تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-03-2014

خدا خیر کرے !

کرئہ ارض سے آنے والی اطلاعات سخت تشویشناک ہیں ۔ 
تو یہ ہے بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ ۔ 507ارب ڈالر خرچ کر نے کے بعد امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار چکا ۔ عراقی شہروں پہ القاعدہ قابض ہو رہی ہے ۔ شام میں بھی۔ روسی ردّعمل سے بڑھ کے ، اسی مخمصے نے امریکہ کو شام پر حملے سے باز رکھا۔ سابق عالمی طاقت تو ایک مرحلے پر دستبردار ہو چکی تھی ، جب روسی اور چینی نمائندے شام کے معاملے پر برطانیہ کی قرار داد ویٹو کرنے کی بجائے سلامتی کونسل کے اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے ۔تمام تر گرج برس سے قطع نظر، امریکہ کرتا کیا؟ ''جرنیلِ اعظم ‘‘صدام حسین اور مجنون معمّر قذافی کی طرح ، شامی حکومت توگرا دی جاتی لیکن بشار الاسد کی متبادل تھی القاعدہ ۔مجبوراًپسپا ہونا پڑا اور شام کو حالات کے سپرد کر دیا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ افراد قتل ہو چکے ۔ فتنہ ابھی جاری ہے ۔ 
یوکرین ..... شام میں بھرپور فوجی موجودگی سے روس اسرائیل کے ہمسائے میں پہرہ دے رہا ہے ۔ یورپ جوابی وار کیوں نہ کرے ؟ روس بھی خم ٹھونک کر کھڑا ہے ۔کبھی مشرقی یورپ کی ریاستیں سوویت یونین کے خوف سے کپکپاتی تھیں ۔ یوکرین تو اولاد ہی سوویت ریاست کی ہے ۔ آزادی کے بعد اس نے سارے ایٹمی ہتھیاربڑی شرافت سے روس کو تھما دیے تھے ۔ پھر اس مقام پر امریکی اور روسی حکّام نے یکجا ہو کر پھول اگائے تھے، جہاں کبھی 80 میزائل امریکہ کو نشانہ بنائے کھڑے تھے ۔ دنیا کے 95فیصد ایٹمی ہتھیار رکھنے والے امریکہ اور روس میں بھی کچھ پھول اگانے کی اشد ضرورت ہے لیکن اگلے دو چا ر ہزار برس تک یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ 
ایک سرزمین ہے کوریا، جہاں کبھی دونوں عالمی قوتیں ٹکرائی تھیں ۔اپنی لڑائی میں انہوں نے پرائی سلطنت یوں تقسیم کی جیسے دو ملّائوں میں مرغی حرام ہوا کرتی ہے ۔ شمال نے ایٹم بم بنا لیا۔ وہ خطے میں امریکی تنصیبات اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔ مارچ 2013ء میں جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے دوران امریکی جنگی طیارے شمالی کوریا کی فضائوں میں در آتے ہیں ۔ سخت کشیدگی اور ایٹمی حملے کی دھمکی کے بعد امریکہ پسپا ہو جاتاہے ۔ 
عرب اور ایران ۔ ہزاروں برس کی کشمکش میں سنّی شیعہ تفریق کا بارود بھر دیا گیا۔ مغرب سے دس برس کی کشیدگی کے بعد ایران ہتھیار ڈال دیتا ہے کہ معیشت ناقابلِ برداشت تباہی کو چھو نے لگتی ہے ۔ ایٹمی معاملے پر اسے باعزت پسپائی کا راستہ ملتاہے ۔یورینیم کی پانچ دس فیصد تک افزودگی اور وہ بھی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کی حامل عالمی نگرانی میں ۔ ایٹم بم کیااس طرح بنایا جاتا ہے ؟اس کے لیے تو90فیصد افزودہ یورینیم درکارہے (افزودگی سے مراد یورینیم کی اس خاص قسم کو علیحدہ کرنا ہے ، جو توانائی پیدا کرنے یا ہتھیار وں میں بطور ایندھن استعمال کے قابل ہو ۔ توانائی کے لیے معمولی اور ہتھیاروں کے لیے انتہائی افزودگی درکار ہوتی ہے )۔ 
مغرب ایران کا ایٹمی پروگرام ہتھیاکر بغلیں بجا رہا ہے ۔ دوسری طرف گزشتہ دہائیوں میں اس نے عرب اذہان میں اس قدر خوف گھسیڑ دیا ہے کہ وہ اب خوامخواہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بناتا دیکھ رہے ہیں ۔یہی وہ پسِ منظر ہے کہ جس میں عرب شہزادے دہائیاں دے رہے ہیں ۔ ایک لحاظ سے یہ سراسیمگی بجا ہے ۔ عراق اور شام سمیت ، خطے میں ایرانی مفادات آگے بڑھ رہے ہیں ۔ روایتی میدانِ جنگ میں ایرانی ممتاز ۔وہ عربوں کی نو دولتیوں والی عادات سے پاک ہیں ۔ چیلنج شدید ہے مگر مشرقِ وسطیٰ کے بادشاہ اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کی بجائے ایک ایسی قوم ڈھونڈ رہے ہیں ، جو کرائے پہ ان کی جنگیں لڑا کرے ۔ ایسا کبھی ہوا نہ ہو گا۔ 
افغانستان ....مغربی افواج کی واپسی کے بعد طالبان تاتاریوں کی طرح یلغار کریں گے اور فتح کے بعد بچی کھچی رعایا کو بندوق کی نوک پر متشرّع کرڈالیں گے ( گو کہ پہلے بھی وہ ایسی لادین نہیں )۔ ایک بار پھر القاعدہ یہاں توانا ہوگی۔ 
اب پاکستان کی سنیے ۔جب تک پولیس اور انٹیلی جنس کو سیاسی اثرات سے پاک کر کے مناسب تربیت اور ہتھیار فراہم نہ کیے جائیں گے اورجب تک ان کے سربراہان میرٹ پر تعینات نہ ہوں گے ، جنگ طویل سے طویل تر ہوتی جائے گی ۔ ریاست کی شکست کا کوئی خدشہ نہیں کہ شمالی وزیرستان سمیت، جہاں کہیں دہشت گرد اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں گے ، فوج ان کا صفایا کر ڈالے گی ۔ سول اداروں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو اگر بچانا ہے تو وزیرِ داخلہ مہربانی فرما کر ایسے شخص کو عوام کی حفاظت پر مامور کریں جو میرٹ پر پورا اترتا ہو ۔
یہ صرف چند نمایاں داستانیں ہیں ۔ اسرائیل اور فلسطین سمیت، جتنی کہانیاں آپ کہیں ، میں سنا سکتا ہوں ۔یہ نہیں کہ دنیاپہلی بار عالمگیر فساد کا شکار ہے ۔ بس اتنا ہے کہ اس بار انسانیت کے ہاتھ میں بیس ہزار ایٹمی ہتھیار موجود ہیں ۔ 
خدا کرّئہ ارض کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved