تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     08-03-2014

دہشت گردی، شدت پسندی - علاج (1)

انسان کی اہم ترین صفات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تنہائی پسند نہیں بلکہ ہمیشہ گروہ کی صورت میں زندگی گزارتا آیا ہے۔ اگر اسے اکیلے رہنا پسند ہوتا تو قیدِ تنہائی کبھی بدترین سزا تصور نہ ہوتی۔ یہ سزا انسانی معاشروں میں صدیوں سے رائج ہے اور انتہائی تکلیف دہ تصور کی جاتی ہے۔ انسان نے درختوں کی کھوئوں، پہاڑوں کے غاروں اور دوسرے محفوظ مقامات سے نکل کر جب چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد کیں، شکار کے سا تھ ساتھ کھیتی باڑی کو اپنایا تو اس نے ان بستیوں میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ ان بستیوں میں لوگ سب کام باہم مل کر انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ وہ کاروبار کرتے، مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے طبیب بھی موجود ہوتے، پڑھنے لکھنے کے لیے معلم، دوسرے کاموں کے لیے لوہار، ترکھان، موچی، جولاہا وغیرہ۔۔۔ ہر ضرورت کے لیے انہوں نے از خود کوئی نہ کوئی پیشہ ایجادکر لیا تھا۔ وہ اپنے یتیموں، معذوروں، بیوائوں اور مسکینوں کی بھی خود دیکھ بھال کرتے۔ ان سب کاموں کے لیے انہیں کسی مخصوص ادارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی‘ لیکن دو معاملات ایسے تھے جن کے لیے انہیں ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس ہوئی جو اس ذمہ داری کو ادا کر سکے۔ یہ تھے۔۔۔۔۔انصاف اور امن و امان۔ پنچایت، جرگہ، شہری حکومت اور بالآخر ریاستی حکومت کا بنیادی مقصد انہی دو معاملات میں اپنا اختیار استعمال کرنا تھا۔ لوگوں نے پنچایت، جرگے، شہری حکومت اور ریاستی حکومت کو یہ اختیار اپنی مرضی اور مکمل اعتماد کے ساتھ دیا اور ان اداروں کی بالادستی کو برضاورغبت قبول کیا۔ اس بالادستی اور عوام کی طرف سے اس کی مکمل تابعداری کو موجودہ دور میں ریاست یا حکومت کی رِٹ یا عملداری کہا جاتا ہے۔ اس رٹ کا تعلق نہ حکومت کی طاقت اور قوت سے ہے اور نہ اس کے بے محابا استعمال سے بلکہ اس کا بنیادی تعلق اس بات سے ہے کہ ریاست اپنی یہ دونوں ذمہ داریوں یعنی انصاف اور امنِ عامہ کے قیام کو بحسن و خوبی انجام دے۔
دنیا میں کسی بھی ریاست کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ پوری قوم کو قوت کے ذریعے مغلوب رکھے۔ عوام کی اکثریت حکومت کے سامنے از خود سر تسلیم خم کر لیتی ہے کہ اسے انصاف اور جان و مال کا تحفظ مل رہا ہوتا ہے۔ البتہ ہر معاشرے میں ایک اقلیت ایسی ہوتی ہے جو انصاف اور جان و مال کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے جسے ریاست آسانی سے دبا لیتی ہے کیونکہ باقی رعایا ریاست کے انصاف اور امنِ عامہ کے قیام سے مطمئن ہوتی ہے۔ اکثریت کو صرف اور صرف حکومت اور ریاست سے ہمدردی ہوتی ہے‘ لیکن اگر حکومت یا ریاست ان دو ذمہ داریوں میں ناکام ہو جائے تو ہر وہ گروہ جو ریاست کے خلاف آواز بلند کرے، اس سے نفرت کرے، اس کی املاک کو نقصان پہنچائے، اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے، اس کے لیے عوام کے دل میں نرم گوشہ ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ تصور کر لیتے ہیں کہ یہ لوگ ان کی نفرت کا اظہار ہیں، چاہے انہیں پسند کرنے والے واضح اکثریت میں نہ ہوں پھر بھی وہ پورے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اسی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ اس کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی شدت پسند گروہ ریاستی رٹ کے خلاف کسی نہ کسی نظریے، مطالبے یا صرف ردّ عمل کے طور پر برسر پیکار ہے۔ گوادر کے ساحلوں سے گلگت کے پہاڑوں تک ایسے لا تعداد گروہ ہیں اور ان سے ہمدردی رکھنے والے ہزاروں افراد بھی موجود ہیں۔ ہر گروہ کی اپنی اپنی نفرت اور اپنا اپنا نظریہ ہے، لیکن ان سب کا جنم صرف ایک وجہ سے ہوا کہ ریاست انصاف فراہم کرنے اور عدل مہیا کرنے میں ناکام ہوئی۔ ہر گروہ کو یہ پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ اسے ریاست سے انصاف ملے گا‘ نہ وہ اس کے جان و مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے قابل ہے۔ جب یہ مرحلہ آتا ہے تو ہر چھوٹا گروہ ایک ایسا علاقہ منتخب کر کے اس پر دھونس سے قابض ہو جاتا ہے جہاں اس کا حکم چلتا ہے۔ اس ملک میں کتنے ایسے گائوں ہوں گے جہاں چند بدمعاشوں، منشیات فروشوں یا سمگلروں کا راج ہے۔ وہ گائوں کی پنچایتی حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتے اور انہیں نافذ کرتے ہیں۔
اس طرح کے کچھ گروہ حکومت یا ریاست کے اداروں کی نااہلی، کرپشن یا سرپرستی سے چلتے ہیں اور کچھ اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ ریاست بھی ان کے سامنے خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔ نسل اور زبان کی عصبیت کے نام پر، مسلک کی بنیاد پر یا پھر کسی نظریے کی آڑ لے کر جتنے بھی گروہ تشکیل پاتے ہیں ان کے پاس اپنے پیروکاروں کے لیے مضبوط دلیل موجود ہوتی ہے جو حکومت کی ناانصافیوں اور نااہلیوں سے جنم لیتی ہے۔ کوئی کسی نسل سے بے انصافی کی بات کرتا ہے تو کوئی کسی گروہ سے۔ کسی کو اپنے مسلک کے خلاف ریاستی بے انصافی کا شکوہ ہوتا ہے اور کوئی اپنے غم و غصے کو ایک اعلیٰ نظریاتی ڈھال بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ اس کا مقصد اعلیٰ اور ارفع محسوس ہو، جیسے کمیونزم کا نفاذ یا اسلام کی بالادستی۔ ان تمام گروہوں کے مقابلے میں ریاست کی افرادی قوت موجود ہوتی ہے۔ وہ ان کے مسلح جتھوں سے زیادہ ہوتی ہے لیکن وہ انہیں ختم نہیں کر پاتی، اس لیے کہ ایسے گروہوں کی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں عوام میں پذیرائی موجود ہوتی ہے۔
برصغیر پر انگریز نے چند ہزار بدیسی فوج کے ساتھ ریاستی بالادستی کیسے قائم کر لی؟ ماضی میں کوئی فاتح عوام کے مقابلے میں مختصر سی فوج کے ساتھ برسوں حکمران بنا رہتا، اس کی حکومت تب ختم ہوتی جب کوئی دوسرا حکمران اپنی فوج لے کر اس پر حملہ آور ہوتا۔ اس طرح قائم ہونے والی کامیاب حکومتوں کا جائزہ لیں تو ان میں دو صفات صاف نظر آئیں گی۔۔۔ ہر معاملے میں انصاف کی بالادستی اور لوگوں کو امن و امان کی فراہمی۔ انگریز کے زمانے میں ایک مجسٹریٹ اور تھانے کے چند سپاہی بدیسی حکمرانوں کی رٹ قائم کرتے اور لوگوں میں یہ تاثر موجود تھا کہ ان کے ذاتی معاملات، جھگڑوں اور گرو ہی اختلاف میں کبھی ناانصافی نہیں ہو گی۔ ریاست طاقت کے بل بوتے پر اختیار نہیں قائم کرتی۔ ہر گھرکے باہر سپاہی کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست اپنے لیے عوام میں اعتماد اور بھروسہ قائم کرتی ہے اور پھر چند سپاہیوں سے اپنی رٹ قائم کر لیتی ہے۔
موجودہ دور کے انتہائی شورش زدہ ملک میں امن و امان کے قیام کی کہانی بیشتر لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی، بہت سے ''عظیم‘‘ اور ''روشن خیال‘‘ دانشور ہچکچاتے ہوئے یہ بات زبان پر نہیں لاتے، لیکن اس ملک کی صورت حال میرے ملک پاکستان سے مختلف نہیں بلکہ بدتر تھی۔ پاکستان میں اس قدر جنگجو اور مجاہد گروہ نہیں تھے جتنے افغانستان میں تھے۔ مجاہدین کی سات تنظیمیں تھیں جن کے پاس کلاشنکوف سے لے کر ٹینک شکن میزائل اور سٹنگرمیزائل تک اتنا اسلحہ تھا کہ ایک بڑی فوج بھی اس کا مقابلہ نہ کر پاتی۔ ہمارے پاس تو اس اسلحے کی تلچھٹ بھی نہیں پہنچی تھی۔ وہاں پوست کی کاشت اور ہیروئن سازی سے سرمائے کی بہتات تھی۔ عالمی مداخلت کا یہ عالم تھا کہ عالمی طاقتوں اور پڑوسی ممالک کے گماشتے وہاں دندناتے پھرتے تھے۔ پورا ملک جبۂ کمندان کے زیر اثر ایک سو سے زیادہ علاقوں میں تقسیم تھا اور ہر علاقے پر کسی نہ کسی مسلح گروہ کی عملداری تھی۔ پاکستان کے شہر چمن سے نکلیں تو قندھار پہنچنے تک صرف ستر میل کے علاقے میں چار جگہ مختلف گروہوں کو تاوان ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہ افراتفری، لاقانونیت، طوائف الملوکی1988ء سے 1995ء تک تقریباً سات سال رہی۔ اس کے بعد چھ سال تک ریاست کی بالادستی اور امن کیسے قائم ہو گیا؟ وہ افغان جو اسلحے کو اپنا زیور سمجھتے تھے ان سے اسلحہ واپس لیا گیا اور اس کے بدلے میں انہیں ریاستی تحفظ دیا گیا۔ پوست کی کاشت امریکہ مختلف ممالک میں آپریشن سے بھی ختم نہ کرا سکا اور افغانستان تو دنیا کا سب سے زیادہ پوست پیدا کرنے والا ملک تھا، اسے صرف ایک انتظامی حکم سے ''پوست فری‘‘ ملک بنا دیا گیا۔ یہ کارنامہ کسی بڑی فوج، انتظامی مشینری، اعلیٰ ماہرانہ ''اینٹی ٹیررازم‘‘ دماغوں نے نہیں کیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے پانچ سال افغانستان جیسے ملک میں امن قائم کیا ان کی تعداد صرف پچاس ہزار تھی۔ (جار ی)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved