تحریر : وصی شاہ تاریخ اشاعت     04-03-2014

کاذب خوشی‘ صادق ہو

جانتا ہوں کہ اس خوشی کی حیثیت عوام کی زندگیوں میں ایک بلبلے کی طرح ہے جو وقت کے عظیم دھارے میں پل بھر سے زیادہ قائم نہیں رہ پائے گی۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ اس لمحاتی و جزوقتی خوشی سے‘ اس فتح سے‘ ملک کی گلیوں اور قوم کے دلوں میں دندناتے مسائل میں سے کسی ایک میں بھی رتی بھر کمی واقع نہیں ہو گی۔ اس جیت سے دہشت گردی میں ذرہ بھر کمی نہیں آنے والی۔ آج کا واقعہ ہی دیکھ لیجیے‘ طالبان کے اعلان جنگ بندی کے باوجود جو حملہ ہوا وہ مستقبل میں جاری رہنے والی خونریزیوں کا واضح سرنامہ ہے۔ 
اس جیت سے ایک میگاواٹ بجلی زیادہ بننا نہیں شروع ہو جائے گی، غریب کی جھونپڑی میں ایک منٹ کو بھی ایک بلب اضافی نہیں جل پائے گا، نہ ہی یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم کمانے والے کروڑوں پاکستانیوں کیلئے بجلی کے نرخ میں فی یونٹ ایک پیسہ بھی کم کیا جا سکے گا۔ جانتا ہوں کہ اس کامیابی سے پاکستان میں صحت کے شعبے میں ناکامی کا جو عالم ہے، اس میں ایک اعشاریہ بھی بہتری نہیں آنے والی۔ دنیا بھر میں اوسط عمر 80 کے لگ بھگ ہے اور پاکستان میں تقریباً 65 سال۔ اس جیت سے صحت مند دنیا کے باسی ایسے ہی 80 برس تک اپنے ملک و قوم اپنے پیاروں کو دستیاب ہوا کریں گے اور اس شاندار تاریخی کامیابی کے باوجود بیشتر پاکستانی ایسے ہی 65 سال کے لگ بھگ ملک و ملت اور اپنے پیاروں کو چھوڑ جایا کریں گے۔ یہ شاندار تاریخی جیت پاکستانیوں کی عمر میں ایک پل کا اضافہ نہیں کرنے والی۔ اسی طرح پاکستان میں بچوں کے اموات کی شرح‘ جو اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، برقرار رہے گی۔ جعلی ڈاکٹروں سے لے کر جعلی دوائیوں تک اور سرکاری آنکھیں بند ہونے پر عوام کی جیبوں کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح بھنبھوڑتے پرائیویٹ ہسپتال و سکول تک اسی طرح اپنی لوٹ مار جاری رکھیں گے۔ یہ شاندار فتح پاکستان کی گلیوں، چوکوں، چوراہوں میں ننگے پائوں، پھٹے پرانے کپڑے پہنے بھیک مانگتے معصوم بچوں کو سکول اور کتابوں کا ایک ورق بھی عطا نہیں کر سکے گی۔ وہ علم، وہ حرف، وہ لفظ‘ جو جانور کو انسان بناتے ہیں، اس روشنی کی ایک کرن بھی اس جیت کی صورت میں کروڑوں بے علم پاکستانی بچوں کی نصیب نہیں ہو پائے گی۔
الغرض یہ دہشت گردی سے لوڈ شیڈنگ تک، بدامنی سے غربت تک، جسمانی بیماری سے روحانی بیماری یعنی جہالت تک، وہ سچی خوشی جو دنیا کے باسیوں کو نصیب ہے پاکستانیوں کو ابھی شاید دہائیوں نصیب نہ ہو گی۔ ایسے میں یہ لمحاتی و جزوقتی خوشی ہی مبارک ہو جس نے اور کچھ نہیں تو چند لمحوں یا چند گھنٹوں کیلئے ہی سہی، کوئٹہ سے پشاور تک پاکستان زندہ باد کے نعروں کو دل سے بلند کروایا۔ جانتا ہوں کہ یہ خوشی عظیم وقت کے دھارے میں بلبلے سے زیادہ کچھ نہیں، پھر بھی اس مردہ قوم کے چہروں کو اس جھوٹی خوشی سے ہی تمتاتے دیکھنا کسے اچھا نہیں لگے گا۔ سو تمام اہل وطن کو پاکستان کی یہ فتح مبارک ہو۔ اس دعا کے ساتھ کہ کاش پاکستانیوں کو ایسی ہی سچی خوشی طویل عرصے کیلئے بھی کبھی نصیب ہو پائے۔ یقین جانیے جس قوم کو امن، تعلیم، صحت اور خوشحالی نصیب ہوا کرتی ہے ان کے چہرے کسی وقتی جیت کے باوجود ایسے ہی روشن اور جگمگاتے رہتے ہیں‘ جیسے اتوار کی رات پاکستانیوں کے چہرے جگمگائے تھے۔ 
اس لیے کہ سچی خوشی اندر کے سکون اور اطمینان سے پھوٹتی ہے اور اندر کا سکون و اطمینان تب نصیب ہوتا ہے جب ریاست میں امن ہو، خوشحالی ہو، تعلیم ہو، صحت کا بھرپور نظام ہو، موروثی سیاست کی گندگی نہ ہو بلکہ جنتا کے لیے سیاست سے لے کر زندگی کے ہر شعبے تک، میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ہوں اور یہی وہ سچی خوشی ہے جو چہروں پہ تادیر قائم رہتی ہے۔ جو بلبلہ یا بجلی کے کوندے کی طرح لمحہ بھر کو نہیں ہوتی بلکہ نسلوں کا نصیب ہوا کرتی ہے۔
جیسے کل رات پاکستان اور پاکستانیوں کو مستی و سرمستی کے عالم میں جھومتے دیکھا، کاش پاکستان اور پاکستانیوں کو کبھی ایسی سچی خوشی نصیب ہو سکے جو لمحاتی و جزوقتی نہ ہو، تادیر قائم رہ سکے۔ جب کل مہاجر، پٹھان اور دیگر قوموں کے سپوت ایک مٹھی ہو کر مخالف پر برس رہے تھے، اس کا مقابلہ کر رہے تھے۔ کل کی ٹیم میں سب پاکستانی تھے اور جب اپنے آپ اپنی ذات کی نفی کر کے صرف پاکستان اور پاکستانیوں کی عظمت، سرشاری اور خوشی کے لیے لڑ رہے تھے‘ تبھی تو ایسی خوشی اور ایسی کامیابی مقدر ہوا کرتی ہے۔ کاش ہمارے کھلاڑیوں کی جیت سے ہی یہ بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آ سکے۔ جاتے جاتے مرزا یاد آ گئے۔
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پاکستان کو جیت مبارک۔ اس دعا کے ساتھ کہ پاکستان کو اللہ پاک ایسی سچی فتح بھی عطا فرمائے جو ایسی جزوقتی نہ ہو، کاذب خوشی نہ ہو، صادق ہو۔
لیجئے جاتے جاتے احمد ندیم قاسمی بھی یاد آ گئے:
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو‘ زندگی وبال نہ ہو
قاسمی صاحب کے ان اشعار میں جگمگاتی دعائوں کی قبولیت پہ ہی سچی خوشی قوموں کو نصیب ہوا کرتی ہے۔ باقی سب جزوقتی ہے، لمحاتی ہے، کاذب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved