ہارون الرشید صاحب کا فون تھا۔ کہنے لگے‘ اگر آج تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی تعریف میں کالم لکھنے کا موقع گنوا دیا‘ تو پھر تم سے بڑا بدبخت کوئی نہ ہو گا کیونکہ تم نے 19 فروری کو ہی وہ سنسنی خیز ایکسکلوسو رپورٹ اخبار میں چھاپی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد القاعدہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے گھیرے میں آ چکا ہے اور وہ کسی وقت بھی خون کی ہولی کھیل سکتے ہیں۔ کہنے لگے، ان کے بس میں ہوتا تو کم ازکم تیس ہزار روپے انعام تو ضرور اس خبر پر تمہیں ملنے چاہییں تھے۔ میں نے افسردہ دل سے کہا، ہارون صاحب! کون چاہتا تھا کہ یہ خبر سچی ہو، بہتر ہوتا کہ چودھری نثار علی خان نے جو میری اس رپورٹ کے جواب میں پریس کانفرنس کرکے اسلام آباد کو محفوظ شہر قرار دیا تھا، وہی درست ہوتا۔ ہارون صاحب کہنے لگے، صحافی کیا کرے، اس کا کام ہی ایسا ہے، وہ تو ایک ایسا پیغام رساں ہے جو ہمیشہ بری خبر لاتا ہے۔ اب کیا کریں اورکس کس کا رونا روئیں۔
کمال دیکھیں کہ خود وزارت داخلہ نے وہ رپورٹ تیار کی جو 19 فروری کی دوپہر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں پیش ہونی تھی اور جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسلام آباد القاعدہ، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے گھیرے میں آ چکا ہے۔ مجھے ایک رات پہلے وہ رپورٹ مل گئی اور اسے اپنے اخبار میں شائع کرا دیا اور پھر دنیا ٹی وی کے اپنے صبح کے پروگرام ''خبر یہ ہے‘‘ میں بریک کیا جسے بعد میں سارے میڈیا نے لفٹ کرکے ہیڈ لائنز چلائیں۔ یہ صرف گیارہ روز پہلے کی بات ہے۔ وہی حال ہے کہ مجھے پرچے کے سوالات گیارہ روز پہلے دے دیے جائیں، مجھے علم ہو کہ میں نے سوالوں کا کیا جواب لکھنا ہے لیکن پھر بھی فیل ہو جائوں۔ اس سے زیادہ نالائقی اور کیا ہو گی۔
وزارت داخلہ، اسلام آباد پولیس، سیکرٹ ایجنسیوں نے یہی کچھ کیا۔ انہیں گیارہ روز سے علم تھا کہ شہر محاصرے میں آ چکا ہے لیکن سب سوئے رہے اور چالیس منٹ تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ ایک اور کمال دیکھیں! اتنے بڑے واقعے پر انکوائری کمیٹی بنائی جاتی ہے کہ معلوم کریں کہیں یہ سکیورٹی کی ناکامی تو نہیں؟ انکوائری افسر اور کوئی نہیں، وہی ایس ایس پی آپریشن ڈاکٹر رضوان ہیں‘ جنہیں اس واقعے کے بعد سب سے پہلے برطرف کرنا چاہیے تھا۔ کر لیں جو کرنا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ حکمران لڑنا نہیںچاہتے، وہ بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہو چکا ہے کہ۔۔۔ اب کی بار مار کے دیکھو۔ جب ملک کا وزیر داخلہ بھی طالبان سے کہہ رہا ہو کہ وہ ڈھونڈ کر بتائیں کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کس گروپ نے کی ہے تو پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ تو ہر جگہ مقابلے پر تل جاتے ہیں لیکن اس بات پر مقابلہ نہیں کرتے کہ بھارتی نیول چیف نے اس وجہ سے استعفیٰ دے دیا کہ ایک حادثے میں دو اہلکار مارے گئے۔ یہاں گزشتہ دس برس میں پچاس ہزار افراد مارے گئے اور کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ چودھری نثار سے بھی رحمٰن ملک کی طرح جتنی گفتگو کرانی ہو کرا لو، وہ کبھی نہیں تھکیں گے لیکن ایکشن کہیں نظر نہیں آ ئے گا۔ سب جانتے ہیں کہ اسلام آباد میں کن علاقوں میں دہشت کا راج ہے، کون کہاں رہتا ہے اور کس وقت کیا کر سکتا ہے۔ رحمٰن ملک کو بھی علم تھا لیکن ان کی ترجیحات میں اسلام آباد کو محفوظ بنانا نہیں تھا۔ انہیں لوٹ مار کرنی تھی جو کھل کر انہوں نے کر لی۔ ان کے دور میں کئی اجلاس ہوئے لیکن ہر بار حکمران پیچھے ہٹ گئے۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ سب کچھ خطرے میں ہے۔ جب وزیر اعظم ہائوس اور وزیر داخلہ کے دفتر سے چند منٹ کی ڈرائیو پر چالیس منٹ تک دہشت گردی کی کارروائی ہوتی رہے تو باقی کیا بچا؟
کبھی ہمیں بتایا جاتا تھا ہماری ایجنسیاں دنیا کی بہترین ایجنسیاں ہیں جنہوں نے سپر پاورز تک کو ناکوں چنے چبوا دیے اور اب ہماری اپنی حالت چنے جیسی ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ تک علم نہیں کہ ہمیں اس حالت تک کون لایا ہے۔ کبھی طالبان کا نام لیتے ہیں، پھر ڈر جاتے ہیں اور انہی سے کہتے ہیں کہ ہماری مدد کرو اور بتائو اس واقعے کے پیچھے کون ہے؟ کبھی ہم طالبان سے کہتے ہیں کہ وہ اس واقعے کی مذمت کریں۔ پھر ہمیں خیال آتا ہے کہ ہو نہ ہو یہ بیرونی ہاتھ ہے، یہ بیرونی ہاتھ ہمیں بھارت اور افغانستان کا لگتا ہے تو وہاں سے بھاگ کر ہم امریکہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے لگتے ہیں اور آخرکنفیوز ہو کر اپنا جسم کھجانے لگتے ہیں۔
اس حملے کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والے اجلاس میں وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ایجنسیاں چوبیس گھنٹوں میں پتا چلائیں کہ کہیں طالبان ان کے ساتھ ڈبل گیم تو نہیں کھیل رہے کہ ایک طرف کچھ لوگوں نے سیزفائر کے نام پر فضائی حملے رکوا دیے اور محفوظ مقام پر منتقل ہو رہے ہیں اور دوسری جانب شہروں میں کارروائیاں تیزکر دی ہیں؟ اس پر بندہ ہنسے یا روئے؟ اُن ایجنسیوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان سے پتا کریں کہ کہیں ڈبل گیم تو نہیں کھیلی جا رہی جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ اسلام آباد میں کیا ہونے والا ہے؟ وزیر اعظم صاحب ان سے معلوم کرانا چاہتے ہیں کہ طالبان حکومت کے ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے۔ جن کو اپنے دفتر سے چند منٹ کے فاصلے پر ہونے والی دہشت گردی کی خبر ٹی وی چینلز سے معلوم ہو، وہ آپ کو کیسے پتا کرکے دیں گے کہ دہشت گرد ڈبل گیم کھیل رہے ہیں یا واقعتاً مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔
ہاں، ان سے یہ پوچھ لیں کہ ہماری دوست صحافی ماریانہ بابر کے گھر پارٹی میں کون آیا تھا؟ اس کے بارے میں انہیںسب کچھ معلوم ہے۔ حالت دیکھیے، ماریانہ کے گھر کچھ مہمانوں کو بلایا گیا‘ جن میں بھارتی سفیر کی اہلیہ بھی تھیں۔ ان کے گھر میں دو اہلکار دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور انہوں نے وہاں موجود مہمانوں کی تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ کوئی حد ہوتی ہے! اگر بھارتی سفیر کی بیگم کا کسی صحافی کے گھر جانا اس ملک کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے تو پھر بہتر ہو گا کہ اس سفارت خانے کو ہی بند کر دیا جائے۔ ایجنسیوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ماریانہ بابر کے گھر کی دیوار پھلانگ کر وہاں موجود مہمانوں کی تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ وہ پاکستانی وزارت خارجہ سے اجازت لے کر ماریانہ بابر کے گھرگئی تھیں۔
بھارتی ہائی کمشنر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملے تو پاکستان خطرے میں نہیں پڑتا لیکن اگر اس کی بیگم کسی ایک فنکشن میں چلی جائے تو پاکستان خطرے میں آتا لگنے لگتا ہے۔
کل کو یہی کام پاکستانی ہائی کمشنر کی بیگم کے ساتھ دہلی میں ہو گا۔ یہ کلچر دونوں ملکوں کی ایجنسیوں نے ہمیں دیا ہے جو شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے عام لوگ ملک دشمن ہیں؛ حالانکہ عام لوگ ہی سب سے زیادہ محب ِوطن ہیں۔ جب ایجنسیاں لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان کے زبردستی فوٹو بنانے لگیں گی تو پھر یہی حشر ہو گا کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتا ہو گا کہ اسلام آباد میں کس وقت دہشت گردی ہونے والی ہے۔
اتنے بڑے واقعے اور ناکامی کے بعد بھی اجلاس جاری ہیں۔ نامعلوم، مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ میں آخری عباسی خلیفہ کے دور میں زندہ ہوں۔ تاتاریوں کی فوجیں بغداد پر چڑھائی کر رہی ہیں اور خلیفہ اپنے درباریوںکے ساتھ بیٹھا بحث کر رہا ہے کہ کوّا حرام ہے یا مکروہ یا سوئی کے ناکے سے کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں؟
ہلاکو خلیفہ معتصم کو قتل کرنے لگتا ہے تو ایک وہم پرست تاتاری کہتا ہے کہ خانانِ خاناں اسے اس طرح مارنا کہ اس کا لہو نہ بہے۔ لہٰذا معتصم کو ایک قالین میں لپیٹ کر تاتاری گھڑ سواروں نے اپنے وحشی گھوڑوں کے بے رحم سموں تلے روند ڈالا۔ یہ واقعہ 1258ء کا ہے۔ کیا آپ کو بھی میری طرح لگتا ہے کہ آپ آخری عباسی خلیفہ کے دور میں زندہ ہیں؟