وطن عزیز کو اندھیروں میں ڈوبا دیکھ کر،ملک کے ہرشہری کے ایک ایک بال کو قرض میں جکڑا دیکھ کر، ہسپتالوں میں غریبوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑکر مرتادیکھ کراور نوجوانوں کو روزگارکے لیے دھکے کھاتے دیکھ کر بہت سے ایسے چہرے سامنے آتے ہیں جنہوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ، کچھ چہرے ایسے بھی ہیں جو آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں لیکن انہی کی طرح کے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جب پاکستان بنا توملک میں صرف راہوالی شوگر مل تھی جوگوجرانوالہ اوراردگرد کے لوگوں کی ضروریات کے لیے کافی تھی۔ مشرقی پنجاب سے آنے والے کچھ ہنر مندوں نے پنجاب میں چھوٹی چھوٹی مشینیں لگا کر چینی بنا نا شروع کر دی اور پھر ان مشینوں کو رفتہ رفتہ پھیلاتے گئے ۔ پہلے یہ مشینیں ہاتھ سے چلتی تھیں ، پھر ان کے ساتھ بجلی کی موٹریںلگنا شروع ہو گئیں۔ 1950ء تک پنجاب میں جگہ جگہ یہ مشینیں لگ گئیں۔ہونا تویہ چاہیے تھاکہ ملک کی اس صنعت کو ترقی اورتحفظ دیا جاتا مگر بدقسمتی سے خفیہ ہاتھ حرکت میں آیا اوراس نے جاوااور سما ٹرا سے موٹے دانوں والی چینی درآمدکرنے کے لائسنس جاری کر دیے جس سے ملک میں پہلی بار لائسنسوں کا کاروبار شروع ہوگیااور چینی کی مقامی صنعت پرزوال آگیا۔مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے مہاجرین نے اپنی جمع پونجی سے جومشینیں لگائی تھیں وہ ضائع ہو گئیں۔اگر ان لوگوں کوتحفظ دیاجاتا اور ان کی مدد کی جاتی توملک میں کبھی چینی کا بحران پیدا نہ ہوتا اورنہ ہی چینی مہنگی ہوتی۔
اب آتے ہیں اس وقت ملک میں لوہے اور سٹیل کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کی طرف۔کراچی سٹیل مل کا بحران آج بیس ارب روپے سالانہ کھا رہا ہے،لہٰذااب اس کی نجکاری کردی جائے گی۔وہ سٹیل مل جس نے2004-5ء میں32 ارب روپے کمائے تھے آج 24 ارب روپے کی مقروض ہے۔1947ء میں پاکستان بنا تو بھارت کے حصے میں 19 اسلحہ ساز فیکٹریاںاورچار سٹیل ملیں آئیں جبکہ پاکستان کے حصہ میں ایک بھی اسلحہ ساز فیکٹری اور سٹیل مل نہ آئی۔نو زائیدہ پاکستان کو اپنے دفاع اور صنعتی ترقی کے لیے سٹیل مل کی اشد ضرورت تھی۔اُس وقت مشرقی پنجاب سے بھا ری تعداد میں آنے والے ذہین کاریگروں اور ہنر مندوں کی ملک میں بہتات تھی۔ذرا سی توجہ دی جاتی تو یہ لوگ ملک اور قوم کے لیے بیش بہا خدمات انجام دے سکتے تھے۔ مثال کے طور پر قیام پاکستان کے وقت جرمنی کی بنی ہوئی ''پف‘‘ سلائی مشین پورے برصغیر میں اپنی کارکردگی کے لیے مشہور تھی،مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے انہی کاری گروں نے جو سلائی مشینیں بنائیں وہ جرمن مشینوں سے بھی بہترتھیں۔سٹیل کی صنعت کے لیے ان ہنر مندوں سے کام لیا جا سکتا تھا لیکن جو ہوا اس کی داستان یہ ہے:
پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ملتان میں پاکستان کی پہلی سٹیل مل لگانے کا منصوبہ بنا تو اس کے لیے جرمنی کی سب سے بڑی سٹیل مل کے ما لک کرپس کو پاکستان بلایا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد کرپس پر امریکہ، برطانیہ اور روس نے پابندی لگا ئی تھی کہ وہ جرمنی میں کوئی انڈسٹری نہیں لگا سکتا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو کرپس کراچی پہنچ گئے ۔ اس وقت کچھ دردمند پاکستانیوں نے اسے قائل کیا کہ وہ پاکستان میں سٹیل مل لگائے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے مسٹرکرپس کی فیکٹریوں میں تیار کی گئی آبدوزیں، ٹینک اور توپیںاستعمال کیں۔ سٹیل کی صنعت میں کرپس کی مضبوط پوزیشن کااس سے بڑا ثبوت اورکیا ہو سکتا ہے کہ ہٹلرجیسا شخص بھی جو کسی کی تعریف کرنے میں انتہائی بخیل تھا، اپنی تقریروں میں کہا کرتاتھا کہ '' ہر جرمن کو ایک شکا ری کتے سے تیز اورکرپس سٹیل کی طرح مضبوط ہو ناچا ہیے‘‘۔
کرپس پاکستان کے مختلف حصوں میںگیا اور بالآخر اس نے ملتان کو سٹیل مل کے لیے منتخب کر لیا جس میں کوئٹہ کا کوئلہ اور میانوالی کا خام مال استعمال ہو نا تھا۔ اس وقت طے یہ ہوا کہ پاکستان اس سٹیل
مل کے لیے زمین دینے کے علا وہ بلڈنگ بھی بنا ئے گا اور ملتان سے میانوالی اور کوئٹہ تک ایک علیحدہ ریلوے لائن بچھائے گا تاکہ ان دومقامات سے خام مال کی سپلائی جاری رہے۔یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اس پراجیکٹ کے لیے درکار تمام مشینری کی فراہمی مسٹر کرپس کی ذمہ داری ہو گی۔ ملک بھر میں اس پر خوشیاں منا ئی جانے لگیں لیکن دوسری جانب ہمارے دشمن اور پاکستان میں موجود اس کے نمک خواروں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے۔فوری طور پر خفیہ ہاتھ حرکت میں آئے اور مسٹر کرپس کو بھگانے کی سازشیں تیار ہونی شروع ہو گئیں تاکہ سٹیل مل کا منصوبہ روک دیا جائے۔
1949ء میں ایک طرف ملتان میں پاکستان کی پہلی سٹیل مل بنانے کا منصوبہ فائنل کیا جارہا تھا اور دوسری طرف اسے روکنے کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔کوشش کی گئی کہ مسٹرکرپس کو اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ اس منصوبے سے متنفر ہوکر بھاگ جائے۔ پست درجے کے اعتراضات کرتے ہوئے مسٹر کرپس سے کہا گیا کہ اگر آپ کا تیار کردہ سٹیل عالمی معیار کا نہ ہوا تو پھرکیا ہوگا؟ مسٹر کرپس نے کہا کہ میں اسے ایکسپورٹ کر دوں گا۔اس پر میرے وطن کے غداروں نے کہا کہ دیکھیںجی، اگر آپ کا ایکسپورٹ کیا ہواسٹیل خراب نکل آیا توہما رے کوئلے اور خام مال کی لاگت کا کیا بنے گا؟مسٹرکرپس نے کہا، اگر میرا تیارکیا ہوا سٹیل
آپ کی ضرورت اور معیار کے مطا بق نہ ہوا تو اس کے پیسے انٹرنیشنل نرخوں پر میں ادا کروں گا۔ جب کرپس نے ان کی تمام باتیں مان لیں تو یہ غداران وطن پریشان ہو گئے اور سوچنے لگے کہ اب کیا کریں؟ آخرانہوں نے ایک بڑی مجبوری یہ پیش کردی کہ جناب یہ جو ملتان سے میانوالی اور کوئٹہ تک نئی ریلوے لائن بچھانی ہے اس کے لیے ہما رے پاس رقم نہیں ہے۔ اس پر مسٹرکرپس نے کہا کہ بلڈنگ اور ریلوے لائن بنانا اور دوسرے تمام مراحل کی ذمہ داری بھی میری ہو گی، آپ صرف مجھے وہ زمین دے دیں جہاں یہ سٹیل مل لگے گی،آپ بے فکر رہیں بلڈنگ میں خود ہی بنا ئوںگا۔ لیکن دشمنان وطن کب ہار ماننے والے تھے ، کرپس کے راستے میں اتنے کانٹے بچھائے گئے کہ وہ تنگ آ کر بھاگ گیا اور پھر نہرو نے اسے بھارت بلایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے بھارت جا کر سٹیل مل لگائی اور 1949ء کے چند سال بعدبھارت میںکاروں، بھاری مشینری، ٹریکٹر اور لوہے کی مشینری کی بے مثال صنعتی ترقی ہونے لگی جس میں جرمنی کے اسی کرپس کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
ادھر پاکستان میںمشرقی پنجاب سے آئے ہوئے بہترین کاریگر اور ہنر مند بنیادی انڈسٹری نہ ہونے سے بے کار بیٹھے رہے اور ملک کا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہو تا رہا۔ اگر اس وقت سٹیل مل مکمل ہو جا تی تو آج میرے وطن کے حالات کچھ اور ہوتے، بھارت اور چین کی طرح ہمارا ملک بھی ایک صنعتی ایمپائر ہوتا۔ قطاروں میں دھکے کھا کر ووٹ دینے والی یہ قوم کبھی پوچھے گی کہ کالا با غ ڈیم کی طرح ہمارے سٹیل کے یہ37سال کس نے ضائع کیے؟