گزشتہ روز عالمی شہرت یافتہ بلڈر ملک ریاض حسین نے شکایت کی کہ بیوروکریسی‘ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر تنگ کر رہی ہے۔یہ عجیب و غریب شکایت ہے۔ ایک ایسا ملک جو مالی بحران کا شکار ہو۔ جہاں کے اپنے سرمایہ دار‘ ملک سے باہر سرمایہ کاری کر رہے ہوں۔ جہاں کے بیوروکریٹس اور حکمران طبقے‘ اپنی دولت باہر لے جا رہے ہوں اور جہاں بیرونی سرمایہ کار پیسہ لگانے سے ڈرتے ہوں‘ اس ملک میں ایک شخص‘ ایسے شعبوں میں اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری کر رہا ہو‘ جو اصل میںحکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں‘ تو اس کی قدر کرنا چاہیے۔ روٹی‘ رہائش اور روزگار فراہم کرنا حکومت کا بنیادی کام ہے۔جہاں حکومت‘ عوام کی دولت بے رحمی سے اڑا رہی ہو۔ بااختیار اور کرپٹ لوگ‘ دونوں ہاتھوں سے سرکاری پیسہ لوٹ رہے ہوں۔ عشروں سے کسی بھی حکومت نے کم یا درمیانہ آمدنی والے لوگوں کو رہائشی سہولتیں فراہم نہ کی ہوں اور جو شخص یہ کام ذاتی سرمائے سے کر رہا ہو‘ تواسے روکنا یا اس کی حوصلہ شکنی کرنا‘ فرائض سے روگردانی ہے۔ ایسے انسان کی تحسین کرنا چاہیے یا اسے تنگ کرنا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک صاحب کی تمام سرمایہ کاری تعمیراتی شعبے میں ہوتی ہے۔ وہ زمینیں خرید کر کالونیاں بناتے ہیں۔ انتہائی غریب اور بے گھر لوگوں کوبہت سے چھوٹے گھر مفت میں دے دیتے ہیں۔ جن کے پاس تھوڑی بہت پونجی ہو‘ انہیں انتہائی رعایتی نرخوں پر مکان کا مالک بنانے کے لئے‘ 10 لاکھ روپے کی رقم‘ اپنی طرف سے بطور عطیہ دیتے ہیں۔ 5اور 10 مرلے کے پلاٹوں پر مشتمل نئی کالونیاں تعمیر کرتے ہیں ‘جہاں وہ تمام سہولتیں میسر ہوتی ہیں جو ڈیفنس کالونیوں میں دستیاب ہیں۔
حکومت جو پلاٹ بنا کر فروخت کرتی ہے‘ ملک صاحب اس کے مقابلے میں بہتر سہولتوں کے ساتھ سستے پلاٹ عوام کو دیتے ہیں۔ جس کی ایک مثال دو تین سال پہلے‘ اسلام آباد کی سکیم ''بحریہ انکلوژر ز‘‘ہے۔اسی مقام پر سرکاری ادارے سی ڈی اے نے‘ ایک سکیم کا اعلان کیا۔ جس میںایک کنال کے پلاٹ تیارہونا تھے۔ سی ڈی اے نے ایک پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ رکھی اور بحریہ ٹائون نے اس جگہ ‘ اتنے ہی سائز کا پلاٹ 60لاکھ میں برائے فروخت پیش کیا‘ جس کی قیمت آسان قسطوں میں وصول کی جا رہی ہے اور بہت سے پلاٹوں کا قبضہ بھی دیا جا چکا ہے۔ غرض ملک صاحب پلاٹ بنا کر بیچیں یا تیار شدہ مکانات‘ ان کی قیمتیں عام طور پر سرکاری اداروں سے کم ہوتی ہیں اور دوسرے بلڈرز کے ساتھ تو ان کاموازنہ بھی ممکن نہیں۔ محض چند بااعتماد بلڈرز ایسے ہیں‘ جوخریدار کو بروقت پلاٹ یا مکان کا قبضہ دیتے ہیں۔ملک صاحب نے ہزاروں اور شاید لاکھوں پلاٹ اور مکان بنا کر بیچے ہوں گے مگر آج تک کہیں سے یہ شکایت سننے میں نہیں آئی کہ ملک ریاض نے پیسے لے کر‘ حسب وعدہ اور بروقت پلاٹ یا مکان کا قبضہ نہیں دیا۔سنا ہے جہاں تاخیر ہو جائے‘ وہاں پر ان کی کمپنی جرمانہ بھی ادا کرتی ہے۔ اس کے برعکس آپ نے اکثر ایسی خبریں پڑھی ہوں گی‘ جن میں غریب لوگوں کو پلاٹ دینے کے نام پر لوٹ لیا جاتا ہے اور وہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ میرے اپنے بیٹے انیق ناجی نے اسلام آباد کی ڈیفنس کالونی میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے مخصوص‘ ایک کنال کا پلاٹ خریدا تھا۔ ان دنوں وہ لندن میں تھا اور وہاں کی شہریت بھی رکھتا ہے۔ اس نے 36ہزار پونڈ نقد دے کر پلاٹ خریدا۔ 3سال میں قبضہ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ آج 9سال ہونے کو آئے ہیں‘ پلاٹ کا پتہ نہیں۔ایسے ملک میں جہاں عسکری پس منظر رکھنے والوں کا یہ کاروباری ریکارڈ ہو‘ وہاں ایک بااعتماد شخص رہائشی سہولتیں فراہم کرے‘ اسے تو ہر لحاظ سے مدد اور سہولتیں پیش کرنا چاہئیں۔لیکن جیسا کہ یہاںہوتا ہے‘ جدوجہد اور محنت کے ذریعے آگے بڑھنے والا کوئی بھی شخص‘ حاسدوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ خواہ وہ ادارے ہوں یا کوئی فرد۔
یہی صورتحال روزگار کے شعبے میں ہے۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت مطلوبہ تعداد میں روزگار فراہم کرنے سے قاصر رہی۔ ہر سال آٹھ دس لاکھ افراد بیروزگار ہو رہے ہیں اور موجودہ حکومت نے روزگار تو کیا فراہم کرنا تھے؟ مختلف سرکاری اداروں میں برسرروزگار لوگوں کو بھی نجکاری کر کے‘ لاکھوں کی تعداد میں بیروزگار کرنے کی تیاریاں ہیں۔ نہ تونئے ادارے قائم ہو رہے ہیں اور نہ نوکریاںنکل رہی ہیں۔ ملک صاحب کی کمپنیوں میں قریباً 27ہزار افرادملازمتوں پر فائز ہیں۔ یہاں بھی حکومت کو ملک صاحب کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے 27ہزار خاندانوں کو معاشرے اور حکومت پر بوجھ بننے سے بچا رکھا ہے اور حکومت کی تیسری ذمہ داری‘ ملک کے غریب اور تہی دست افراد کو روٹی مہیا کرنا ہے۔ پنجاب کی حکومت نے روٹی مفت نہیں‘ سستی بیچنے کے لئے تندور لگائے تھے۔ مگر یہ سلسلہ بھی نہ چل سکا۔ جبکہ ملک صاحب نے صرف روٹی نہیں‘ اس کے ساتھ سالن اور ایک آدھ اضافی چیز مفت دینے کا انتظام کیا اور اس کے لئے دسترخوان کے نام سے ایسے انتظامات کئے‘ جہاں ضرورت مندوں کو عزت سے صاف ستھری جگہ‘ میزکرسی پر بٹھا کر کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے ایک دو دسترخوانوں کو خود دیکھا۔ وہاں صاف ستھرے برتنوں میں اچھا کھانا عزت کے ساتھ سرو کیا جاتا ہے۔ ملازمین کو سختی سے ہدایت ہے کہ جو بھی غریب آدمی‘ تمہارے پاس کھانا کھانے کے لئے آتا ہے‘ اسے ملک صاحب کا مہمان تصور کیا جائے۔ کیونکہ اسے تم مفت کا کھانا نہیں دے رہے۔ یہ کھانا ملک صاحب کی طرف سے ہوتا ہے اور وہ کسی کی
عزت نفس کو مجروح کرنا پسند نہیں کرتے۔ قارئین میں سے جو صاحب چاہیں‘جہاں بھی دسترخوان کی سہولت موجود ہے‘ خود جا کر میری باتوں کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ میں اعلیٰ معیار کی طبی سہولت مفت فراہم کرنے والے معیاری ہسپتالوں کا ذکر نہیںکروں گا اور نہ ہی معمر خواتین و حضرات کے لئے فراہم کی گئی رہائش گاہوں کا‘ جہاں انہیں اعلیٰ درجے کی رہائش کے ساتھ تینوں وقت کی خوراک اور کوئی نہ کوئی اضافی چیز مفت دی جاتی ہے۔جیسے پھل یا میٹھا وغیرہ۔ علاج معالجہ مفت ہوتا ہے۔ انہیں مصروف رہنے کے لئے مفت تفریحی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ جب ایسے شخص کو یہ شکایت کرنا پڑے کہ حکومت اسے تنگ کر رہی ہے‘ تو ایسی حکومت اور ایسے اہلکاروں کے بارے میں کیا کہا جائے؟ حکومتیں‘ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں‘ مگر یہاںکی حکومتوں کوضرورت مند عوام کے لئے‘ ارزاں اور مفت فراہم ہونے والی سہولتیں بھی تکلیف دیتی ہیں۔ حکومت کوشش کرتی ہے کہ روٹی اور روزگار کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح بند ہو جائے۔ملک صاحب نے جس کوشش کا تذکرہ کیا‘ وہ ہے خیراتی کاموں پر‘119ارب روپے جرمانے کی طلبی۔ آپ بھی پڑھ کر حیران ہو رہے ہوں گے۔ لوگ تو چیرٹی کے لئے خرچ کی گئی رقم پر ٹیکس کی رعایت حاصل کرتے ہیں اور ملک ریاض چیریٹی پر‘ ٹیکس میںکوئی رعایت نہیں لیتے۔ جو رقم خرچ کرتے ہیں وہ ان کی کمائی ہوئی رقم ہوتی ہے‘ جس پر ٹیکس ادا ہو چکا ہوتا ہے۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد‘ جو رقم آپ کے پاس محفوظ رہتی ہے‘ اسے آپ جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت دومرتبہ ٹیکس نہیںلگا سکتی۔ لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے میں شعیب سڈل صاحب نے جو ٹیکس محتسب کے منصب پر فائز تھے۔ انہوں نے خدا جانے کہاں کہاں کے نکتے نکالے اور اس چیرٹی نیٹ ورک پر ٹیکس لگا دیا۔ ان کی قانون دانی اور قانون پسندی کی تعریف ‘میرے بہت سے دوست کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ واقعہ سن کر مجھے حیرت ہوئی کہ کیا شعیب سڈل صاحب کو یہ بھی پتہ نہیں؟ کہ حکومت کسی بھی چیز پر دو مرتبہ ٹیکس وصول نہیں کر سکتی۔ آئین اس کا تحفظ دیتا ہے۔ درحقیقت یہ سابق چیف جسٹس صاحب کے بیٹے‘ ارسلان افتخار کو بدعنوانیوں کی سزا سے بچانے کی خاطر شروع کیا گیاتھا۔ملک صاحب نے اس کی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر بدعنوانیوں کا انکشاف کر دیا۔ چیف جسٹس صاحب نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد کیا اور خود بنچ کے سربراہ بن کر بیٹھ گئے۔ جب شور اٹھا‘ تو بنچ کی سربراہی چھوڑ دی۔ چیف جسٹس پھر بھی خود رہے۔ اس دور میں ملک صاحب کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا گیا؟ اس کی تفصیل میڈیا میں موجود ہے۔ چیف جسٹس صاحب کی مہربانیوں میں‘ایک شعیب سڈل صاحب کا یہ محیرالعقول فیصلہ بھی ہے کہ ملک صاحب ٹیکس پیڈ انکم میں سے‘ نجی چیرٹی پر بھی پھر سے ٹیکس ادا کریں۔ میں نے یہ معلومات اپنے ذرائع سے حاصل کی ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو۔ نشاندہی کر دی جائے‘ تو میں شکریے کے ساتھ تصحیح شائع کروں گا۔