تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-03-2014

جس کا کام اسی کو ساجھے

توفیق ہو تو قرآنِ کریم کی آیت پہ پھر غور کیجیے: جو ہلاک ہوا‘ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو جیا، وہ دلیل سے جیا۔ اللہ بس، باقی ہوس!
کوئی فائدہ نہ ہو گا، جسٹس بھگوان داس کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ الٹا ان کی نیک نامی جاتی رہے گی۔ فخرالدین جی ابراہیم کے تقرر پہ یہی گزارش کی تھی مگر میں تنہا تھا۔ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا۔ اب ایک اور ریاضت کیش اور ہوش مند اخبار نویس نے یہی لکھا ہے اور بروقت۔ 
انسدادِ دہشت گردی کے ادارے ''نیکٹا‘‘ کی تشکیلِ نو کا بھی آخرکار کوئی نتیجہ نہ نکلے گا، جب تک پولیس کو بہتر نہ بنایا جائے۔ جدید پولیس کا کوئی متبادل تھا، نہ ہو گا۔ سال بھر نیکٹا کے دفاتر کا کرایہ ہی ادا نہ ہوا، شریف حکومت کے 9 مہینے بھی۔ اسلام آباد میں رینجرز کا تقرر بھی ایسا ہی ایک فیصلہ ہے، بانجھ۔ جنرل رضوان کی قیادت میں کراچی میں کلیدی کردار کا نتیجہ کیا نکلا؟ شاہد حیات ایسے افسروں کے باوجود مایوسی اب بڑھتی جائے گی۔ آخری تجزیے میں مگر بے سود۔ 
سپریم کورٹ کے دبائو پر، نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے جس نے 19 مارچ تک مہلت دی ہے، حکومت نے بے تابی کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح، جیسے وزیر اعظم نے آخری دن شمالی وزیرستان آپریشن کا فیصلہ واپس لے کر ایک عجیب و غریب کمیٹی بنائی تھی۔ انگریزی کا محاورہ یہ ہے "Camel is a horse made by a committee" اونٹ بھی دراصل ایک گھوڑا ہے، جو ایک کمیٹی نے بنایا تھا۔ چار میں سے دو ارکان آمادہ ہی نہ تھے۔ بعد میں بھی وہ واویلا کرتے رہے، خاص طور پر میجر صاحب، جو قبل ازیں خفیہ طور پر تنہا بات کر رہے تھے۔ اب بالآخر وہی کیا، جو 
انہوں نے تجویز کیا تھا۔ پرسوں جنابِ رابطہ کار وزیر اعظم کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کی ملاقات سے قبل ایوانِ وزیر اعظم پہنچے مگر میجر کو وہ کیسے مات دے سکتے ہیں۔ موصوف اس میدان کے مرد ہیں۔ وزیر اعظم سے انہوں نے یہ کہا: ایک اعزاز کی بات ہے کہ وزیر اعظم کسی دن اس سے مشورہ کریں۔ اسے اعتماد سے نوازیں۔ نکتہ یہ ہے کہ سری لنکا اور آئرلینڈ سمیت، کب کسی ملک میں غیر حکومتی مشاورت کاروں نے مذاکرات کو انجام تک پہنچایا؟ فیصلہ کن بات چیت فریقین میں ہوا کرتی ہے۔ اب حکومت اور فوج کو بات کرنی چاہیے اور براہِ راست۔ ملاقات کے بعد اعلان ہوا کہ کمیٹیاں قائم رہیں گی۔ فوراً میں نے عرض کیا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزاحاً یہ بھی کہ کمیٹی لپ اسٹک لگا سکتی ہے، مشاطّہ کے پاس جا سکتی ہے، نیا غرارہ پہن سکتی ہے مگر ہنی مون ختم ہوا۔ اب طلاق کہ اس کا بانجھ ہونا شک و شبہ سے بالا ہے۔ ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے، باقی نہ رہے تو عمارت کیسے بچے گی۔ 
وزیر اعظم نے کراچی رینجرز کو سونپا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈاکٹر شعیب سڈل سمیت، تمام ممتاز ماہرین کو یقین تھا کہ منصوبہ ناقص ہے۔ اس کے باوجود جنرل نے پشت پناہی کی۔ ڈاکٹر سڈل اس کے باوجود پولیس افسروں کو مشورہ دیتے رہے۔ دونوں کا خلاصہ یہ تھا: شور مچاتی ہوئی ندّی دریا بن کر تپتے ہوئے ریگزار میں چھپ جائے گی۔ دو ہفتے قبل میں جنرل کیانی سے ملا تو انہوں نے کہا: کیا میں نے پہلے ہی آپ کو بتا نہ دیا تھا۔ ڈاکٹر سڈل سے مجھے معذرت کرنا پڑی کہ بے سبب میں ان سے بحث کرتا رہا۔ 
بار بار یہ ناچیز کراچی گیا۔ جنرل رضوان، جناب جمیل یوسف اور ان کے ساتھیوں سے ملا۔ حوصلہ افزائی کے لیے کئی کالم لکھے۔ ایک دن تو شام کا کھانا دو بار کھانا پڑا۔ پہلے جمیل یوسف، پھر ایک بزرگ کے ساتھ۔ اوّل اوّل تاجر خوش تھے، شہری بھی، حتیٰ کہ جمیل یوسف۔ سامنے کی حقیقت مگر نظر انداز کر دی گئی کہ اگر ایم کیو ایم نہیں بدلی، پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت نہیں بدلی تو پولیس کیسے بدل جائے گی؟ آوے کا آوا ہی خراب۔ خلیل جبران نے کہا تھا: بے دلی سے جو بادہ کشید کرے، وہ زہر پلائے گا۔ سو فیصد یکسوئی اور دو سو فیصد عزم درکار ہوتا ہے۔ تب اجنبی راستے بھی ہتھیلی پہ پھیلی لکیروں کی طرح روشن ہو جاتے ہیں۔
برسوں سے چیخ رہا ہوں کہ پولیس کو بدلے بغیر، سول سروس اور ایف بی آر کو بہتر بنائے بغیر، کچھ نہ ہوگا، کچھ بھی نہیں۔ یہ ساری دنیا کا تجربہ ہے۔ ہم کیا اللہ کے لاڈلے ہیں کہ ہمارے لیے اپنے ابدی قوانین وہ بدل ڈالے گا؟ وزیر اعظم اور ان کے شہ دماغ وزیر داخلہ نے رینجرز کو قابلِ اعتماد سمجھا کہ فوجی افسر کسی کی سنتے نہیں۔ پولیس ہی کو فوج کیوں نہ بنا دیا جائے؟ سول سروس کیوں پوری طرح بااختیار اور پوری طرح جواب دہ نہ ہو؟ نارووال کے سب تھانے دار احسن اقبال کے حکم سے کیوں لگیں؟ کسی کو 1990ء کے عشرے میں نیویارک کا میئر جولیانی کیوں یاد نہ آیا؟ کسی نے کیوں تجویز نہ کیا کہ کراچی پولیس کے بدعنوان افسر نکال دیے جائیں؟ انصاف کے ساتھ ہو تو حوصلے ٹوٹتے نہیں، مضبوط ہوتے ہیں۔ چار صدیاں ہوتی ہیں، ترکوں نے طے کیا کہ شاہی خاندان کا کوئی شخص اہم سرکاری منصب پہ فائز نہ ہوگا۔ سرکاری اداروں میں تربیت دیے بغیر کوئی عہدہ نہ سونپا جائے گا۔ ترجیح غیرمسلموں کو۔ وہ زیرِ اثر نہ آئیں گے۔ 
سلطان سلیم اٹھارہ برس کا نوجوان۔ انحراف کا آغاز اس نے کیا اور ظاہر ہے کہ اسی سے زوال۔ عالمِ اسلام کی تباہی میں کم چیزوں کا اتنا دخل ہے، جتنا سلیمان ذی شان کے عہد میں جھوٹے ولولے کا کہ مسلمان اب دائم غالب رہیں گے۔ سمندر پار سپین میں امویوں کے محلّات کھنڈر بن چکے تھے اور ان کی دیواروں پہ لکھا تھا ''لا غالب الّا ھُو‘‘ عبدالرحمن الداخل کی کنیز کا سفید محل، پیچھے کالے پہاڑ۔ مٹی ڈالی، گلزار سجایا۔ ان محلّات کے مکین اب کہاں ہیں؟ 
میں دیکھا قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص 
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں ہے 
اب حمزہ شہباز ہیں، ترقیاتی منصوبوں کے 66 ارب پرسوں جنہیں سونپ دیے گئے۔ اتنی ہی رقم راولپنڈی میٹرو پہ برباد ہوگی۔ حلوائی کی دکان پہ نانا جی کی فاتحہ۔ پنجاب میں اغوا برائے تاوان کے 17 ہزار واقعات ہوئے۔ 1999ء میں میاں شہباز شریف سے عرض کیا تھا: پولیس بدلے بغیر کچھ نہ بدلے گا۔ آنجناب نے قسم کھا رکھی ہے کہ بات لوگوں کے دل کی کریں گے اور مرضی اپنے من کی۔ تھانہ اور پٹوار کلچر سمیٹنے کے دعوے کرتے انہیں صدیاں گزر گئیں۔ پہاڑ کی طرح وہیں رکھے ہیں۔ جسٹس بھگوان داس نیک نام بہت ہیں۔ اضافی خوبی یہ کہ غیرمسلم ہیں اور سفارش نہیں سنتے۔ مودبانہ عرض ہے کہ پچھتائیں گے۔ ارکان ان کے بس میں نہ ہوں گے کہ پارٹیوں کے حامی ہیں۔ دھاندلی کا وہ حساب نہ کر سکیں گے۔ دستور میں لکھا ہے ''منصفانہ، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہیں‘‘ مگر وہ کبھی عدالتِ عظمیٰ کی دہلیز پہ کھڑا رہتا ہے اور کبھی حکومت کے در پہ۔ یوں بھی دنیا میں کبھی کوئی جج مثالی انتخاب نہ کرا سکا۔ اس کی کائنات دو کمروں تک محدود ہوتی ہے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ کیسا ہولناک انکشاف کہ امریکی سفیر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی پشت پر کھڑی تھی۔ فخرو بھائی نے جنرل کیانی کو فون کیا تھا: میری جان خطرے میں ہے۔ 
رینجرز نہیں، اسلام آباد سمیت تمام شہروں کو وہ پولیس درکار ہے، جو سفارش سے محفوظ ہو۔ اعلیٰ ہتھیار، جدید آلات اور بہترین تربیت۔ جلد ہی تفصیل بھی عرض کروں گا۔ توفیق ہو تو قرآنِ کریم کی آیت پہ پھر غور کیجیے: جو ہلاک ہوا‘ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو جیا، وہ دلیل سے جیا۔ اللہ بس، باقی ہوس! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved