تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     08-03-2014

اِن ڈیسنٹ پرپوزل

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے طالبان کو کرکٹ میچ کھیلنے کی پیشکش کرنا لطیفہ تھا یا سانحہ اس کا فیصلہ نہ بھی ہوسکے تو اسے ''اِن ڈیسنٹ پرپوزل ‘‘ ہی قراردیا جائے گا۔ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ کرکٹ،ہاکی، کبڈی اوردیگر سپورٹس سے خطے میں پائی جانی والی کشیدگی کو کم کیاجاسکتا ہے،لیکن پاکستان اوربھارت کے مابین سپورٹس ڈپلومیسی بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔اس کا تازہ ترین مظاہرہ بھارت میں دیکھنے میں آیا‘ جہاں میرٹھ یونیورسٹی میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کا جشن منانے پر 67کشمیری طلبہ پر بغاوت کا مقدمہ درج کراکر انہیں ادارے سے بے دخل کردیا گیا۔بعدا زاں شدید احتجاج کئے جانے پر کشمیری طلبا کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لے لیا گیا ہے ۔
گزشتہ 66سالوں سے بھارت اورپاکستان میں نفرت کی ایک ہی فلم چلائی جارہی ہے۔نفرت کی اس فلم کا ''فلیش بیک‘‘(تاریخی پس منظر) صدیوں پر محیط ہے۔اس فلم کا پہلا فریم وہ تھا جب اس خطے میں پہلاشخص مسلمان ہوا تھا۔بھارت ، پاکستان اوربنگلہ دیش کی مسلمان آبادیوں کو اکٹھا گنا جائے تو یہ لگ بھگ 60کروڑ سے زائد بن جاتی ہیں۔ ساٹھ کروڑ مسلمان تین الگ الگ ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔کون سے ملک میںرہنے والے مسلمان بہترین ہیں اورکون سے کم تر‘ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟کیا تینوں ملکوں میں آباد مسلمان آپس میں یکساں پیار کرتے ہیں؟اس کا مظاہرہ ہم سب کو اس دن دیکھ لینا چاہیے تھا جب پاکستان اوربھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے میچ کے دوران بنگالی تماشائیوں کی ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے ساتھ نہیں تھیں۔ایسا کیوں ہوا؟ہندوئوں کے مقابل مسلمان ٹیم کے بلے بازوں کے چوکوں اورچھکوں پربنگالی مسلمانوںکو خوشیاں منانا چاہیے تھیں لیکن ایسے نظارے دیکھنے کو نہیںملے۔ تیس سال سے کم عمر پاکستانی شائقین ِکرکٹ یہ دیکھتے ہوئے پریشان ضرور ہوئے ہوں گے کہ بنگالی مسلمان ،اپنے مسلم برادرملک پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیوں نہیں ہیں؟میرا تعلق اس نسل سے ہے‘ جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے دیکھا ہے‘ اس لیے دکھ کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ہوئی کیونکہ ہماری اوربنگالیوں کی داستاں ایک ہی تھی اورکبھی اس داستاں کا عنوان بھی ایک ہی(پاکستان ) ہواکرتاتھا ؎
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں ، یہ میرا ہی افسانہ تھا
حکومت اورطالبان کے مابین وزیر داخلہ کی تجویز کردہ ''چوہدری کرکٹ ڈپلومیسی ‘‘ کے پٹ جانے کے بعد اب خفیہ مذاکرات کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔اس کا فیصلہ وزیر اعظم سے حکومتی اورطالبان کمیٹیوں کی ملاقات کے بعد کیاگیا۔اس ضمن میں ایک مشترکہ وفد حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر وضاحت مانگنے وزیرستان جائے گا۔اسلام آباد کچہری سانحے اوردہشت گردی کے حالیہ واقعات میں 20سے زائد پاکستانی شہید کر دیے گئے‘ اس کے باوجود مولانا سمیع الحق نے وزیر اعظم صاحب سے وعدہ لے لیا ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی ایکشن نہ لیاجائے۔ حکومتی اورطالبان کمیٹی کی وزیر اعظم سے جو ملاقات ہوئی اس کی کوریج میڈیا پر دکھائی گئی۔ اس میں حکومت کے پُرتپاک انداز سے سب کچھ صاف جھلک رہا تھا۔ 
دہشت گردی اوران کے ذمہ داران سے نمٹنا ایک مسئلہ نہیں بلکہ زندگی اورموت کی جنگ ہے۔مسائل اورہوتے ہیں جبکہ موت ایک الگ حقیقت ہے جس کے بعد غم ،دکھ اور ہر قسم کے مسائل سے چھٹکارا مل جاتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت غموں ،دکھوں اورمسائل سے نجات کا کوئی''غالبانہ ‘‘ اور خفیہ طریقہ متعارف کرانا چاہتی ہے کہ ؎
رنج سے خوگر ہواانساں تو مٹ جاتا ہے رنج 
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسا ں ہوگئیں
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے طالبان اورریاست کو برابر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مذاکرات کے نام پر مذاق رات ہورہے ہیں،تحریکِ طالبان پاکستان کے بجائے تمام متحارب گروپوں سے بات کی جائے۔ مولانا نے کہاکہ مدارس کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں ہونے دیں گے اور طاقت کااستعمال کوئی حل نہیں۔طالبان کے روٹ اور روٹس کو سمجھنے والے سینئر تجزیہ نگار ہارون الرشید صاحب نے لکھا ہے کہ '' مولانا فضل الرحمن بظاہر مذاکرات کے حامی ہیں مگر وہ بھی اسے سبوتاژ کرنے کے آرزو مند ہیں۔ٹھیکہ چاہتے ہیں،پورا ٹھیکہ اورمولانا سمیع الحق کی چھٹی جبکہ سمیع الحق حکومت کی پوزیشن کمزور کرنے کے درپے ہیں۔‘‘
ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان میں کم و بیش سبھی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور ورکرز طالبان کے ظلم کا نشانہ بنے ہیںلیکن 
نون لیگ اورمیاں گھرانہ اس عذاب سے محفوظ رہاہے۔دعا ہے کہ پروردگار میاں گھرانے سمیت سبھی کے بال بچوں کو طالبان کے عذاب سے محفوظ رکھے‘ لیکن دعا کے ساتھ ساتھ جو حکمت عملی اپنائی جارہی ہے‘ اس سے عام لوگوں کو مطمئن نہیں کیاجارہا۔وجہ یہ ہے کہ طالبان ریاست اورحکومت کے باغی ہیں اور وہ اس نظام کو ختم کرکے اپنا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘ جسے ہم نہیںمانتے۔میرے والدین مرحومین اورمیں بریلوی مسلمان ہیں،طالبان مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی مسلمانوں کو ''دوبارہ مسلمان‘‘بنانے کا ڈرامہ رچا کر پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ان کے اتنے بڑے اورسنگین جرم کی پاداش میں کیا ان سے صرف مذاکرات کئے جانے چاہئیں؟ 
اس ملک کے 20کروڑ سے زائد پاکستانیوں میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ حکومت کے نزدیک عوام کے جان ومال کی کوئی وقعت نہیں‘ اسی لئے تو قاتلوں سے صرف مذاکرات کئے جارہے ہیں۔پچپن سے ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قتل اور70سے 80 ارب ڈالر کے پاکستانی اثاثہ جات کے خاکستر ہونے کے بعد باغیوں سے مذاکرات کرنا ایسے ہی ہے‘ جیسے چھوٹی موٹی بیمہ کمپنی کو کار ایکسی ڈنٹ کی رقم معاف کردی جائے۔ہمارے ہاں انصاف ،قانون اورآئین کو پاتال سے بھی نیچے دفن کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اورطبقات شدید محرومیوں کا شکار ہورہے ہیں۔طالبان ہوں یا جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف‘ سبھی نے اس ملک کے آئین اورقانون سے کھلواڑ کیاہے۔آئین شکنی کا یہ گھناونا ٹورنامنٹ آج بھی ہمارے ہاں نمائش پذیر ہے۔دکھ یہ 
بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہر قانون شکن اورہر قاتل کو سستے اور ارزاں ''وکیل‘‘ بھی دستیاب ہوجاتے ہیں۔
طالبان کے وکیل تو عمران خان ، پروفیسر منور حسن،مولانا سمیع الحق،مولانا فضل الرحمن کے علاوہ میڈیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔اپنے ان دوستوں سے بات کریں تو یہ ایک ہی نعرہ بلند کرتے ہیںکہ طالبان، اغیار (امریکہ ) سے جنگ لڑ رہے ہیں‘ اس لیے وہ مجاہدین ہیں۔جب ان سے سوال کیاجاتاہے کہ کبھی ہمارے یہ اپنے... اغیار کے یار ہوا کرتے تھے... یہ وہ زمانہ تھاجب ہمارے یہ مجاہدین باہم مل کر امریکی ڈالروں اوراسلحہ سے ''امریکی جہاد‘‘ کررہے تھے۔لال مسجدسے برقعہ پہن کر ''موقعۂ شہادت‘‘ سے نکل جانے والے مولانا عبدالعزیز نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں فرمایا ہے کہ... طالبان وہی ہیں جنہیں ریاست نے سوویت یونین اوربعد ازاں کشمیر میں جہاد کرنے کے لئے تربیت دی تھی، آج یہ بیگانے اوردشمن کیسے ہوگئے؟ پچھلی باتیں بھُلا کر اپنوں کو گلے لگانا چاہیے اور طالبان کے خلاف فوجی ایکشن کی آپشن کو ہمیشہ کے لئے بھول جانا چاہیے۔وزیر اعظم صاحب بھی یہی فرما رہے ہیںکہ ''چاہتا ہوں کہ آپریشن کی نوبت نہ آئے ‘‘۔انہیں یہ بھی سمجھ نہیںآرہی کہ پہلے سکیورٹی ٹھیک کریں یا توانائی کا بحران حل کریں۔ سکیورٹی اورلوڈشیڈنگ کے مسائل جنرل محمد ضیاالحق کے فوجی دورکی یاد گار ہیںجن میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔اگر ہمارے حکمران تین دہائیوں کی حکمرانی اورہیٹرک کے بعد بھی کنفیوژ ہیں کہ سکیورٹی اورلوڈشیڈنگ کا کیاکریں تو پھر قوم کا اللہ حافظ ہے۔عوام کو احتیاطاً اپنے انتقال ، رسم قل،دسواں اورچالیسواں کاانتظام کرلینا چاہیے تاکہ لواحقین کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ نیز اس ''اِن ڈیسنٹ پرپوزل‘‘ کو بھی اپنی سمجھ بوجھ اور گول گردن پر ہی لطیفہ یا سانحہ سمجھ لیجئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved