تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     03-03-2014

پالیسی داخلی سلامتی کی

ایک ہزار برس ہوتے ہیں کہ طمغاج خان ثمر قند میں بطور حکمران مقیم تھا، ایک دن گھومتے گھامتے شہر سے باہر نکلا تو ایک میدان میں کسی فقیر نے راہ روک لی۔ رکاب چوم کر ایک گلدستہ پیش کیا اور انعام کی توقع لے کر امید بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔گلدستے کو ہاتھ لگانے سے پہلے طمغاج نے پوچھا کہ اس کے لیے پھول کہاں سے ملے؟ فقیر نے باغ کا پتا بتا دیا۔ پھر سوال ہوا کہ کیا باغ کے مالک سے خریدے؟ جواب آیا کہ ثمرقند میں پھول بیچے نہیں جاتے اس لیے خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ طمغاج خان نے پھر پوچھا کہ کیا باغ کے مالک سے پھول چُننے کی اجازت لی گئی تھی؟ فقیر نے نفی میں جواب دیا تو طمغاج خان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے گرفتارکرلیا جائے اور بغیر مالک کی اجازت کے اس کے باغ میں گھسنے اور پھول چرانے کے جرم میں ہاتھ کاٹ دیا جائے، کیونکہ آج اس کا ہاتھ نہ کاٹا گیا تو کل یہ باغوں سے پھل چرائے گا اور پھر گھروں میں گھس کر اسباب بھی اٹھالایا کرے گا۔ اتنی سخت سزا سن کر فقیر نے رونا دھونا شروع کردیا اورخود خان کے ہمراہیوں نے بھی سزا میں نرمی کی درخواست کی۔ آخر کار فیصلہ ہوا کہ فقیر کی ایک انگلی کاٹ دی جائے تاکہ عبرت کا سامان ہو جائے۔ 
پھولوں کی چوری پر سزا دینے والا یہ طمغاج خان کاشغر سے ثمرقند تک حکومت کرنے والے قروختائی خاندان کا باج گزار تھا۔ اس نے بغیر کسی فوجی کارروائی کے خود کو اپنے علاقے میں اتنا مضبوط کرلیا کہ کوئی اس سے حکومت لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔عدل و انصاف 
کے ایک 'وحشیانہ‘ تصوراور پھراس کے بے رحمانہ نفاذ نے اسے قبائلی ترُک معاشرے میں انصاف کا استعارہ بنا دیا۔اس نے تین بنیادی جرائم یعنی چوری، ڈاکہ زنی اور قتل کے خلاف گویا اعلان جنگ کررکھا تھا۔اپنے علاقے میں خان نے انصاف اس طرح قائم کررکھا تھاکہ لوگ اسے نوشیروان عادل سے تشبیہ دیاکرتے۔ اس کے عدل و انصاف کے قصے جب اردگرد کی ریاستوں تک پہنچے تو وہاں کے عوام نے بھی اپنے حکمرانوں کو طمغاج خان کی مانند قانون کے تابع حکومت چلانے پر مجبورکرنا شروع کردیا۔ بہت جلد ایسا وقت آیا کہ ماوراء النہر کے علاقے میں بھی ہر حکمران کی ضرورت بن گئی کہ وہ کسی طرح طمغاج خان کے ساتھ تعلق استوارکرکے اپنی رعایا کو یہ تاثر دے سکے کہ وہ بھی انصاف کے راستے پر چلنے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ اگر وہ یہ تاثر نہ دیتا تو خود رعایا طمغاج خان کو آوازیں دینے لگتی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کے ہمعصر حکمرانوں کے پاس قانون نہیںتھا یا عدالتیں نہیں تھیں، فرق یہ تھا کہ دوسری عدالتیں مقدمات سنتی رہتیں اور طمغاج خان کی عدالتوں میں فیصلے ہوتے چلے جاتے۔ اس کے ساتھ کے حکمران نذرانے وصول کرکے سزا پر عمل درآمد روک دیتے ، دوسری طرف طمغاج خان اگر نرمی کرتا بھی تو اتنی کہ ہاتھ کی بجائے انگلی کٹوا دیتا۔ اس سے کسی نے پوچھا کہ ان ترک وحشیوں کو تم اتنی سخت 
سزائیں دیتے ہو پھر بھی یہ تم سے محبت کیوں کرتے ہیں؟اس نے جواب دیا:''اس لیے کہ میں نے ان پر چوری، رہزنی اور قتل کی قید لگا کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اب جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی قیادت کررہے ہوں گے ‘‘۔ طمغاج خان اپنی پیش گوئی پوری ہوتے دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہا لیکن جلد ہی وہ وقت آگیا جب یہی ترک اور منگول قبائل دنیا کی امامت کررہے تھے۔ 
قصوروارکو فوری سزا کا تصور طمغاج خان کی دریافت نہیں بلکہ جب سے دنیا بنی ہے اسی وقت سے قانون و سزا کا تصور انسانوں کی ہر تنظیم میں پایا جاتا ہے۔ بنی آدم نے صدیوں کے تجربات سے یہ اخذکیا ہے کہ انسان کے خلاف انسان کے تین جرائم یعنی چوری، رہزنی اور قتل کا ارتکاب کرنے والوں کو اگرکوئی ریاست قرارواقعی سزا نہیں دے سکتی تو آخرکارطوائف الملوکی کا شکار ہوکر ختم ہوجاتی ہے۔ جب اس کے قانون نافذکرنے والے ادارے چور، رہزن اور قاتل کوپکڑنے کے لیے زمین و آسمان ایک کردینا چھوڑ دیتے ہیں تو پھر ایسی ریاست بغاوتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔کبھی کوئی ایک ادارہ دوسرے اداروں پر چڑھ دوڑتا ہے توکبھی ایک گروہ دوسرے کی گردنیں مارنے کے درپے ہوجاتا ہے۔اندرونی خلفشار میں مبتلا ریاست کے متحارب گروہ آخرکار بیرونی قوتوں سے مدد لے کر ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور آخرکار بربادی کا قریب قریب وہی نقشہ بن جاتا ہے جو اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ قبائلی علاقے، کراچی اور بلوچستان میں مختلف گروہ ( ریاستی یا غیرریاستی) ایک دوسرے کو تاک تاک کر نشانہ بناتے ہیں،ریاستی اداروںپر حملے کرتے ہیں اورغیر ملکی قوتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ نظری طور پرکراچی، فاٹا اور بلوچستان میں معاملات کو سویت یونین کی ا فغانستان پر چڑھائی کے نتائج قراردیں یا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان کی جڑیں تلاش کریں، حقیقت یہ ہے کہ خرابی کا آغازاس وقت سے ہوا جب پاکستان میں چوری کی پہلی فائل یہ کہہ کر بند کردی گئی کہ چورکے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا، لاقانونیت نے اس وقت پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا جب رہزنی کی کسی واردات کی تفتیش اس لیے روک دی گئی کہ اس کے مدعی سے 'راضی نامہ‘ کرلیا گیا تھااور ہمارے ملک میں دہشت گردی کا آغاز اس دن ہوا جب کس شخص کے قاتل کو نامعلوم قرار دے کر پولیس نے اپنا کام چھوڑ دیا تھا۔ حق تو یہ ہے کہ ہمارے پچاس ہزار لوگوں کو بم دھماکوں میں کسی اور نے نہیں بلکہ اسی قاتل نے نشانہ بنایا ہے جسے ہم نے کبھی نامعلوم قرار دے دیا تھا، ہمارے اثاثے وہی چور لے جانا چاہتا ہے جس کی فائل ہم نے بند کردی تھی، وہی رہزن آج ہزاروں بھیس بدل کر سڑکوں پر موبائل فون چھینتا ہے جسے اس لیے چھوڑ دیا گیا تھا کہ پولیس کمزور مدعی کی طاقت نہیں بن سکی تھی۔ 
فاٹا سے لے کر کراچی تک پھیلی ہوئی اس بدامنی کا مداوا کر نے کے لیے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان ایک پالیسی بھی لے آئے ہیں جس کے تحت خفیہ ایجنسیوں کو مربوط کرنے ، خصوصی فور س بنانے اور نجانے کیا کیا کچھ کرنے کے ارادے ظاہر کیے گئے ہیں۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پالیسی کا اہم ترین ہدف ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا دہشت گردی کے ساتھ ہی بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان اور موبائل فون چھیننے کی وارداتوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا؟ دہشت گردی کا پودا لاقانونیت کی فضا میں پروان چڑھتا ہے اور لاقانونیت کی اس فضا کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ نئے نئے کاموں کے ساتھ ساتھ ان اداروں پر بھی توجہ دی جائے جنہوں نے گلی محلے میں قانون کی حاکمیت قائم کرنی ہے۔ورنہ دہشت گردی کا یہ عفریت نت نئے سر نکالتا رہے گا جنہیں کاٹتے کاٹتے ہم تھک جائیں لیکن دہشت گردی نہیں ختم ہوپائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved