تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     06-03-2014

پُرامن پاکستان کا خواب

اسلام آباد کچہری سانحے نے دہشت گردوں کے منظّم قتل و غارت کے سامنے صرف موجودہ ‘10ماہ کی شیر خوار حکومت (جون2014ء کو ایک برس مکمل ہو گا) کی ناقص کارکردگی کا پول نہیں کھولا بلکہ‘اس مجرمانہ غفلت میں پچھلی حکومتوں کی شراکت کو بھی ظاہر کردیا ہے جنہوں نے نوشتہ دیوار پڑھنے کا تکلف ہی گوارا نہ کیایا اگر پڑھا تو اسے سمجھنے سے قاصر رہیں۔ پے درپے غلط فیصلوں ‘ میں ملک کی سلامتی Sovereignty اور سالمیت پر کمپرو مائز کیا گیا۔ اس نادانی اور بے بصیرتی کے مرتکب وہ تمام اہل اختیار و اہل اقتدار ہیں‘جو گزشتہ بیس‘ پچیس سالوں کے دوران فیصلہ سازی کے عمل میں شریک رہے۔ اس دھرتی کی اصل قوت‘ اس کے عوام تھے ۔ہیومن ریسورس ایٹمی توانائی کی مانند وہ خام مال ہے جس سے تباہی بھی لائی جا سکتی ہے اور اسے توانائی اور قوت میں تبدیل کر کے‘ ملک کی قسمت کو بھی سنوارا جا سکتا ہے۔بدقسمتی سے ہم نے اس بے بہا اور بے پناہ توانائی کو تباہی کے لیے استعمال کیا۔افغانستان میں سوویت یونین کی محاذ آرائی کے دوران پاکستان کے مدرسوں سے سینکڑوں نوجوان افغان جہاد کے نام پر بہکائے گئے۔مدرسوں سے فارغ التحصیل نوجوان‘ یا تو کسی مسجد کے پیش امام بن سکتے ہیں یا پھر کسی مدرسے میں ہی پڑھانے کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں‘ لیکن ان شعبوں میں کھپنے کی گنجائش بہت کم ہونے کی وجہ سے اسی فیصد نوجوان بے روزگار رہ جاتے ہیں۔اُن کے پاس اُس معیار کی تعلیم نہیں ہوتی کہ جس سے وہ منبر اور مدرسے سے باہر کوئی باعزت روزگار حاصل کر سکیں اور نہ ہی وہ کوئی ہنر سیکھے ہوتے ہیں اور نہ ہی پیشہ ورانہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں‘ چنانچہ انہیں دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ افغان جہاد کے لیے ایسے ہی نوجوان کارآمد ثابت ہوئے۔ انہیں معمولی مشاہرے پر بھرتی کرلیا گیا اور پھر انہیں افغان جہاد کے لیے تربیت دی گئی۔نوجوانی توانائی اور جوش و جذبہ کا مجموعہ ہے جسے اگر مثبت سمت میں استعمال نہ کیا جائے تو ‘پھر لامحالہ اس کا بہائو منفی سمت میں ہونے لگتا ہے۔
اس کمزوری کا فائدہ امریکہ نے اٹھایا۔امریکی سی آئی اے نے ‘بلین ڈالرز خرچ کر کے‘اسلامی شدت پسند گروپوں کی تشکیل کی۔2001ء میں نائن الیون نے دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی ۔ مسلمان ممالک خصوصاً افغانستان اور پاکستان ‘ اس کے بد اثرات سے بری طرح متاثر ہوئے ۔آج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر‘ جاری جنگ و جدل اور وحشت اور بربریت کے مناظر‘ جو روز دیکھنے کو ملتے ہیں یہ سب ‘کچھ نائن الیون کی دین ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے ‘ اس آگ کو اپنے گھر کا راستہ دکھا کر و ہ غلطی کی ‘ جس کا ازالہ ممکن نہیں۔
پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر ‘افغان‘سوویت وار کے بعد‘Passiveہونے والے‘ریڈیکل اسلامی گروپوں کو پھر سے متحرک کر دیا۔ اور اینٹی امریکہ جذبات کو بھڑکا یا گیا۔ ایسے حالات میں جب‘ ہمارے ملک میں ‘ہمسایہ ملک کی جنگ میں حصہ لینے کے لیے متحرک‘توانا‘ مگر بہکے ہوئے نوجوانوں کی فوج تیار ہو رہی تھی‘ اُس وقت اسے قومی مسئلہ سمجھ کر اس کے حل کی کوشش کرنا چاہیے تھی۔بدقسمتی سے بیشتر حکمران بصیرت سے عاری تھے۔یہاں کوئی تھنک ٹینک ایسا نہیں تھا جو حکومتوں کو اس بنیادی ایشو کی سنگینی کا احساس دلاتا۔ جو بتاتا کہ تشدد کے جو عناصر سماج میں شامل ہو چکے ہیں ان کو کیسے‘ ناکارہ کیا جائے۔ کیسے اِس دھرتی کو‘ دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے سے روکا جائے۔ یہ اگرچہ مشکل کام ضرور تھا مگر ناممکن نہیں تھا۔ہمارے سامنے ملائشیا کی شاندار مثال موجود ہے۔ ایک مسلمان ملک کی حیثیت سے انہیں بھی ایسے ہی اسلامی شدت پسند عناصر کا سامنا تھا جن کی آبیاری بیرونی قوتیں کر رہی تھیں۔ملائشیا کے عوام میں بھی اینٹی امریکہ جذبات ویسے ہی موجود ہیں‘ جیسے پاکستانیوں کے اندر!۔مگر وہاں ایک لیڈر شپ وزیر اعظم مہاتیر محمد کی صورت میں موجود تھی۔ جس کے پاس ویژن تھا‘ اور جسے اپنے ملک کے ہیومن ریسورس کی قدر تھی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے وارآن ٹیرر کا ایک بت تراشا اورسالمیت کو نچھاورکیا۔ اس کے برعکس ملائشیا کی حکومت ‘ اور اس کے پالیسی سازوں نے ‘اس حساس موڑ پر‘ اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لیا اور اسے اپنی قومی سلامتی کے مطابق تشکیل دے کر ''پوسٹ نائن الیون فارن پالیسی ‘‘ ہی کا نام دیا۔مہاتیر محمد نے فیصلہ کیا کہ ملائشیا ‘سائوتھ ایشین سکیورٹی کے نام پر امریکی فوج کا حصہ نہیں بنے گا۔ اور نہ ہی وہ امریکہ کو اپنے وطن کی سرزمین استعمال کرنے کی اور نہ ہی اسلامی شدت پسند گروپ منظم ہونے کی اجازت دے گا۔ یہ فیصلہ اس ملک نے کیا جہاں پاکستان کے برعکس صرف ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے جبکہ ‘30فیصد ملائشین 'ہندو اور بدھ مت کے ہیں۔ملائشیا نے مہاتیر محمد کی قیادت میں اسلامی شدت پسندوں اور سماج کے دوسرے ریڈیکل عناصر کو درست سمت دینے کے لیے آج سے 18سال پہلے ‘1996ء میں ‘ ملک میں ووکیشنل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کا انقلاب لانے کا خواب دیکھا اور پھر اِسے تعبیر کے روپ میں ڈھالا۔تاکہ ملک کی نوجوان آبادی بے راہ روی سے بچ سکے۔آج ملائشیا کی آبادی کا پینتالیس فیصد ہنر مند نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
ملائشیا کی تاریخ شدت پسندوں کی کارروائیوں سے بھری پڑی ہے‘ علیحدگی پرست تحریکیں بھی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے چلتی رہی ہیں۔ ایسی تحریکوں میں بے سمت نوجوانوں ہی کو شامل کیا جاتا رہا۔ اگر مہاتیر محمد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ملک میں ہنر مندی‘روزگار اور تعلیم کا انقلاب نہ لاتے تو ملائشیا ‘آج دہشت گردوں کا مرکز ہوتا۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے ملک میں شدت پسندی کے جذبات کو ہوا دی گئی۔پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کی زبانی مذمت کرنے کی بجائے اس کی وجوہ کو ختم کیا جائے۔اُس فضا کو بہتر کیا جائے جہاں نوجوان شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں ملک کے تمام تر مدارس میں‘ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کو لازمی قرار دیا جائے۔ہنر پر مشتمل تعلیم کو ملائشیا کی طرز پر سکول سے لے کر کالج اور پھر یونیورسٹی تک شامل کیا جائے۔ لوگ فارغ التحصیل ہوں تو اُن کے ہاتھ میں ہنر ہو ‘ تا کہ جو کاروبار شروع کرنا چاہے تو کر سکے۔
فاٹا کے علاقے شدت پسندوں کا مرکز ہیں وہاں ایسی اصلاحات لانے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔وہاں کے نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگائی جائیں۔دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے لیے جہاں سکیورٹی نظام کو منظم اور فعال بنانا اہم ہے وہیں ہنر پر مشتمل تعلیم اور روزگار کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ صرف اسی طرح ہی معاشرے سے شدت پسندی کو کچلا جا سکتا ہے۔ایک پُرامن پاکستان کا خواب تبھی تعبیر کی صورت اختیار کرے گا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved