تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-03-2014

کھیل بچوں کا ہوا

جب وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا‘ تو قوم نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے سوچا کہ تباہ کاری اور خونریزی کا خطرناک کھیل‘ جو پاکستان میں برسوں سے جاری ہے‘ شاید اس کے خاتمے کی کوئی صورت نکل آئے۔ مجھے کیا پتہ تھا ؟کہ یہ کمیٹی ومیٹی کچھ نہیں۔ ٹریجڈی میں‘ کامیڈی پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔مذاکرات کے نام پر تمام ٹی وی چینلوں سے بھانت بھانت کے شو نشر ہوئے۔ کمیٹی کے ممبران کی شاندار پرفارمنس دیکھ کر‘ مجھے تو فکر پڑ گئی تھی کہ ''دنیا نیوز‘‘ کے شو ''مذاق رات‘‘ کا رش کم نہ پڑ جائے۔ تقدس مآب مولانا سمیع الحق کا باوقار انداز سخن‘ اتنا نشاط انگیز ہے کہ مجھے امان اللہ کے مستقبل کی فکر پڑ گئی۔ وہ اپنے سیدھے سادے نیٹ مزاح سے کھلبلی پیدا کرتا ہے۔ جبکہ مولانا کی گمبھیرسخن آفرینی میں گہرائی اور طرب ناکی کے انداز ہی نرالے ہیں۔ چند ہی روز میں میرے اندیشے غلط ثابت ہونے لگے۔ امان اللہ نے اپنے ہم نوائوںمیں ''اتفاق تمسخر‘‘ (بطرز اتفاق رائے) برقرار رکھتے ہوئے‘ مقبولیت کا سفر کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھا۔ جبکہ مولانا سمیع الحق کی ٹیم پہلے ہی دن سے ''کوئی ادِھر گرا‘ کوئی اُدھر گرا‘‘ کی تمثیل پیش کرنے لگی۔ سب سے پہلے عمران خان نے کمیٹی کو مولانا کی سربراہی سے محروم کر دیا۔ عمران خان جیسے قدآور سیاستدان کے ہوتے ہوئے‘ کمیٹی کومولانا کی سربراہی سے محروم رکھنا مناسب نہ ہوتا۔دونوں ہی خوش قسمت رہے۔ ایک کو اپنا حق مل گیا۔ دوسرا کانٹا بننے سے بچ گیا۔ طالبان نے زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کو بھی اپنی کمیٹی میں شامل کر دیا تھا۔ لیکن وہ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے کنی کھا کے نکل گئے۔ ورنہ ایک جماعت اور دو امام کا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ یہ دونوں عالم دین تو اپنے اکابرین کی یادیں زندہ رکھنے والی جماعت میں اکٹھے نہ رہ سکے۔ کمیٹی میں کیسے اکٹھے رہتے؟ مسلمانوں کی خوش نصیبی کہ تماشا نہ ہوا۔ 
برقع سازی کے فن کو ایک نئی جہت دینے والے‘ مولانا عبدالعزیز البتہ کمیٹی میں اپنا نام انائونس ہوتے ہی چھا گئے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ایک ہی وقت میں تین ٹیلیویژن چینلز پر‘مولانا بیک وقت جلوہ افروز نظر آتے۔ انہوں نے پلٹ کر طالبان کی طرف نہیں دیکھا۔ اپنا منشور‘ اپنا ہی پروگرام اور اپنا ہی ایجنڈا پیش کرنے لگے۔ ان کا طرزگفتاراتنا دل نشیں ہے کہ فن خطابت کے قدردان کسی دوسرے کے‘ مظاہرہ فن کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ گئے۔ یہاں تک کہ طالبان سوچ میں پڑ گئے کہ مولانا کے پیش کردہ ایجنڈے پر‘ اپنا حق ملکیت کیسے قبول کریں؟ مولانا اتنی کثرت اور انہماک سے ٹیلیویژنوں پر اپنے قیمتی ارشادات کے فوارے چھوڑ رہے تھے کہ بچے اپنے والدین سے ٹیلیویژن سیٹ کی مرمت کا مطالبہ کرنے لگے۔ بچے سمجھ رہے تھے کہ ان کے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے کہ ایک ہی چہرہ ساکت ہو کر رہ گیا۔ والدین انہیں سمجھاتے کہ ٹیلیویژن بالکل ٹھیک ہے۔ بچے جواب میں کہتے ''ٹھیک کیسے ہے؟ ہم نے کئی بار چینل بدل بدل کر دیکھا۔ ہر چینل پر ایک ہی روئے مبارک آ رہا ہے۔‘‘ والدین کے لئے وہ بہت سرکھپائی کے دن تھے۔ طالبان نے مہربانی کی۔ والدین اور بچوں کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا بحال ہو گئی۔ بچوں نے والدین پر شک کرنا چھوڑ دیا۔
طالبان اور سرکارکی دونوں کمیٹیوں نے‘ جب وزیراعظم کو شرف ملاقات عطا فرمایا‘ تو وہاں بھی ایک انہونی ہو گئی۔ ہمارے دوست عرفان صدیقی نے مولانا سمیع الحق کے رتبے کی پروا نہ کی اوربرتری کا حق اپنی کمیٹی کے سپرد کرکے‘ مقابلے کی نشست پر براجمان ہو گئے۔ اصولی طور پر یہ حق طالبان کی کمیٹی کا تھا۔ کمیٹی کا حق نہ بھی ہوتا‘ تو مولانا کی سنیارٹی ‘ برگزیدگی اور تبحرعلمی کا تقاضا تھا کہ وزیراعظم کے مقابل ان کی تشریف فرمائی کا اہتمام کیا جاتا۔ درویش منش کالم نویس ‘ اس باریکی اور نزاکت کا خیال نہ کر سکے۔ ٹی وی چینلز نے عرفان صدیقی بمقابلہ وزیراعظم کا منظر باربار دکھایا اور پھر دکھاتے ہی چلے گئے۔ اس کا اندازہ واقفان حال ہی لگا سکتے ہیں کہ یہ مناظر دیکھ کر مولانا کے موڈ پر کیسے کیسے رنگ چڑھے اور اترے ہوں گے؟ اس کا لطف حافظ طاہر اشرفی اور میجر عامر ہی اٹھا سکتے ہیں۔ بہرحال کل غلطی درست کر دی گئی اور ہمیں مولانا کو وزیراعظم کی ہمسری کرتے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وزیراعظم کے ساتھ کمیٹی کی پہلی ملاقات کے مناظر دیکھ کر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے مداحوں کا موڈ کافی خراب ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ چوہدری صاحب وزیرداخلہ ہیں۔ مذاکرات کے پروڈیوسر‘ ڈائریکٹر اور پیش کار ‘ چوہدری صاحب خود ہیں۔ وزیراعظم کا منصب چونکہ سب سے اونچا ہے۔ اس لئے کمیٹی کا اعلان انہوں نے فرما دیا۔ ورنہ اصولی طور پر یہ اعلان کرنا بھی چوہدری صاحب کی ذمہ داری تھی۔ کمیٹی سے وزیراعظم کی افتتاحی ملاقات کے موقع پر‘ چوہدری صاحب کی دلجوئی ضروری ہو گئی تھی۔ لوگ ٹیلیویژن پر یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ وزیراعظم کے نزدیک ‘ ان کے نزدیکی صحافی عرفان صدیقی براجمان ہیں اور چوہدری صاحب سینما کی کھڑکی سے ٹکٹ لینے والوں کی طرح‘مہمانوں کے رش میں سمٹے سمٹائے نظر آئے۔ اس پر احتجاج بھی ہوا۔ اگلی (آخری؟)ملاقات میں مولانا سمیع الحق‘ ٹکّر کی سیٹ پر تشریف فرما ہو گئے۔ ایک اعتبار سے اس پوزیشن پرچوہدری صاحب کا حق تھا۔ پروٹوکول کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری صاحب ‘ وزیراعظم کی ٹیم میں ہیں اور میزبان ٹیم کے رکن کی حیثیت سے ‘ مہمان ٹیم کی عزت افزائی کر نا ان کا فرض تھا۔ جبکہ مولانا صاحب ‘ مہمان کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت میں وزیراعظم ہائوس آئے تھے۔ان کا حق انہیں مل گیا۔ 
یہ سب کچھ تو ہو گیا۔ لیکن سرکاری کمیٹی کا کیا بنا؟ یہ کمیٹی اسی طرح منہدم ہو گئی‘ جیسے ڈیرہ اسماعیل خان میں‘ طالبان کی یلغار کے بعد‘ جیل کی دیواریں منہدم ہو گئی تھیں۔ اس وقت جھگڑا یہ چل رہا ہے کہ سرکاری کمیٹی میں کس کس کو‘ کہاں کہاں رکھا جائے؟ ایک جتھا کہہ رہا ہے کہ کمیٹی میں فوج کو نمائندگی دی جائے۔ اپوزیشن کے لیڈر خورشید شاہ کا غیرمتزلزل مطالبہ ہے کہ فوج کو حکومتی کمیٹی میں ہرگز کرسی نہ دی جائے۔ اپوزیشن کو ڈر ہے کہ فوج کو کمیٹی میں کرسی دی گئی‘ تو پھر وہ اپنی مرضی کی کرسی پر بیٹھ جائے گی۔ یہ ڈر ‘اب ہماری عادت سی بن گئی ہے۔ جیسے سکول میں ماسٹر جی کا رویہ یا خود ماسٹر جی کے بدل جانے کے بعد بھی‘ مار کھانے والا بچہ اپنے دونوں ہاتھ اس خوف سے بغلوں میں دبا کے بیٹھتا ہے کہ چھڑی پھر نہ لگ جائے۔ 
طالبان کی کمیٹی میں مولانا سمیع الحق کی کرسی توپکی ہے۔ عرفان صدیقی کی کرسی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ صحافی میں زور ہی کتنا ہوتا ہے؟ وزارت اعلیٰ ملتی ہے‘ تو اس آئینی پابندی کے ساتھ کہ وہ 90دن سے زیادہ کرسی پر نہیں بیٹھ سکتا۔ کرسی مانگنے سے باز نہ آئے‘ تو کھیل کود کے کسی دفتر میں بیٹھنے کا اعزاز دے دیا جاتا ہے۔ عرفان صدیقی کی کرسی بہرحال مقررہ ایام کے لئے نہیں۔ اس لحاظ سے ان کی کرسی مضبوط ہے۔ خدا کرے اتنی مضبوط نہ ہو‘ جتنی بھٹو صاحب کی تھی۔ میاں صاحب کی یہ خوبی ضرور ہے کہ اپنے کسی ساتھی کو کرسی سے اٹھاتے ہیں تو اسے کھڑا نہیں رکھتے۔ سر پہ کھڑے آدمی کی موجودگی کو محسوس کر کے بار بار جھلاہٹ ہوتی ہے۔ راحت اسی میں ہے کہ اسے جھٹ سے دوسری کرسی پیش کر دی جائے۔ ہاکی فیڈریشن کیسی رہے گی؟ میرے ایک پوتے کا شوق پورا ہو جائے گا۔ اسے ہاکی کھیلنے کا بہت شوق ہے اور عرفان صدیقی میرے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ بخدا! میں اپنے پوتے کی خاطر عرفان صاحب کو ہاکی فیڈریشن کے دفتر میں نہیں بٹھانا چاہتا۔ بلکہ میری دعا ہے کہ وہ معاون کی کرسی چھوڑ کے‘ آنے والی باری میں سینیٹربن جائیں۔سید مشاہد حسین کی نقل ماریں۔ ق لیگ میں جانے سے گریز کریں۔ رہ گیا کمیٹی کمیٹی کا کھیل؟ تو عوام کو امن‘ اللہ ہی دے گا۔ مولا ہی دے گا۔ہم تو کمیٹی کمیٹی کھیلیں گے۔طالبان کے پاس بم ہیں۔ جب چاہیں اور جہاں چاہیں چلا دیتے ہیں۔ ہمارے پاس ایٹم بم ہیں۔ چلا تو سکتے نہیں۔ بچا بچا کر رکھنے میں لگے رہتے ہیں۔طالبان عجیب مزاج کے لوگ ہیں‘ ہمارے ایٹم بم سے نہیںڈرتے۔ کاش! انہیں کوئی سمجھائے کہ ایٹم بم ڈرنے کی چیز ہے۔ دہشت گردی سے لڑنے کے لئے ہمیں برسوں مشق کرنا پڑے گی۔ ہم نے ابھی تک جس طریقے سے‘ حرب و ضرب کے مقابلے میں اپنی مہارت دکھائی ہے‘ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے۔
کھیل بچوں کا ہوا ‘ معرکہ فن نہ ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved