طالبان سے مذاکرات کے لئے تمام سیاسی رہنما یک آواز تھے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اے پی سی بلائی تو اس میں (قریباً) تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما مدعو کئے گئے، چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی زحمت دی گئی۔ جناب عمران خان کے اصرار پر کانفرنس سے قبل ان سے فوجی قیادت کی خصوصی ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا۔ خان صاحب بضد تھے کہ جب تک وہ اعلیٰ ترین فوجی حکام سے براہ راست مل کر ان کے نقطہ نظر سے آگاہی حاصل نہیں کر لیتے، کانفرنس میں ان کی شرکت بے سود رہے گی۔ ان کی یہ شرط پوری کر دی گئی اور اے پی سی کا انعقاد ہو گیا۔ مولانا سمیع الحق اور شیخ رشید صاحبان کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، نتیجتاً جناب شیخ کی جولانی ٔ طبع کے مظاہرے ٹی وی دیکھنے والوں کو خوب دیکھنے کو ملے۔ اس اے پی سی نے اتفاق رائے سے (طالبان اور اس طرح کے دوسرے ناراض عناصر کے ساتھ) مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم اس راستے پر چل پڑے۔
یہ راستہ ہموار نہیں ہو سکتا تھا، اس میں انتہائی سخت مقامات آتے رہے، لیکن راستے کو تبدیل نہ کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے علماء کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اور میڈیا سے چھپ کر نامہ و پیام شروع ہو گیا۔ حکیم اللہ محسود نے رابطہ کار علماء کے مجوزہ ناموں کو یوں قبول کیا کہ ان میں سے دو کو کاٹ کر ان کی جگہ دو اور تجویز کر دیے۔ حکومت کو ان دو ناموں پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا، اس لئے یوں سمجھئے کہ دس رابطہ کار مقرر ہو گئے۔ ان کا '' خط ِ تقرر‘‘ ابھی جاری نہ ہوا تھا کہ حکیم اللہ محسود ایک ڈرون حملے میں نشانہ بن گئے اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔
اس کے بعد ایک طویل سلسلہ واقعات ہے، مُلا فضل اللہ کو تحریک طالبان کی قیادت سونپ دی گئی۔ جنرل ثناء اللہ نیازی کو نشانہ بنایا گیا اور اس واردات نے پاکستانی قوم کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ مذاکرات کا دروازہ بند کرنے کی آوازیں طاقتور ہوئیں، لیکن فوجی قیادت نے ان میں اپنا وزن نہ ڈال کر انہیں کمزور کر دیا۔ وارداتیں اور بھی ہوتی رہیں، دہشت گردی صبر اور حوصلے کو مسلسل آزماتی رہی۔ تحریک طالبان کی طرف سے کبھی منظر عام پر آ کر اور کبھی اس سے ہٹ کر اپنے وجود کا احساس دلایا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ کراچی میں رینجرز اور پولیس پر ہولناک حملے کر کے متعدد جوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کا فیصلہ کیا، تو عام اندازہ یہی تھا کہ پاکستانی طالبان کے خلاف شدید اقدام کا اعلان کیا جائے گا۔ معتبر میڈیا پرسنز اور اخباری وقائع نگار یہ اطلاع دے رہے تھے کہ فوجی قیادت سے صلاح مشورے مکمل کر لئے گئے ہیں اور فیصلہ کن وار کی تیاری کی جا چکی ہے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی غالب اکثریت نے آپریشن کے حق میں رائے دی تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ وزیراعظم کے پاس طبل ِجنگ بجھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے، لیکن وزیراعظم اپنی تقریر کے ذریعے حالات کو ایک نئے موڑ پر لے آئے۔ انہوں نے طالبان سے مذاکرات کے راستے پر قائم رہنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اس مقصد کے لئے چار رکنی کمیٹی بھی قائم کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی طرف سے مذاکرات کی مجاز ہو گی۔ اس میں سینئر کالم نگار اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی، آئی ایس آئی کے شہرت یافتہ ریٹائرڈ میجر عامر، ممتاز اخبار نویس رحیم اللہ یوسفزئی اور ممتاز سابق بیورو کریٹ اور ڈپلومیٹ رستم شاہ مہمند شامل تھے۔ آخر الذکر کا نام خیبرپختونخوا کی حکومت کے مشورے پر شامل کیا گیا تھا، یوں اس کمیٹی کو وفاقی اور (خیبر پختونخوا کی) صوبائی حکومت کی تائید حاصل تھی۔
طالبان نے اس کمیٹی سے رابطے کے لئے اپنی طرف سے کمیٹی نامزد کر دی، جس میں مولانا سمیع الحق، عمران خان، مولانا عبدالعزیز، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم اور جمعیت علمائے اسلام کے فضل الرحمن گروپ سے تعلق رکھنے والے مفتی کفایت اللہ شامل تھے۔ عمران خان نے یہ نامزدگی قبول نہ کی، مولانا فضل الرحمن نے بھی اس سلسلہ مذاکرات سے اپنی جماعت کو الگ کرتے ہوئے مفتی صاحب کو کام کرنے سے روک دیا۔ مولانا عبدالعزیز شریعت کا پرچم اٹھا کر میدان میں آ گئے اور ان کی تعبیر کے مطابق اس کے نفاذ کو ایجنڈا پر لائے بغیر کسی بات چیت کا حصہ بننے سے انکاری ہو گئے۔ طالبان کی طرف سے بھی طرح طرح کی خبریں آنے لگیں، تجزیہ کار شرائط کی قوالی کرنے لگے اور یوں لگا کہ بات جیت کا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی رخصت ہونے والا ہے، یعنی سقوطِ حمل واقع ہونے کو ہے۔ حکومتی کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر عرفان صدیقی مقرر کئے گئے، اور اپنے ساتھیوں سے زیادہ کیمرے کی آنکھ کا مرکز بن گئے۔
طالبان کے ایک گروپ کی طرف سے23ایف سی اہلکاروں کو (دورانِ حراست) قتل کرنے کی خبر جاری کی گئی، تو دِلوں کو آگ لگ گئی، فضائیہ کو حرکت میں آنا پڑا، کمین گاہوں پر حملے ہوئے، کئی جنگجو بھی ہلاک کئے گئے۔ اس کے بعد مذاکرات کا معاملہ پھر چل پڑا، طالبان نے ان کی غیرمشروط بحالی سے اتفاق کرتے ہوئے قدم بڑھائے۔ ایک ایک دن کی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی، لیکن یہ واضح ہے کہ شدید تنقید اور تشویش کے ماحول میں بھی دونوں کمیٹیوں نے پیشرفت کی اور معاملات کو آگے بڑھایا۔ حکومتی کمیٹی کے تمام ارکان چونکہ اپنی اپنی مرضی کے مالک تھے، اس لئے ان کے درمیان حکمت عملی کی ہم آہنگی نہیں تھی۔ عرفان صدیقی میڈیا کو مسلسل اعتماد میں لینے میں مصروف تھے، جبکہ میجر عامر ''راز داری‘‘ کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ اس کے باوجود نتائج مایوس کن نہیں رہے۔ بات چیت کا دائرہ متعین ہوا، تحریک طالبان نے ایک ماہ کے لئے غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ سب کو معلوم ہو گیا کہ دستور پاکستان پر کوئی تنازعہ نہیں، اس کے تابع ہی قیام امن کا راستہ نکالنا ہے۔
فریقین اب براہ راست بات چیت پر اتفاق کر چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومتی کمیٹی کی افادیت ختم ہو گئی ہے۔ اس کے بعض ارکان اس کی تحلیل پر بضد ہیں، جبکہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ اعلان نہیں ہوا۔ وزیر داخلہ نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ رابطہ کار کے طور پر اس کمیٹی کی افادیت موجود ہے، لیکن براہ راست بات چیت کے لئے دوسرے نام سامنے آ سکتے ہیں۔ طالبان نے اپنی کمیٹی کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں دی، اس لیے اسے زندہ ہی سمجھا جائے گا۔
حکومتی کمیٹی کی رسم قل یا چہلم ادا ہو چکی ہے یا یہ کولڈ سٹوریج میں ہے یا یہ وزیراعظم ہائوس کے کسی کونے کھدرے میں محفوظ کر لی گئی ہے، اس کے ارکان ایک دوسرے سے کریڈٹ چھیننے کے چکر میں مبتلا ہو کر بھی یہ کریڈٹ اپنے آپ سے نہیں چھین پا رہے کہ اس نے فضا میں تبدیلی پیدا کی ہے اور بالواسطہ معاملات کو بلاواسطہ تک پہنچا دیا ہے۔ اب مذاکرات کا مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے، اس کے لیے کئی آستینوں کی تلاشی لینا پڑے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)