تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     05-03-2014

جانے کب بگل بج جائے

جن لوگوں کو مختلف معاشروں میں تشدد اور ہیجان کی وجوہ کا ادراک نہ ہو، ان کے ہاتھ میں ساری دنیا کی فوجی طاقت بھی دے دی جائے تو وہ انہیں ختم نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ تشدد کی ایک شاخ کاٹتے ہیں تو دوسری نکل آتی ہے، دوسری کاٹیں تو تیسری اور چوتھی ساتھ ہی پھوٹ پڑتی ہے؛ چنانچہ تنگ آ کر یہ پورے درخت کو ہی جڑ سے کاٹ دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم تک نہیں ہوتا کہ اس خوبصورت پھل دار درخت پر یہ زہر آلود شاخیں نکلنا کیسے شروع ہوئیں۔ ایسے لوگ نہ معاشروں کے اجتماعی کردار سے آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا ہوتا ہے کہ لٹھ مار اور پُرتشدد گروہ کب اور کیسے پیدا ہوئے اور انہوں نے معاشروں کو کیسے یرغمال بنایا۔ اس طرح کے کم علم لوگ جب مسندِ اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں تو تباہی و بربادی ملک کا مقدر ہو جاتی ہے۔ تاریخ اس طرح کے المناک واقعات اور دردناک وحشت سے بھری ہوئی ہے‘ جس کے پس منظر میں کم و بیش ایک ہی طرح کے محرکات ہوتے ہیں‘ صرف ایک مثال وضاحت اور اربابِ اختیار کو راستہ دکھانے کے لیے کافی ہو گی۔
یورپ میں نشأۃِ ثانیہ کا خمار نیا نیا چڑھا تھا۔ مائیکل اینجلو جیسے بڑے مجسمہ ساز، رافیل جیسے مصور اور میکائولی جیسے مصنف اور فلسفی روم میں مذہب کا اثرورسوخ توڑنے اور معاشرے پر اپنی آزاد اخلاقیات مسلط کرنے میں مصروف تھے۔ ان کی خوش قسمتی کہ انہیں فریڈرک سوئم کی شکل میں روم کا ایک سیکولر سربراہ میسر آ گیا۔ لیکن یہ سب کے سب روشن خیال لوگ اس بات سے ناآشنا تھے کہ صدیوں سے مذہب نے انسان کو اخلاقیات کا شعوری اور لاشعوری طور پر قائل کر رکھا ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی تہذیب کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس دور کا معاشرہ بھی ایسا ہی تھا، اس میں خاندانی زندگی کی اقدار، شرم و حیا اور عفت و عصمت کا تصور موجود تھا۔ ان لوگوں کے ہاں فحاشی، عریانی اور بے حیائی ناقابلِ قبول تھی۔ وہ اپنی معاشرتی زندگی میں کسی قسم کی جنسی آوارگی اور لذت پسندی کو جرم تصور کرتے تھے۔ لیکن نشأۃِ ثانیہ کے خمار نے جب حکومتی سرپرستی حاصل کی تو ادب اور آرٹ نے برہنگی اور بے حیائی کو فن کا درجہ دے دیا۔ یہ تصور اس قدر عام ہوا کہ کلیسا کی دیواریں اور چھتیں بھی مجسموں اور تصاویر سے منقش ہونے لگیں۔ رافیل کی مشہور پینٹنگ Dispute de Sacremento ایک شاہکار تصور کی گئی جس میں، آدم، ابراہیم، موسیٰ، دائود، پطرس اور پولس کے ساتھ افلاطون اپنی کامل ریاست کا نقشہ پیش کرتے نظر آتا ہے اور ساتھ ہی سقراط، ارسطو اور فیثاغورث بھی اپنے نظریات کا مصورانہ اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا کچھ عیسائیت میں داخل کیا گیا جو اس سے پہلے شجر ممنوعہ تھا۔ اقتدار کے غلبے اور کارڈینلوں کے وقتی مفادات نے عیسائیت کو رنگارنگ مذہب میں بدل دیا‘ جس کی کوکھ سے ایک ایسی سیکولر اخلاقیات نکلی جو معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ مذہبی رہنما جلتے کڑھتے لیکن مصلحت سے کام لیتے اور لوگ اس زوال پر ماتم کرتے۔
ایسے میں 2 جنوری 1522ء کا دن آ گیا جب پہلی دفعہ کارڈینلوں نے ایک غیر اطالوی شخص ایڈریان کو پوپ منتخب کر لیا۔ ہالینڈ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ شخص عام زندگی میں بہت معتدل مزاج اور سادہ تھا لیکن مذہب کے معاملے میں قدیم نظریات رکھتا تھا۔ پوپ بنتے ہی اس نے اصطبل کے ایک سو گھوڑوں میں سے چار گھوڑے رکھے، سب ملازمین فارغ کر کے صرف دو ملازم رکھ لیے اور حکم دیا کہ اس کے گھر کا خرچہ ایک ڈیوکٹ سے زیادہ نہ ہو۔ اس کے نزدیک تمام مصور، شاعر، ادیب اور سنگ تراش ان جاہلوں جیسے عقائد رکھتے تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو جلاوطن کیا تھا۔ اس نے ایسے لوگوں کو کلیسا سے بے دخل کر دیا اور کارڈینلوں کی اقربا پروری اور رشوت خوری کا خاتمہ کر دیا۔ بادشاہ کی طرف سے کلیسا کے عہدیداروں کو خریدنے کے لیے مراعات دی جاتی تھیں، اس نے یہ سب منسوخ کر دیں۔ اس نے تمام تعیشات بھی ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ سب کچھ اس نے آٹھ دن کے اندر کر دکھایا۔ سب حکام اور پادری اس کے خوف سے تھر تھر کانپتے تھے لیکن عوام اس نئی تبدیلی کو اپنی اخلاقیات کے عین مطابق تصور کرتے تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس کے دور میں برائی نے کچھ دن کے لیے سر چھپا لیا، حکام اور پادری اس کی موت کا انتظار کرنے لگے۔ وہ سیکولر انتہا پسند بھی‘ جنہوں نے مذہبی رہنمائوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا‘ اب صرف ایڈریان کی موت کا انتظار کرتے تھے کیونکہ اس کی مخالفت کرنا رائے عامہ کی مخالفت تھی۔ ایڈریان صرف بیس ماہ گزارنے کے بعد 14 ستمبر 1523ء کو انتقال کر گیا اور مرنے سے پہلے اپنی جائداد غریبوں میں تقسیم کر دی۔
اس کی موت نے پورے روم کے سیکولر حلقوں میں ایک جشن کا سماں پیدا کر دیا۔ اسے ایک نفرت کی علامت بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ عریانی، فحاشی، رشوت و اقربا پروری کا دور واپس لوٹ آیا۔ اس کے جانشین گلیوڈی میڈیچی نے وہ سب کچھ پھر سے عام کر دیا۔ ادب، آرٹ اور فن کے نام پر جنسی لذت پسندی رواج پانے لگی۔ لوگوں کا غصہ دیدنی تھا۔ 1526ء کی مقدس جمعرات جب سینٹ پیٹرز کے سامنے پوپ نے اپنا درشن کروایا تو ایک انتہا پسند سینٹ پال کے مجسمے پر چڑھا اور چلاّ کر بولا: ''اے سدوم کے حرامی، تیرے گناہوں کی وجہ سے روم برباد ہو گا۔ توبہ کر، اگر توبہ نہ کی تو چودہ دن کے اندر اندر تو خود دیکھ لے گا‘‘۔ ایسٹر کی شام کو ایک مست جوگی جسے برانڈانو کہتے تھے، رات کے اندھیرے میں آواز لگاتا رہا، اے روم! کفارہ ادا کرو ورنہ خدا تم سے وہ سلوک کرے گا جو اس نے آل سدوم سے کیا تھا۔ تعیش پسند طبقے نے اسے دیوانے کی بڑ سمجھا اور اپنے عیش و عشرت، ادب، آرٹ اور فن میں مصروف رہا۔
لوگ اس روشن خیالی کو اپنی اخلاقیات پر حملہ تصور کرتے تھے لیکن ان کا بس نہیں چلتا تھا۔ وہ متحد ہونے لگے، ان میں سے کتنے ایسے تھے جو طاقت سے یہ سب روکنا چاہتے تھے۔ یہ سب ایک علاقے بوربون کے ڈیوک چارلس کے پاس جمع ہو گئے۔ 6 مئی کو بائیس ہزار بھوکے شدت پسندوں کا ایک ہجوم شہر میں داخل ہو گیا۔ انہوں نے راستے میں موجود ہر عورت، مرد، بوڑھے اور بچے کو قتل کیا۔ ان کا غصہ اس قدر تھا کہ وہ سانتو پریٹو کے ہسپتالوں اور یتیم خانوں میں گھس گئے اور ہر مریض اور یتیم کو قتل کر دیا۔ ہر اس بشپ، پادری، راہب کو قتل کیا جو اس نئی اخلاقیات کا حامی تھا۔ سینٹ پیٹرز اور ویٹیکن کی ایک ایک چیز لوٹ لی گئی۔ ہر بڑے محل نما گھرانے نے تحفظ کے لیے بڑی رقم ادا کی۔ جو کہتا میرے پاس کم رقم ہے اس کے بچوں کو اٹھا کر چھت سے پھینک دیا جاتا۔ ہر گھر کو لوٹا گیا، بہت سوں کو آگ لگائی گئی، عصمتیں لوٹی گئیں۔ آٹھ دن تک یہ خون آشامی چلتی رہی اور روم راکھ ہو گیا۔ نہ وہ مذہبی پیشوا بچے جو صدیوں پرانے اخلاقی تصورکے برعکس نئی سیکولر اخلاقیات نافذ کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ ہو گئے تھے اور نہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیوں میں ادب، فن اور آرٹ کے نام پر بے راہ روی اور عریانی و فحاشی کو عام کیا۔ 
لٹھ مار گروہوں کے معاشرے میں جنم لینے کی یہ صرف ایک مثال نہیں بلکہ تاریخ ایسی ہزاروں مثالیں پیش کرتی ہے اور شاید آنے والا مورخ پاکستان کی مثال کو بھی اسی طرح اپنی کتابوں میں عبرت کے طور پر درج کر رہا ہو گا کہ کیسے مدتوں ایک اخلاقی زندگی کے اصولوں پر تھوڑا بہت عمل پیرا معاشرے پر پرویز مشرف نے زبردستی اپنی سیکولر اخلاقیات نافذ کرنے کی کوشش کی۔ ادب ،فن اور آرٹ کے نام پر وہ سب کچھ عام کیا جو یہاں ناگوار سمجھا جاتا تھا۔ نصاب میں تبدیلیوں سے لے کر سافٹ امیج کے نام پر ہر اس اخلاقی قدرکا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے لوگ محبت کرتے تھے۔ آزادیِ اظہار کے نام پر دل آزاری اور علم کے نام پر مغربی تہذیب کو فروغ دیا گیا۔ اکادکا کسی شہر میں کیسٹ جلانے کے واقعات ہوئے تو ٹینک اور توپ خانہ مساجد پر چڑھ دوڑا۔ ایسے میں دردیش صدا لگاتے رہے کہ توبہ کرو ورنہ عذاب تم کو گھیر لے گا۔ روم کے شہر کے گرد تو بیس ہزار بھوکوں کا لشکر جمع ہوا تھا، ہم نے ہر گلی محلے اور شہر میں ایسے لشکر پیدا کر لیے ہیں۔ اب صرف تماشا شروع ہونے کے لیے بگل بجنے کا انتظار ہے۔ کب کس طرف سے بگل بج جائے اور ہم یہ سوچتے رہ جائیں کہ ایسے اچانک کیسے ہو گیا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved