پیارے بیمارو!
ہم چونکہ آپ کی ضروریات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ وقت گزاری کے لیے آپ کے ساتھ تعاون کرنا کس قدر لازمی ہے(وقت گزاری آپ کی ‘ہماری نہیں)‘چنانچہ آپ کو ذہنی طور پر مصروف اور مطمئن رکھنے کے لیے ہفت روزہ گورو گھنٹال میں آپ کے لیے اس صفحے کا اجراء کیا جا رہا ہے۔ویسے تو ہر شخص کو کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی بیماری لاحق ہوتی ہے‘اور اگر کوئی اس سے انکار کرے تو کسی نہ کسی بیماری میں مُبتلا ہونے کے علاوہ جُھوٹ بھی بول رہا ہوتا ہے جو کہ بجائے خود ایک بیماری ہے۔نیز‘عام طور پر دیکھا جائے تو مسلسل بیمار رہنے سے گھر والے بھی بالعموم بیزار ہو کر بالآخر تنگ بھی پڑ جاتے ہیں‘اس لیے بھی ہم نے ضروری سمجھا کہ آپ کی دلچسپی کے لیے اس صفحے کا اجراء کیا جائے تاکہ آپ اس سے طمانیت حاصل کر سکیں اور ہمارے لیے حصولِ ثواب ممکن ہو سکے۔لہٰذا اُمید ہے کہ ہماری یہ عاجزانہ سعی آپ کی دلجوئی کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور مہیا کرے گی۔ براہ کرم اس پر اپنی رائے کے ساتھ ساتھ اپنی خیریت کی اطلاع بھی دیتے رہیں اور اپنے مسائل سے بھی آگاہ کرتے رہیں تاکہ آپ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جا سکے۔
سبق آموز واقعات
٭ایک شخص بیمار ہو کر ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے اُس کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ مرض بہت پیچیدہ ہے اور آپ کا آپریشن کرنا پڑے گا جس پر کافی خرچ آئے گا ‘جس پر مریض نے کہا کہ خرچ کی کوئی بات نہیں۔اس کے بعد ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ یہ آپریشن کافی خطرناک ہوتا ہے اور اس میں بچنے کے امکانات صرف دس فیصد ہوتے ہیں یعنی 10میں سے صرف ایک مریض زندہ بچتا ہے‘لیکن آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ میں 9مریضوں کا آپریشن پہلے کر چکا ہوں جو سب کے سب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں‘لیکن آپ تو دسویں ہیں اس لیے آپ کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے!
٭ایک یہودی جب بہت بیمار پڑ گیا اور اس کے بچنے کا کوئی امکان نہ رہا تو اس کے تینوں مایوس بیٹے اس کے پاس موجود تھے۔ان میں سے ایک بولا کہ قبرستان یہاں سے کافی دُور ہے‘اگر ان کی میّت کے لیے ٹرک حاصل کیا گیا تو وہ کم از کم ایک ہزار روپے لے گا جس پر دوسرے نے کہا کہ کسی چھکڑے کا انتظام کر لیتے ہیں تو تیسرا بولا‘وہ بھی پانچ سو تو ضرورلے گا۔سب سے چھوٹے نے مشورہ دیا کہ کوئی گدھا گاڑی کر لیتے ہیں‘جس پر دوسرے نے کہا کہ وہ بھی دو ڈھائی سو تو ضرور مانگے گا۔یہ سُن کر بڑے میاں چارپائی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔''یار‘ تم کیوں پریشان ہوتے ہو‘میں پیدل ہی چلا جاتاہوں!‘‘
٭ایک شخص کی بیوی کافی عرصہ بیمار رہنے کے بعد جب مرنے کے قریب پہنچی تو اس نے اپنے میاں سے کہا‘میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا۔اس پر میاں بولا کہ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر تم نہ مریں تو پھر میرا کیا بنے گا!
٭ بیوی رات کو زور سے کھانسی تو میاں نے کہا‘بیگم آپ کے گلے کے لیے کچھ لائوں؟تو بیگم بولیں‘ہاں‘وہ جڑا ئو ہار جو پچھلے ہفتے ہم نے جیولر کے ہاں پسند کیا تھا...!
٭ ٹیچر نے ایک بچے سے پُوچھا‘ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے‘تو اس نے جواب دیا‘مِس‘میں بڑا ہو کر مریض بنوں گا اور ڈاکٹروں کی خدمت کروں گا!
٭ ایک صاحب کی ٹانگ میں درد رہتا تھا‘وہ ڈاکٹر کے پاس گئے جنہوں نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ یہ دراصل طوالتِ عمر کی وجہ سے ہے‘ جس پر مریض نے کہا‘ڈاکٹر صاحب‘میری دوسری ٹانگ کی عمر بھی اتنی ہی ہے‘اس میں درد کیوں نہیں ہوتا!
٭ ماں بیٹا دونوں بیمار پڑ گئے تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئے جس نے معائنے کے بعد بتایا کہ یہ مرض زہر خورانی کا نتیجہ ہے‘کسی نے آپ کو زہر دیا ہے۔خاتون نے سوچا کہ گھر میں تو کوئی نوکر وغیرہ بھی نہیں ہے‘ہو نہ ہو یہ کارروائی اس کے خاوند ہی کی ہے۔چنانچہ اس نے خاوند سے پوچھا کہ تم نے مجھے اور بیٹے کو زہردیا ہے؟تو خاوند بولا‘مجھے اپنے بیٹے کو زہر دینے کی کیا ضرورت تھی؟
٭ ایک شخص قبرستان میں سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک صاحب تین قبروں کے سرہانے اُداس بیٹھے تھے‘جس پر اُس شخص نے اُن سے پوچھا کہ یہ کس کی قبریں ہیں تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ میری تین بیویوں کی قبریں ہیں جس پر اُس شخص نے پوچھا‘کیا وہ بیمار تھیں ؟ان صاحب نے اثبات میں جواب دیا تو شخص مذکور نے پوچھا کہ وہ کس بیماری سے فوت ہوئیں تو ان صاحب نے جواب دیا کہ دو تو زہر کھانے سے مری تھیں۔اُس شخص نے پوچھا کہ تیسری کیسے مری تھی تو موصوف نے جواب دیا کہ وہ سر پر ڈنڈا لگنے سے مری تھی کیونکہ اس نے زہرکھانے سے انکار کر دیا تھا!۔
٭ ایک شخص ڈاکٹر کے کلینک پر گیا تو اس کے اسسٹنٹ سے بولا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ماموں کو بخارکی تشخیص کی تھی لیکن وہ سانس رُکنے سے مر گئے‘جس پر اسسٹنٹ بولا‘میں نہیں مانتا‘کیونکہ ہمارے ڈاکٹر صاحب مریض کو تشخیص کر کے جو مرض بتاتے ہیں‘اس کی موت اُسی سے واقع ہوتی ہے!
٭ایک صاحب کی اہلیہ بہت بیمار رہنے لگیں تو وہ اُسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے معائنہ کے بعد کہا کہ انہیں کسی صحت افزا مقام پر لے جائیں جب وہ کلینک سے باہر نکل رہے تھے تو بیوی نے پوچھا ‘اب ہم کہاں جائیں گے‘تو خاوند بولا‘کسی دُوسرے ڈاکٹر کے پاس!۔
٭ایک صاحب ماہرِ نفسیات کے ہاں پہنچے تو وہاں ایک واقف کار سے ملاقات ہو گئی ۔کلینک میں رش زیادہ تھا!واقف کار نے ان سے پوچھا کہ آپ آ رہے ہیں یا یہاں سے جا رہے ہیں؟ اُن صاحب نے جواب دیا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا تو میرا یہاں کام ہی کیا تھا!
پسندیدہ اشعار
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور‘ اگر مر جایے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مُبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
میں ہو سکوں گا بھلا کس طرح سے صحّت مند
دوا تو تھی ہی‘ مگر اب دُعا رکاوٹ ہے
اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
آج کا مطلع
یہ رات‘ یہ گھن گرج‘ یہ برسات
دیکھو مری صبح کے نشانات