تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-03-2014

اصل دشمن کون؟

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اسلام آباد ایف 8سیکٹر میں سوموار کے روز دہشت گردی کے واقعہ کی جو چاہیں تاویلیں پیش کریں،اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے حکومت نے دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے جو حکمتِ عملی اپنائی تھی، وہ بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔اس حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں خود کش حملوں،بم دھماکوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ بند کیا جا سکتا ہے‘ اور ہرطرف امن اور سکون کی فضا قائم کی جا سکتی ہے‘ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوسکا۔ مذاکرات شروع ہونے کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیاں نہ صرف جاری ہیں،بلکہ ان میں تیزی آگئی ہے۔ حکومت سے باہر کے حلقوں کی طرف سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ دہشت گردی کے ان پے درپے حملوں کے ذریعے ٹی ٹی پی دراصل حکومت کو مزید دبائو میں لانا چاہتی ہے‘ تاکہ وہ اس سے ایسے مطالبات منوا سکے،جنہیں تسلیم کرنے میں حکومت تامل کااظہار کرتی آرہی ہے۔ کراچی میں پولیس گاڑی کو نشانہ بنا کر15زیرتربیت کمانڈوز کو شہید کیا گیا۔اس کے بعد ایف سی کے مغوی 23جوانوں کو انتہائی بہیمانہ طریقے سے ہلاک کر کے عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کیلئے ان کی وڈیو جاری کی گئی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب مذاکرات کا عمل جاری تھا۔اس کے بعد جب فضائیہ کے جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے شمالی و جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تو اس وقت بھی اس حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے وزیرداخلہ نے کہا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ان حملوں کو فوجی آپریشن کا نام نہیں دیا جاسکتا۔حکومت کی اولین ترجیح اب بھی مذاکرات ہیں اور یہ کہ حکومت نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ طالبان یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیں۔یہ اعلان کرتے ہوئے وزیرداخلہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے طالبان کو ایک غلط پیغام جاتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست اندر سے اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ حکومت ہر قیمت پرمذاکرات کی خواہاں ہے‘ حالانکہ ایسا فی الواقع نہیں ہے۔ ریاست کمزور نہیں بلکہ حکومت تذبذب کا شکار ہے۔ ''ہر قیمت پر مذاکرات‘ صرف مذاکرات‘‘ پر مبنی حکمتِ عملی نے دہشت گردوں کے حوصلے بلند کر دیے ہیں اور عوام میں خوف و ہراس اور مایوسی کی لہر دوڑا دی ہے‘ کیونکہ اصل مقصد یعنی دہشت گردی کے خاتمے کی طرف کوئی پیش قدمی دکھائی نہیں دیتی۔
29جنوری کووزیراعظم نوازشریف نے جب قومی اسمبلی میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حق میں فیصلے اور ''امن کو ایک اور موقع‘‘ دینے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے امن کا حصول ممکن نہیں ہوگا‘ کیونکہ خود وزیر داخلہ کے انکشاف کے مطابق ٹی ٹی پی واحد دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں اور گروپوں کی تعداد 50سے 60کے درمیان ہے۔ان میں سے کچھ ٹی ٹی پی کی چھتری تلے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کچھ ٹی ٹی پی کے ڈسپلن سے باہر ہیں۔ لیکن ٹی ٹی پی کی قیادت نے دعویٰ کیا تھا کہ مذاکرات یا جنگ بندی کی صورت میں ٹی ٹی پی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی تمام دہشت گرد تنظیموں کو کارروائیاں روک دینے پر آمادہ کرے گی‘ بلکہ کچھ عرصہ پیشتر ٹی ٹی پی کی طرف سے بڑے 
اعتماد کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تمام دہشت گرد تنظیمیں اور گروپ اس کے ڈسپلن میں ہیں اور اس کی مرضی کے برعکس اپنی کارروائیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔اب وزیرداخلہ چودھری نثار کو ٹی ٹی پی سے پوچھنا چاہیے کہ اسلام آباد میں فائرنگ اور خود کش حملے کرنے والی تنظیم اس کے ڈسپلن میں کیوں نہیں؟اور حکومت کو بھی اس بات کا از سرِنو جائزہ لینا پڑے گا کہ کیا اس کی حکمتِ عملی کا مقصد صرف طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے یا ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانا؟ اگر مذاکرات اور نام نہاد جنگ بندی کے باوجود خود کش حملے جاری رہتے ہیں تو پھر ان مذاکرات کا کیا فائدہ؟
لیکن حکومت کے اس طرف آنے کا کوئی ارادہ ظاہرنہیں ہوتا۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ اپنی موجودہ حکمتِ عملی پر ہی کاربند رہے گی‘ کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف ایک موثر اور فیصلہ کن کارروائی کر کے وہ طالبان کو ''ناراض‘‘ نہیں کرنا چاہتی جنہوں نے مولانا سمیع الحق کے مطابق کمال مہربانی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔اسلام آباد کے اندوہناک واقعہ پر وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے جو کچھ کہا ہے اس کا نچوڑ یہ ہے کہ حکومت او رٹی ٹی پی کا مذاکراتی عمل الگ الگ ہے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے باوجود یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔
لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ان مذاکرات کے باوجود اگر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو حکومت ان کی روک تھام کیلئے کون سی تدابیر اختیارکرے گی۔ غور کیا جائے تو چودھری نثار،عمران خان، سید منور حسن اور طالبان ایک ہی صفحہ پر نظر آتے ہیں۔ان کے ساتھ مولانا سمیع الحق اور پروفیسر محمد ابراہیم کو بھی ملایا جائے تو ان سب کا پورا زور ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر واردات کو امریکہ کی سازش ثابت کرنے پر صَرف ہورہا ہے۔
ملک کے ان اکابرین کو یہ احساس نہیں کہ ان کی منطق سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے‘ کیونکہ دہشت گردیہ جانتے ہیں کہ خواہ وہ فوج کے جوانوں کے گلے کاٹیں،خانقاہوں اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنائیں یا وکیلوں اور ججوں کو ہلاک کریں‘ ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی جائے گی۔ عمران خان کا تو اصرار ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی امریکہ ہی کے ایما پر ہورہی ہے اور ٹی ٹی پی نے جن کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے، وہ بھی امریکہ کی شہ پر کی گئی ہیں۔ اگرٹی ٹی پی امریکہ کی ایجنٹ ہے تو اس غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ بات چیت کا کیا جواز ہے؟ ان کے خلاف ریاست کی قوت حرکت میں کیوں نہیں آتی؟ بالکل اس انداز میں چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام آباد کے واقعہ میں غیر ملکی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ چودھری نثار اور عمران خان کے مطابق امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مخالف ہے؟ اس لیے اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسلام آباد میں دہشت گردی کی یہ واردات کروائی ہے۔
تاہم عوام کی بھاری اکثریت اب اس بات کی قائل ہوتی نظر آرہی ہے کہ دہشت گردی کا منبع پاکستان سے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر ہی واقع ہے۔وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ انٹرویو میں جو باتیں کہی ہیں وہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جنہیں ملک میں دہشت گردی کی ہرکارروائی کے پیچھے بھارت‘ امریکہ یا اسرائیل کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ خواجہ آصف نے بجافرمایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا بیج ہم نے خود بویا تھا اور اب ہم اس کی فصل کاٹ رہے ہیں۔جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، دہشت گردی کے خلاف کوئی جامع حکمتِ عملی اور موثر پالیسی تشکیل نہیں پاسکتی‘ لیکن اس کے برعکس ہم اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں کے سر تھوپ کر خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان کو اصل خطرہ دہشت گردوں سے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے حامیوں سے ہے۔ دہشت گرد اپنی ہر کارروائی کا اعتراف کر کے خود کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے سے نہیں ہچکچاتے،لیکن حمایتی ان کے دفاع کو پہنچ جاتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ یہ بیرونی طاقتوں کی سازش ہے ‘مزید وارداتوں کیلئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے مقابلے میں دہشت گردوں کے حمایتی اس لیے بھی خطر ناک ہیں کہ ان کی طرف سے دہشت گردی کو نظریاتی ، فکری اور سیاسی بنیاد فراہم کی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی آئندہ پالیسی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی یا امریکہ کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی جائے گی؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved