تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-03-2014

وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں

ہم سب پہ اللہ رحم کرے ۔ یکسوئی سے ہم محروم ہیں ۔ وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں اور سبب معلوم۔ 
حاجی نیامت کا قصّہ بارِ دگر۔ 
ایک انتخابی مہم کے دوران ان سے ملاقات ہوئی اور تکلف کا وقت نہ تھا۔ تجربہ تھا اور نہ ذوق۔ اوکھلی میں سر دیا تھا اور موسلوں سے ڈرتا تھا۔ حاجی صاحب نے کہا : گھبرایئے نہیں، 120کونسلر دسترس میں ہیں ۔ ان کی آواز میں اعتماد بہت تھا مگر میں اندیشہ پالتا رہا۔ جو آدمی اپنا نام ''نعمت‘‘ کی بجائے ''نیامت‘‘ بتاتا ہے ، اس کے خلوص پہ بھروسہ مگر استعداد کس قدر؟ 
پیمان پر وہ پورے اترے ۔پھر انکشاف ایسا ہوا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا۔ ملتا ن روڈ پر تیس کمروں پر پھیلی ایک وسیع و عریض عمارت انہوں نے بنا رکھی تھی ، جس میں سینکڑوں مزدور رہائش پذیر تھے‘ مہمانوں کی مانند۔ سب کمروں ، حتیٰ کہ غسل خانوں کی صفائی وہ خود کرتے ۔ وحدت روڈ پر چہل قدمی کرنے والے کتّوں اور تانگوں میں جتے گھوڑوں کے لیے پانی کا انتظام۔ 
ٹھنڈے شربت پہ بے حد اصرار کیا۔ عرض کیا : سگریٹ بھی ۔ وہ اٹھے تو گزارش کی کہ کسی مزدور کو بھیج دیجیے۔ بولے : میں ان سے کبھی کوئی کام نہیں لیتا۔
1980ء کے لگ بھگ بالکل غیر متوقع طور پر ایک کروڑ روپے ان کے ہاتھ لگے تھے‘ جائز۔ آج کے حساب سے کتنے ہوئے ؟ پچاس کروڑ ؟ حاجی نیامت اپنے بوڑھے والد کے پاس گئے ۔پوچھا کہ کیا کروں ؟ گزر اوقات کے لیے زرعی اراضی کافی تھی۔ پراپرٹی کے کاروبار میں ساکھ ان کی اچھی تھی ۔ بڑے میاں نے کہا : جس نے دیے ہیں ، اسے واپس کردو۔ بیٹا حیران کہ جواز کیا؟ پھر کہا : آدھے ہی لوٹا دو... اللہ نے دیے ہیں۔ 
ایک مسجد مرمّت کرائی ، پھر دوسری ۔ پانچ لاکھ اٹھے ۔ اتنے میں خیال آیا ،مسلمانوں میں مساجد کے خدمت گزار بہت ۔ اللہ کے نظر انداز بندوں کو ڈھونڈنا چاہیے، جو بھلا دیے گئے ، جن کا حق تھا ۔ 
چٹّے ان پڑھ مگر وہ فیصلہ کیا کہ شاید اللہ کی بارگاہ میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ہمسایہ بن گئے ہوں ۔ جو مزدور ، خاص طور پر وحدت اور ملتان روڈ والے، سائے سے محروم ہیں ، دسمبر اور جنوری کی راتوں میں جو ٹھٹھر تے ہیں ، ان کے لیے چھت مہیا ہو ۔ اب تو پلاٹ کے لیے کم از کم دس کروڑ اور سادہ ترین تعمیر کے لیے دو کروڑدرکار ہوں گے ، تب پینتالیس لاکھ بھی صرف نہ ہوئے ۔ 
بتایا کہ فجر کے بعد ان کے مہمان رزقِ طیّب کی تلاش میں نکلتے ہیں اور وہ صفائی میں جت جاتے ہیں ۔ کتوں اور گھوڑوں کے لیے پانی کی ہودیاں بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہیں ۔ ظہر کی نماز وہ گھر یا مسجد میں پڑھتے اور اب رزق ان کی تلاش میں ہوتا۔وہ لوگ چلے آتے جنہیں پلاٹ بیچنا یا خریدنا ہوتے ۔اپنا حق حاجی صاحب وصول کرتے ۔
ہم ایسے ہوتے ہیں ، جن کے بارے میں منیرؔ نے کہا تھا ۔ 
نگر میں شام ہو گئی، کاہشِ معاش میں 
زمیں پہ پھر رہے ہیں لوگ رزق کی تلاش میں 
ایک اور طرح کے ہوتے ہیں ، جن کی تصویر افتخار عارف نے بنائی تھی ۔ 
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر 
سگِ زمانہ ہیں، ہم کیا ہماری ہجرت کیا
حاجی صاحب اسی شاعر کی ایک اور کیفیت کے مصداق تھے ۔ 
ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر 
ایک ہی شہر میں ایک ہی درپہ رکھا
''آں خنک شہرے کہ اینجا دلبراست‘‘
عطاء الحق قاسمی کا شعر کیا ہے ؟
تو نے کچھ بھی تو دیکھنے نہ دیا 
اے مری چشمِ تر مدینے میں 
حاجی صاحب کی آنکھ مدینہ منوّرہ سے دور بھی تر رہی اور کچھ وہ دیکھ بھی سکے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر گایا بھی کرتے ہیں ۔سفر کے ہنگام، ندّیوں ، نہروں اور کھیتوں کے درمیان جب نیلا آسمان ، ٹھنڈی ہوا اور سنہری یاد چھو لیتی ہے۔ 
ان کا حریمِ ناز کہاں اور ہم کہاں 
نقش و نگار ِدیوار و در دیکھتے رہے 
ہر لحظہ شانِ حسن بدلتی رہی جگرؔ
ہر آن ہم جہانِ دگر دیکھتے رہے 
حاجی نیامت نے روزن میں سے زندگی کو جھانکا اور پا لیا۔ ایسے بھی ہم نے دیکھے ہیں کہ آسمان کو بلندہوئے ، حیات کو پا لینے کا دعویٰ کیا۔ لگاکہ قلب و نظر میں نور بوتے ہیں مگر وہ مفلس ہوئے ۔ کون جانے ، شاید تھے ہی مفلس۔ خواجہ مہر علی شاہ سمیت صوفیا کے ارشادات کا مفہوم یہ ہے : وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں اور خیالِ خیر برق کی طرح چمکتا ہے ۔ تھام سکو تو تجلّیِٔ برقیِٔ عارضی اور تھامے ہی رکھو تو برقیِٔ تجلّیِٔ دائمی ہو سکتی ہے ۔یہ ناچیز اپنی روداد کبھی لکھ سکا تو بس اتنی سی کہانی ہے ۔ دائمی کی تمنّا میں اکثر عارضی سے بھی محروم ہوئے ۔ روپیٹ کے پھر اسے تھاما ، پھر سے کھویا۔ 
بہت سلیقے سے اپنی نبھی محبت میں 
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا 
حاجی صاحب کو اللہ جیتا رکھے ، اغلباً انہوں نے تھامے رکھا۔ 
کہانی تمام ہوئی تو فرمائش کی کہ ان کا گھر دیکھوں ۔ تکان نے آلیا تھا ۔ گزارش کی : باہر ہی سے ۔ اصرار نہ کیا۔ مکان گلی میں تھا لیکن ایسا شاندار، اس قدر پر شکوہ اور اتنا وسیع۔ اللہ کی نوکری کرتا ہوں‘ مفلس نہیں ہوں۔ انہی دنوں پھر وہ دعا سنی اور شعار کرنے کی کوشش کی ''الھم اغفرلی ذنبی و وسّع لی فی داری و بارک لی فی رزقی‘‘۔ اے اللہ، میرے گناہ معاف کر دے ، میرے گھر کو وسعت عطا کر اور میرے رزق میں برکت ۔ عجیب بات ہے ، گھر کی وسعت رزق کی فراوانی سے پہلے ۔ 
ایک پاکباز خاتون کو دیکھا۔ ایک عام سے نوجوان سے اس کی سگائی ہوئی ۔ اگلی ہی شام بولی : گھر اگر بڑا ہو ؟ بولا: امّاں نے چار کنال کا ایک پلاٹ خرید رکھا ہے ۔ 
یہ جو میںیکسوئی کا رونا روتا ہوں تو بے سبب نہیں رویا کرتا۔ سیّدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو یہ دعا عزیز تھی ''اے اللہ میری آنکھ اپنے آپ پر کھول دے‘‘ سرکار ؐ کا ارشاد یہ ہے: اللہ جس کے لیے ہدایت کا فیصلہ فرما دے، اپنی آنکھ اس پر کھول دیتا ہے ۔ 
اپنے مزاج ، اپنی عادات ، اپنے خیالات ، اپنے کردار اور اپنی نیّتوں کے تضادات کا ادراک ‘ اپنی جبلّتوں کے تعامل کا احساس... اسی کا نام نفس ہے ۔ اسی کے بارے میں پروردگار نے فرمایا: جب اسے میں نے پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ یہ بھی تو مگر کتاب میں لکھا ہے کہ اللہ نے انسان کو تخلیق کیا تو رحمت کو اپنے آپ پر لازم لکھ لیا‘ لکھ لیا۔ ''کتب علی نفسہ الرحمۃ‘‘ ایک میچ، ایک معرکہ یا پوری زندگی ۔کب اور کتنی، انحصار یکسوئی پہ ہوتاہے ۔ شاہد آفریدی یکسو تھے ۔ ایک کے بعد دوسری کرامت ، حتیٰ کہ مبصرین کا ہدف ان کا ہیرو ہو گیا۔ میرے عزیز دوست محسن حسن خاں داد کے لیے الفاظ تلاش نہ کر سکے ۔ وزیراعظم نواز شریف یکسوئی سے محروم ہیں ۔ درندوں اور قاتلوں کے بارے میں بھی مخمصے کا شکار ۔ وہی کیا، ان سے بڑھ کر عمران خان ۔ مولانا سمیع الحق ؟ فضل الرحمن اور سید منور حسن ؟ خدا کی قسم اتنا بڑا شاعر سمجھ ہی نہ پایا کہ سیّد صاحب کو میں تہجد گزار کیوں لکھتا ہوں ۔ 
ہم سب پہ اللہ رحم کرے ۔ یکسوئی سے ہم محروم ہیں ۔ وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں اور سبب معلوم۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved