر ہر طرح سے اس شغل کو جاری رکھ سکتے ہیں۔یہ محض ایک دو مثالیں ہیں ورنہ ڈانس‘مُجرا اور اس قسم کے دیگر اشغال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔لطف تو یہ ہے کہ جن افراد کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے، ان کی سزا پر عملدرآمد ہی روک دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں واضح قرآنی احکامات کو نظر انداز کر کے بعض مغربی ممالک کے جذبات کو پذیرائی بخشی جا رہی ہے‘جبکہ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
طالبان اگر اس نظام یعنی جمہوریت کے مخالف ہیں تو اس لیے بھی کہ ہمارے ہاں یہ نظام چلتا پھرتافراڈ اور محض زراندوزی ہوکر رہ گیا ہے اور جہاں سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر انتخابات کا تکلّف روا نہیں رکھا جاتا وہاں یہ سراسر ایک موروثی نظام ہو کر رہ گیا ہے جس میں اشرافیہ کی چند فیصد آبادی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور جو صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے اور لوگ اپنے اعضا اور بچے فروخت کر نے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو کر رہ گئے ہیں جسے بظاہر ایک اسلامی فلاحی مملکت کا نام دیا گیا ہے۔
اب یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ طالبان اپنا کوئی مطالبہ منوائے بغیر خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں اور اس شیطانی چکر کو اسی طرح چلتا رہنے دینے پر رضا مند ہو جائیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین کو اپنی اصلی شکل میں نافذ کرنا اہلِ سیاست کے لیے ایک طرح کی خودکشی کے مترادف ہو گا لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں اور حکومت کو یہ کڑوی گولی نگلنا ہی پڑے گی‘ حتیٰ کہ اسلام اور اسلامی شعائر ہی کو جس طرح یہاں مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے‘طالبان کے علاوہ یہاں آبادی کی ایک بہت واضح اکثریت بھی اس موجودہ جکڑ بندی سے جان چھڑوانا اور بے استحصال زندگی بسر کرنے کی خواہشمند ہے۔
چنانچہ سمجھوتہ اگر ہو سکتا ہے تو اسی بات پر کہ آئین کو عملی طور پر اور اُس کی روح کے مطابق نافذ کرنے کی ہامی بھری جائے اور اس کے لیے ایک ٹھوس لائحہ عمل کی بنیادیں رکھی جائے، اس کے لیے باقاعدہ ایک ٹائم فریم مقرر کیا جائے اور اس کے لیے ضمانتیں بھی فراہم کی جائیں اور عوام کے ساتھ عرصہ دراز سے جو کُھلے عام دھوکا روا رکھا جا رہا ہے‘اس کے سدباب کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اس سے کم تر پر طالبان کے رضا مند ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس سے اگر وقتی طور پر کچھ مسائل پیدا ہوں گے تو لاتعداد مسائل حل بھی ہوں گے جن کا فی الحال صحیح طور پر اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کو یہ ملک افورڈ ہی نہیں کر سکتا‘اور‘ اگر آپریشن ہو گا تو دونوں طرف سے ہو گا اور خلقِ خدا ایک زیادہ شدید اور مُستقل عذاب کا شکار ہو کر رہ جائے گی جو اونٹ کی کمر پر آخری تنکے کی طرح ملکی سلامتی ہی کو خطرے میں ڈال دے گی‘ اور ‘اگر اس کے بعد بھی یہ معاملہ مذاکرات کی میز پر ہی حل ہونا ہے تو اتنی تباہی کا انتظار کس لیے کیا جائے۔چنانچہ یہ وہ کم از کم مطالبہ ہو گا جو کسی سمجھوتے کی بنیاد بن سکتا ہے اور جسے عوام کی بھی پوری پوری تائید حاصل ہو گی۔بصورت دیگر حکومت اس کی قیمت ادا کر ہی نہیں سکتی کہ وہ قیمت بجائے خود ناقابلِ تصور ہو گی۔
اور اگر طالبان کی طرف سے کوئی سراسر ناقابلِ قبول مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے عوامی تائید بھی حاصل نہیں ہو گی‘تاہم‘ امید یہی کی جاتی ہے کہ طالبان جس آئین کو تسلیم نہیں کرتے ‘اُسی کو اسلامی اور شرعی بنانے پر اکتفا کریں گے کیونکہ اسی میں ملک و قوم کی فلاح بھی ہے اور جس دلدل میں ہم گوڈے گوڈے دھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے اور اگر حکومت سمجھتی ہے کہ فریقِ مخالف کسی لالی پاپ پر مطمئن ہو جائے گا‘ یا اُسے جھوٹ موٹ کے وعدوں پر ٹرخا یا جا سکتا ہے تو اس کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ طالبان بھی کوئی کچی گولیاں نہیںکھیلے ہوئے کیونکہ بقولِ حکومت یہ مٹھی بھر لوگ حکومت کو مجبور کر کے یہاں تک لا سکتے ہیں تو کوئی ٹھوس نتائج حاصل کیے بغیر پیچھے ہٹنے پر بھی تیار نہیں ہوں گے۔ظاہر ہے کہ اس مرحلے پر عسکری قیادت کو بھی دُور اندیشانہ اندازِ فکر اختیار کرنے کی ضرورت ہو گی کیونکہ فوجیں بھی دشمنوں سے جنگیں لڑنے کے لیے ہوتی ہیں‘ ایسے مخمصوں میں پھنسنے کے لیے نہیں ۔اور‘ آخری بات یہ کہ حکومت اور قومی سلامتی کے دوسرے اداروں کو اس سلسلے میں ایک صفحے پر بھی ہونا ہو گا۔
آج کامقطع
سوارِ خواب تھا یا اور کوئی شے تھی، ظفر
نظر کے سامنے اٹھتے غبار میں کچھ تھا