اب ہمارے لئے کھیلوں کے سوا کسی دوسرے شعبے سے خوشخبری نہیںآتی۔ ایسے کھیل بھی دوچار ہی رہ گئے ہیں۔ باقی کھیلوں کا حال ہماری سیاست اور غریب آدمی کے چولہے جیسا ہے۔ بیشتر کھیل تو ایسے ہیں‘ جن میں ہمارے کھلاڑی‘ اچھے خاصے گولڈ میڈل حاصل کرنے کے قابل ہیں۔ ان کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں ہوتے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ پر 8کروڑ روپے سے زیادہ رقم خرچ ہوئی۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا؟ اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ بہرحال اس طرف چلتے ہیں‘ جہاں سے ہمیں کبھی کبھار خوشخبری نصیب ہو جاتی ہے۔ ان دنوں بنگلہ دیش میں ایشیا کپ کا ٹورنامنٹ چل رہا ہے۔ اس میں پاکستان نے تین بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بھارت کے خلاف‘ جس سے ایک میچ جیتنا کئی ٹورنامنٹ جیتنے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی کیفیت بھارت میں بھی ہے۔ جب وہ پاکستان کو ہرا دیں‘ تو وہاں بھرپور جشن منائے جاتے ہیںاور جب ہم بھارت کو شکست دے دیں‘ تو یہاں جشن کا سماں ہوتا ہے اور اسی طرح دونوں ملکوں میں صف ماتم بھی ایک ہی طرح کی بچھتی ہے۔ ہم بھارت سے ہار جائیں‘ تو لوگ دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں اور بھارت ہم سے ہار جائے‘ تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ گزشتہ روز بھارت جب ہم سے ہارا‘ تو حسب معمول وہاں رونا دھونا شروع ہو گیا۔ ایسا اکثر ملکوں میں ہوتا ہے۔ خصوصاً یورپ کے چند ملکوں کے اندر فٹ بال کے کھیل میں ایسی ہی دلچسپی لی جاتی ہے۔ کئی ایک پاکستان اور بھارت کی طرح روایتی حریف ہوتے ہیں۔ پوچھئے مت‘ فٹ بال میچ ہارنے والی ٹیم کے ملک میں‘ آہ و فغاں کے مناظر کیا ہوتے ہیں؟ لیکن بھارت کے اچھے اچھے سمجھدار لوگ بھی اظہار غم کرتے ہوئے‘ انسانیت کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں۔
بھارتی مسلمان بالعموم متعصب ہندوئوں کے غصے کا نشانہ بنتے ہیں۔ 2مارچ کو جب بھارت سنسنی خیز میچ میں اپنی توقعات کے خلاف شکست سے دوچار ہوا‘ تو باقی ردعمل اپنی جگہ‘ یو پی کی ایک یونیورسٹی نے تو حد ہی کر دی۔ وہاں 67 کشمیری طالب علم‘ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ کرکٹ کا کھیل برصغیر کا مقبول ترین کھیل بن چکا ہے اور پاک بھارت کے مابین ہو‘ تو صرف برصغیر ہی نہیں‘ یہاں کے باشندے‘ دنیا میں جہاں بھی ہوں‘ کام کاج چھوڑ کر میچ دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے یہ طلبا بھی روایت کے مطابق پاک بھارت میچ دیکھ رہے تھے۔ آخری لمحات میں جب آفریدی نے دوچھکے لگا کر‘ بھارت کی متوقع جیت کو شکست میں بدلا‘ تو سارا بھارت سکتے میں آ گیا۔ مذکورہ طلبا نے پاکستان کی کامیابی پر اظہارمسرت کرتے ہوئے‘ ذرا سا کشمیری رقص کر دیا تھا۔ کالج کی انتظامیہ اتنا مشتعل ہوئی کہ انہیں حکم دیا گیا کہ ''یہاں سے فوراً بوریا بستر باندھو اور پاکستان چلے جائو۔‘‘ وہ پاکستان کیسے آتے؟ ظاہر ہے واپس مقبوضہ کشمیر میں اپنے گھروں کو چلے گئے۔ کھیل سے پیار اپنی جگہ لیکن اتنا بھی کیا پیار کہ آدمی ‘انسانیت کے درجے سے ہی گر جائے؟ کرکٹ کے میچ دونوں ملکوں کے میڈیا پر اہتمام سے دکھائے جاتے ہیں۔ ٹیلیویژن چینلز کی نشریات میں‘ ایک ایک لمحے کا کھیل دیکھا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کا ردعمل بھارت میں اور بھارتی عوام کا ردعمل پاکستانی عوام دیکھتے رہتے ہیں۔ ہر مہذب شخص‘ دونوں ملکوں کے عوام کے ردعمل سے اندازہ کر لیتا ہے کہ کہاں کھیل کی دلچسپی‘ تہذیب کے دائرے میں رہتی ہے اور کہاں باہر نکل جاتی ہے؟
میں کھیل کا ذکر چھوڑ کے دو قومی مزاج کا موازنہ کرنے میں لگ گیا۔ مجھے اتنی بڑی تعداد میں طلبا کو یونیورسٹی سے زبردستی نکال کے‘ تعلیم کی سہولت سے محروم کرنے کا واقعہ پڑھ کے بہت صدمہ ہوا۔ مگر کیا کریں؟ رہتے ہی ایسے خطے میں ہیں‘ جہاں آزادی پورے برصغیر کے لئے صدمات ہی لے کر آئی۔ کہیں زیادہ۔ کہیں کم۔ مگر دکھوں سے سب کو گزرنا پڑا اور اب بھی گزرتے رہتے ہیں۔ بقول استاد دامن
روئے تسیں وی او‘ روئے اسیں وی آں
فوری صدمے پر تو انسان روکرچپ ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے صدمات کا سلسلہ ہے کہ رکنے میں ہی نہیں آتا۔ ہم کھیلوں میں ہارجیت پر بھی آہیں بھرنے اور رونے دھونے کا بہانہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ شاید آفریدی کے کھیل کو یاد کر کے‘ ان لمحات مسرت سے لطف اندوز ہوں‘ جو آنے والے ورلڈ کپ تک ہمارا ساتھ دیں گے۔ایشیا کپ کے موجودہ ٹورنامنٹ میں‘ ہمیں یکے بعد دیگرے تین فتوحات ایسی نصیب ہوئیں‘ جن پر کھیل کا کوئی بھی شیدائی فخر کر سکتا ہے۔ دوسرا میچ ہم نے افغانستان سے جیتا۔تیسرا مقابلہ بھارت سے تھا۔ اس مقابلے کا انتظار کروڑوں لوگ کرتے ہیں۔ پاک بھارت کرکٹ میچ‘ دنیا میں کہیں بھی ہو‘ حاضرین امڈ پڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ گلف کے ملکوں‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی‘ جب کبھی کسی ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہو جائیں‘ تو برصغیر سے ہزاروں شائقین وہاں کے گرائونڈ میں جا پہنچتے ہیں۔ظاہر ہے اس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ میچ بنگلہ دیش میں ہو رہا تھا اور شائقین میں پاکستان اور بھارت کے شہری بھاری
تعداد میں وہاں پہنچ گئے تھے۔ وسیم اکرم نے بتایا کہ سینکڑوں پاکستانی صرف میچ دیکھنے ڈھاکہ آئے اور واپس چلے گئے۔ بھارتی بنگلہ دیش کے پڑوسی ہیں۔ وہ تو ہزاروں کی تعداد میں آئے تھے۔ بالکل یہی کیفیت خلیج کے ملکوں میں ہوتی ہے۔ میچ شارجہ میں ہوتا ہے اور حاضرین پاکستانی اور بھارتی ہوتے ہیں۔ چوتھا میچ کل 4مارچ کو ہوا‘ جو سنسنی خیزی میں پورے ٹورنامنٹ کا سب سے بہترین میچ قرار پائے گا اور اس میں آفریدی نے جو کھیل پیش کیا‘ وہ برسوں یاد کیا جائے گا۔ آج کی کرکٹ میں میرے خیال کے مطابق کوئی کھلاڑی شاہد آفریدی سے بہتر نہیں ہے۔ رچرڈ‘ لارا‘ اظہرالدین‘ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے کئی کھلاڑی اپنا اپنا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ مگر آج کرکٹ کھیلنے والے کسی ملک میں شاہد آفریدی جیسا ''مست ملنگ‘‘ کھلاڑی نظر نہیں آتا۔ عبدالقادر نے ''دنیا ‘‘ نیوز چینل پر بالکل صحیح کہا کہ ''آفریدی موڈ کا بادشاہ ہے۔‘‘انہوں نے وسیم اکرم‘ شعیب اختر اور محمد یوسف کو مشورہ دیا کہ وہ آفریدی کا ذکر احترام سے کیا کریں۔ ان تینوں نے میچ ختم ہونے سے پہلے‘ آفریدی کے بارے میں مایوسی پر مبنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں ابھی تک آفریدی کے دھواں دھار چھکوں کے سحر سے نکل نہیں پا رہا۔ جبکہ میچ کے اندر اور بھی بہت کچھ ہوا۔ فواد عالم کئی سال کے بعد کھیل کے میدان میں اترے اور خوب کھیلے۔ احمد شہزاد کی سینچری نے پاکستان کو اس مقام تک پہنچایا‘ جہاں آ کر آفریدی نے کامیابی ممکن بنائی۔ اگر وہ دس پندرہ رنز بھی کم بناتا‘ تو پاکستان کی جیت مشکل تھی۔ فتح میں محمد حفیظ کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔ لیکن عبدالرحمن نے خوب کمال دکھایا۔ عین اس وقت جب میچ فیصلہ کن مرحلے پر آ چکا تھا‘ اس نے اوپر تلے تین نو بال دے کر اپنے آپ کو میچ سے باہر کر لیا۔ ایسے مضحکہ خیز نو بال‘ شاید ہی کسی نے کئے ہوں اور دوسرا کمال مصباح الحق کا تھا۔ انہوں نے ایسے موقع پر‘ جب ٹیم کو تیز رفتار رنز کی ضرورت تھی‘ عبدالرحمن کو بیٹنگ کے لئے بھیج دیا کہ ''چل عبدالرحمن! جہاں تو نے ستیاناس کیا‘ اب سوا ستیاناس بھی کر ڈال۔‘‘ اس نے واقعتا ایسا ہی کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ٹیم کی قسمت اچھی تھی۔ سچی بات ہے کہ فتح کی سرشاری کے ساتھ ساتھ میرے دل میں بنگلہ دیشی شائقین کے لئے ملال ہے۔ ان بیچاروں کو آزادی کے بعد خوش ہونے کے مواقع شاذونادر ہی ملے ہیں۔ پہلے ہمارے ساتھ رہ کر دکھ اٹھائے اورپھر اپنی برائے نام آزادی میں‘ بھارت کی چیرہ دستیوں کے زخم سہہ رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے بنگلہ دیش کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے آنسوئوں کی بہت نمائش کی۔ میں یہ مناظر دیکھ کر افسردہ ہوتا رہا کہ وہ دن بھر ایک معصوم سی خوشی کے لئے امیدیں لگا کر بیٹھے رہے اور جب امیدیں پوری ہوتی ہوئی نظر آنے لگیں‘ تو شاہد آفریدی نے ان پر بھی بلا پھیر دیا۔ کیا کیا جائے؟ زندگی ہوتی ہی ایسی ہے۔