تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-03-2014

ادارے افراد پر مقدم ہوتے ہیں

معاملہ ایک سرائیکی کہاوت کی تمثیل پیش کر رہا تھا ''بھاندے دی ہر شے بھاندی اے‘ تے ان بھاندے دی کئی شے نئیں بھاندی‘‘ (جو اچھا لگتا ہے اس کی ہر چیز اچھی لگتی ہے اور جو خود اچھا نہ لگے اس کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی)۔ زیر بحث میرا گزشتہ کالم تھا جس میں‘ میں نے پارلیمنٹ لاجز میں جمشید دستی کی جانب سے مبینہ غیر اخلاقی حرکتوں کے الزام پر لکھا تھا کہ ''گند بہرحال صاف ہونا چاہیے‘‘۔ میرا ایک دوست اس معاملے کو سپیکر کی مانند جمشید دستی کے ماضی سے نتھی کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈالنا چاہتا تھا۔ 
اس دوست نے مجھے جمشید دستی کے قصے سنانے شروع کردیے۔ ایک پر ایک قصہ۔ الیکشن کے دوران اس کے بھائی نے کس طرح ایک تیزاب فیکٹری کے مالک سے بیس ہزار روپے الیکشن فنڈ مانگا۔ پوچھا کہ یہ فنڈ کس لیے دیا جائے؟ جمشید دستی کے بھائی نے کہا کہ سب فیکٹریوں والے دے رہے ہیں‘ آپ کو بھی دینا ہوگا۔ مانگنے کا انداز جگاگیری اور بھتے جیسا تھا۔ فیکٹری کا مالک خود ''ڈنڈی پٹی‘‘ والا تھا‘ اس نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ میرا نام ہے‘ دستی کو جا کر کہہ دو کہ میں فنڈ نہیں دیتا‘ جو کرنا ہے کر لو۔ چور کے پائوں نہیں ہوتے لہٰذا دوبارہ اس کے پاس کوئی نہیں آیا مگر اردگرد کی فیکٹریوں کے مالکان نے بتایا کہ ان سے الیکشن فنڈ ویسے ہی لیا گیا تھا‘ جیسے کراچی میں فطرے کی رقم لی جاتی ہے۔ پھر مجھے میرا وہ دوست بتانے لگا کہ پارکو سے ماہانہ کروڑوں روپے کا تیل چوری ہوتا ہے اور جمشید دستی ان تیل چوروں سے مبینہ طور پر بھتہ لیتا ہے اور انہیں اس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اس کی تیل چور مافیا کے بارے جتنی بھی داستانیں ہیں وہ دراصل اپنے زیر سایہ کام کرنے والوں کے مخالف گروہ کے خلاف اس کی انتقامی کارروائیاں ہیں۔ پھر وہ دوست مزید بتانے لگا کہ مظفرگڑھ تھرمل پاور سٹیشن میں تیل کی سپلائی میں جو گھپلا ہوتا ہے جمشید دستی مبینہ طور پر اس پانی ملے فرنس آئل کی سپلائی میں ڈ ائریکٹ حصے دار ہے۔ اس کے بھائی قتل‘ اغوا اور اسی قسم کی وارداتوں میں نامزد ملزم ہیں۔ خود جمشید دستی قتل کے مقدمے میں اندر رہا ہے۔ اس کا بھائی جاوید اس کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 117 پر ضمنی انتخابات میں امیدوار تھا اور ربانی کھر سے الیکشن ہار گیا تھا۔ پارلیمنٹ لاجز میں مجروں پر ہنگامہ بپا کرنے والے جمشید دستی کا یہ بھائی تھیٹروں میں زنانہ سوانگ بھر کر سٹیج پر ڈانس کیا کرتا تھا۔ اسے پورا مظفرگڑھ ''جاویداں باجی‘‘ کہتا ہے۔ ٹرکوں کے اڈوں پر اس کے معاملات ایک علیحدہ داستان ہے اور بے شمار راوی خلق خدا کو فسانے سنا رہے ہیں ادھر تم ہو کہ جمشید دستی کی بات کا یقین کر رہے ہو۔ 
میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ غالباً تمہاری معلومات خاصی ناقص اور متروک شدہ ہیں۔ یہ باتیں جو تم مجھے آج بتا رہے ہو‘ میں مخلوق خدا کو کالم کے ذریعے کافی عرصہ پہلے خاصی تفصیل سے بتا چکا ہوں۔ میرے پاس ان کے علاوہ بھی کافی گفتنی اور ناگفتنی معلومات ہیں مگر معاملہ یہ نہیں کہ اس بات پر محض اس لیے مٹی ڈال دی جائے کہ محرک جمشید دستی ہے۔ جناب علیؓ نے فرمایا کہ ''یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے‘ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے‘‘۔ جمشید دستی والا معاملہ اس وقت بالکل ایسی ہی صورت حال کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ آپ بھی سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق والا انداز اپنا رہے ہیں۔ سپیکر صاحب کو چاہیے تھا کہ بات سن کر تحقیقات کا حکم دیتے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتے مگر موصوف فرماتے ہیں کہ جمشید دستی عادی جھوٹا ہے۔ گدھا گاڑی پر الیکشن مہم چلانے والا ڈرامے باز ہے۔ بات سپیکر صاحب کی درست ہے مگر ان کے منصب کے شایان شان نہیں۔ وہ منصف ہیں مدعی نہیں۔ غیر جانبدار ہیں پارٹی نہیں۔ اگر انہیں پتہ ہے کہ جمشید دستی دروغ گو‘ جھوٹا اور ڈرامے باز ہے تو اس کے خلاف دفعہ 62/63 کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ عدالت سے جھوٹا قرار پانے والا شخص اگر اسمبلی میں بیٹھ سکتا ہے تو پھر نقطۂ اعتراض بھی پیش کر سکتا ہے اور تحریک استحقاق بھی۔ یا وہ اسمبلی میں ہوگا یا نہیں ہوگا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اس کو اسمبلی میں بٹھائیں مگر اس کی بات صرف اس لیے نہ سنیں کہ اس کا ماضی جھوٹ کا پلندہ ہے۔ بطور ممبر قومی اسمبلی سب کا حق برابر ہے کسی ایک ممبر کو شودر نہیں بنایا جا سکتا۔ وہ تیل چور مافیا کا سرپرست سہی‘ وہ فرنس آئل میں پانی ملانے والوں کا چودھری سہی‘ اس کے بھائی جرائم پیشہ سہی‘ وہ خود قتل کا ملزم سہی‘ اس سے وابستہ سارے ڈرامے سچ سہی‘ اس کے بھائی کے تھیٹر میں ڈانس کرنے والی بات ٹھیک سہی اور اس کی ڈگری سو فیصد جعلی سہی مگر اس سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ اس نے جو بات اب کی ہے وہ بھی جھوٹ ہے؟ بغیر تحقیق محض پچھلی شہرت کی بنیاد پر یہ بات کیسے رد کی جا سکتی ہے؟ 
میرا وہ دوست کہنے لگا کہ آپ تو خود اسے اچھی طرح جانتے ہیں اور بقول آپ کے آپ مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہیں‘ پھر اس کی حمایت کس لیے؟ میں نے کہا‘ میں جمشید دستی کی نہیں اس کے مطالبے کی حمایت کر رہا ہوں۔ وہ دوست کہنے لگا سارے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ کہاں شراب نہیں پی جاتی؟ پورے جنوبی پنجاب میں جاگیرداروں‘ سرداروں‘ تمن داروں‘ گدی نشینوں اور مخدوموں کی شادیوں میں مجرے ہوتے ہیں۔ شراب چلتی ہے۔ جگہ جگہ جوئے خانے ہیں۔ قمار بازی کے اڈے ہیں۔ قحبہ خانے ہیں۔ کیا کچھ نہیں ہے؟ سارے معاملات کو چھوڑ کر صرف پارلیمنٹ لاجز پر ہی نزلہ کیوں گر رہا ہے؟ وہاں شریف ممبران بھی ہیں۔ ان کی معزز فیملیاں رہتی ہیں‘ سب پر کیا گزر رہی ہوگی؟ میں نے کہا: بھائی جان! جن کے دل میں چور ہے وہ گھبرائیں۔ کسی شریف اور عزت دار کو کیا خطرہ ہے؟ تحقیقات ہونے دیں۔ غیر جانبدار اور ایماندارانہ تحقیقات۔ سب پتہ چل جائے گا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا۔ رہ گئی پورے پاکستان کی بات... تو عزیزم! ہر جگہ کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ ہر عہدے کی کوئی توقیر ہوتی ہے۔ ہر مقام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ممبران اسمبلی مراعات یافتہ لوگ ہیں۔ قوم کی رہنمائی کے فریضے پر مامور ہیں۔ قانون سازی کے لیے بااختیار ہیں۔ عام تام میرے جیسے لوگ نہیں۔ لوگ خاص 
ہیں تو ان سے توقعات بھی خاص ہوں گی۔ پارلیمنٹ قانون سازی کا گھر ہے۔ پارلیمنٹ لاجز ان قانون سازوں کی رہائش گاہیں ہیں۔ وہاں کا تقدس ہے۔ وہاں کی توقیر ہے۔ وہاں کی عزت و آبرو ہے۔ وہ کوئی بھنگڑخانہ نہیں کہ وہاں بھی وہ سب جائز اور درست سمجھا جائے جسے ہم باقی عام مقامات کے لیے قبول کر چکے ہیں۔ 
دنیا بھر میں سپیکر غیرجانبدار منصب ہوتا ہے۔ سپیکر جس دن اسمبلی میں بطور سپیکر عہدے کا حلف اٹھاتا ہے اُسی دن وہ اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہو جاتا ہے۔ اس دن کے بعد وہ کسی پارٹی کا رکن یا عہدیدار نہیں بلکہ اسمبلی کا کسٹوڈین بن جاتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے؟ فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی سپیکر بھی تھیں اور پیپلز پارٹی کی جانثار بھی۔ شہلا رضا سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر بھی ہیں اور پیپلز پارٹی کی ترجمان بھی۔ اس سارے پینڈورا بکس سے دو چیزیں سامنے آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ اسمبلی میں بیٹھی ایلیٹ کلاس کے ''برہمن‘‘ ارکان کسی ''شودر‘‘ کو برابری کے حقوق دینے کو قطعاً تیار نہیں ہیں اور دوسری یہ کہ سپیکر کا عہدہ مکمل طور پر جانبدار ہے۔ اس معاملے پر جمشید دستی کے ذاتی کردار پر‘ جو میرے بہترین علم کے مطابق ایک غیر موجود شے ہے‘ بحث کرنے اور اچھالنے کے بجائے فی الوقت صرف اسی معاملے کی تحقیقات کرائی جائے۔ رہ گیا جمشید دستی‘ تو اس کا معاملہ علیحدہ سے دیکھا جائے۔ پارلیمنٹ کی عزت اور نیک نامی بالکل علیحدہ چیز ہے۔ اسے کئی رکن کے ذاتی کردار کے ساتھ مقابلے بازی میں برباد نہیں کیا جا سکتا۔ جمشید دستی جیسے ارکان تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر پارلیمنٹ کسی ایسے ویسے اور حادثاتی رکن اسمبلی کا نام نہیں‘ ایک ادارے کا نام ہے۔ ادارے افراد سے کہیں بالاتر اور مقدم ہوتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved