تھرپارکر کے بے رحم صحرا میں موت کا شکار ہونے و الے بچوں کے بارے میں پتہ چلا تو دو لوگ میرے ذہن میں آئے۔
پہلے سابق وزیراسحاق خاکوانی جنہوں نے 2005-06 ء میں وزیراعظم شوکت عزیز سے مطالبہ کیا تھا کہ چولستان کے صحرا میں بھوک اور پیاس سے مرنے والے 32 بچوں اور ان کی مائوں کے قتل کا مقدمہ اس وقت کے چیئرمین پلاننگ ڈویژن اکرم شیخ‘ خشک سالی پروگرام کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد انور اور دیگر اسٹاف کے خلاف درج کیا جائے جنہوں نے چولستان کے فنڈز میں سے کروڑوں کی گاڑیاں خرید لی تھیں اور اپنے دفاتر اور باتھ روم میں ان فنڈز سے ٹائلیں لگواتے رہے تھے۔ دوسرا نام پیپلز پارٹی کی سابق ایم این اے روبینہ قائم خانی کا آیا جنہوں نے پچھلے دور میں ملنے والے ترقیاتی فنڈز تھرپارکر میں خرچ کرنے کی بجائے لکی مروت کے ٹھیکیداروں کو بیچ دیے تھے۔ ایک اور خاتون کا نام نہیں لکھتے‘ جنہوں نے چکوال کی بجائے اپنے دو کروڑ روپے لکی مروت شفٹ کر دیے تھے کہ وہاں زیادہ ضرورت تھی کیونکہ وہ پہلے ہی مجھ سے شدید ناراض ہیں۔ جب خاتون سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ان کے آبائو اجداد وہاں سے آئے تھے لہٰذا انہیں اپنا پرانا قرض چکانا تھا۔
اگر اسحاق خاکوانی کی سنی جاتی اور ان بڑے بابوئوں کے خلاف مقدمہ درج ہوجاتا جو چولستان کے خشک سالی کے فنڈز کھا گئے تھے تو آج تھرپارکر کے بچے نہ مرتے۔ پیپلز پارٹی کی روبینہ قائم خانی کے خلاف کارروائی ہوتی تو شاید میرے دوست سینیٹر مولا بخش چانڈیو بھی اپنے صوبے سندھ میں اپنے فنڈز خرچ کرتے نہ کہ وہ بھی لکی مروت کے کسی ٹھیکیدار کو ڈھونڈتے کہ بھیا!کچھ پیسے سرکار سے ملے ہیں۔ میر ے صوبہ سندھ میں تو ہر طرف ہریالی اور ترقی کا دور دورہ ہے اور اب تو قریبی ملکوں سے لوگ ہجرت کر کے وہاں مزدوری کرنے آرہے ہیں لہٰذا تم انہیں لکی مروت میں ہی خرچ کردو۔
اگر میرے سندھی دوستوں کو محسوس ہورہا ہے کہ ان کے سیاستدانوں کے ساتھ زیادتی کررہا ہوں تو پھر پنجاب کی سن لیں ۔ ملتان سے میرے دوست سینیٹر رفیق رجوانہ نے اپنے ایک کروڑ روپے کا فنڈ سربراہ حکومت کے داماد کو مانسہرہ بھجوا دیا۔ بہاولنگر سے سینیٹر چوہدری جعفر اقبال گجر کو پتہ چلا کہ رجوانہ صاحب ان سے بازی لے گئے ہیں توانہوں نے بھی اپنا ایک کروڑ داماد صاحب کے حلقے کو ٹرانسفر کر دیا۔ اس کے بعد داماد صاحب اور ان کے بھائی کے انتخابی حلقہ کے نام پر سینیٹر پرویز رشید، اسحاق ڈار، ظفر علی شاہ نے بھی اپنے کروڑوں روپے انہیں بھیج دیے۔ چولستان کے ہمسائے میں رہنے والی بہاولپور شہر کی نواز لیگ کی دو خواتین ایم این ایز نے بھی اپنے فنڈز اپنے لیڈر کے داماد کو تحفے میں بھجوا دیے۔
تھرپاکر کے بے رحم صحرا میں مرنے والے بچوں کے بارے میں کیا لکھا جائے کیونکہ مجھے علم ہے کہ سیاستدان اور بیوروکریسی والے کرپٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بے رحم بھی ہوچکے ہیں۔ میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی اس خشک سالی کو بنیاد بنا کر عالمی ادارے سے خشک سالی کے اثرات ختم کرنے کے لیے تین سو ملین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ لیا جائے گا۔ اسلام آباد میں عالی شان دفتر بنایا جائے گا، تیس نئی گاڑیاں لی جائیں گی اور کسی محمد انور جیسے آڈٹ افسر کو پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔ پھر صوبوں میں ان کے دفاتر بنائے جائیں گے جن پر قرض کی یہ رقم دل کھول کر خرچ کی جائے گی۔ اگر بلوچستان میں پولیس کے آئی جی کا دفتر بنانا ہوگا تو بھی خشک سالی کے فنڈز سے ہی پچاس لاکھ روپے کا تحفہ دیا جائے گا۔ سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ اکرم شیخ کے دفتر میں راکنگ چیئر بھی خشک سالی کے فنڈز سے خریدی جائے گی تاکہ صاحب تھک جائیں تو جھولے لے
سکیں اور اپنی تھکان اتاریں۔
اس کے بعد کوئی نیا افسر صرف اسلام آباد میں نوے کے قریب ملازمین بھرتی کرلے گا جس میں زیادہ تر اس کے اپنے عزیز ہوں گے، یونیورسٹی جاتے بچوں کے نام لکھ کر انہیں تنخواہ ملتی رہے گی۔ درجنوں لیپ ٹاپ، نئے موبائل فون سیٹ، لاکھوں روپے کے بل، پٹرول کارڈز، ہر سال نئے سپلٹ ائیرکنڈیشنرز پر بھی قرضہ سے چلنے والے خشک سالی پراجیکٹ سے ہی رقم خرچ ہوگی۔ محمد انور کی طرح وہ بھی 2800 سی سی کی قیمتی گاڑی اپنے استعمال کے لیے خرید لے گا۔ پلاننگ ڈویژن کے ہر سیکرٹری کو خوش کرنے کے لیے کہ کہیں وہ نئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے اخبار میں اشتہار نہ دے، محمد انور کی طرح کا پراجیکٹ ڈائریکٹر پانچ نئی سولہ سو سی سی گاڑیاں خرید کر سیکرٹریوں کی بیگمات کو لاہور بھجوائے گا۔ اگر بیگم صاحبہ خوش رہیں تو پھر سیکرٹری صاحب کبھی بھول کر بھی نہیں پوچھیں گے کہ بھلا ایک آڈٹ افسر کا خشک سالی کے تین سو ملین ڈالرز سے زائد کا پراجیکٹ چلانے سے کیا تعلق ہے۔
اگر میرے جیسے کسی رپورٹر کو ان گھپلوں کا پتہ چل جائے اور وہ سٹوریاں فائل کرنا شروع کردے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ آڈٹ کریں تو اس آڈٹ افسر محمد انور کے آڈیٹر دوست ہی اسے پہلے کلین چٹ دینے کی کوشش کریں گے۔ اگر وہ کوشش کامیاب نہ رہی اور یونس خان جیسے کسی آڈیٹر جنرل نے پھر بھی آڈٹ کرا لیا تو پتہ چلے گا کہ کیسے خشک سالی کے شکار چولستان، بلوچستان، خیبر پختون خوا اور سندھ کے علاقوں کا فنڈ اسلام آباد میں بیٹھے بابوئوں اور حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہورہا ہے، تو بھی کچھ نہیں ہوگا ۔
معاملہ اگر پبلک اکائونٹس کمیٹی تک بھی چلا گیا تو بھی وہاں وزیرداخلہ جیسا کوئی چیئرمین بیٹھا ہوگا جسے پتہ چلے گا کہ جس پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد انور کے خلاف کرپشن کے درجنوں آڈٹ پیرے بنے ہیں ‘وہ اس کے اپنے حلقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے کافی ووٹ ہیں، تو پھر کمیٹی کے ممبران زاہد حامد اور سردار بہادر خان سہٹر کی ذیلی کمیٹی اپنی رپورٹ کے باوجود کچھ نہیں کر سکے گی اور محمد انور کو ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ریکوری پلاننگ ڈویژن کے ڈرائیور، قاصد اور دیگر کلرکوں پر ڈال دی جائے گی جو مجھ جیسے رپورٹر کو بددعائیں دیں گے کہ نہ آپ یہ سکینڈل فائل کرتے‘ نہ آج ان سے یہ وصولی ہوتی۔ اگر پی اے سی سیکرٹریٹ ان پانچ سیکرٹریز کو بلا لے گا کہ کیسے گاڑیاں استعمال کیں تو الٹا ان کا افسر اِن سے معذرت کر کے اپنے ہی افسروں پر چڑھائی کر دے گا۔
اگر اسحاق خاکوانی جیسے باضمیر اور بہادر سیاستدان نے وزیرہوتے ہوئے بھی بیان داغ دیا کہ پلاننگ ڈویژن کے چیئرمین اور دیگر افسروں پر چولستان یا تھرپارکر کے بچوں کے قتل کی ایف آر آئی درج کی جائے تو ان کی شکایت شوکت عزیز جیسے کسی وزیراعظم سے کی جائے گی۔ جوپھر اسحاق خاکوانی کو فون کرے گا کہ آپ نے یہ مطالبہ کیوں کیا ہے؟ اسے واپس لیں۔ اسحاق خاکوانی کی طرح کا باضمیر سیاستدان اس وقت تک بچ گیا تو وہ انکار کر دے گا ۔ شوکت عزیز جیسا کوئی اپنے پریس سیکرٹری کو کہہ کر پریس ریلیز جاری کرے گا کہ اسحاق خاکوانی نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے تو اسحاق خاکوانی جیسا وزیر پھر دوبارہ بیان دے گا کہ مقدمہ درج کیا جائے۔
اس لیے بہتر ہوگا کہ جتنے بچوں نے سندھ میں مرنا تھا‘ وہ مر گئے۔ کون سے وہ ہمارے بچے تھے یا ان مرنے والوں کے والد کے خانے میں کسی وزیراعظم، وزیر یا سرکاری بابو کا نام لکھا ہوا تھا۔ سو‘ ڈیڑھ سو بچوں کے مرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ بچ بھی جاتے تو کیسا مستقبل اور کیسے حالات ان کا مقدر ہوتے ۔ میری طرح آپ سب کو بھی صرف اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے۔ ہم ہر وقت اپنے بچوں کے کارنامے اپنے دوستوں کو سناتے رہتے ہیں۔ ان کی غیر معمولی ذہانت کی کہانیاں ہر دوسرے کالم میں چھپواتے ہیں ۔
اس لیے بہتر ہوگا کہ چولستان کی طرح تھرپارکر کے ان بچوں کو بھی بھول جائیں‘ وگرنہ جو کہانی میں نے اوپر سنائی ہے کہ دس سال قبل تین سو ملین ڈالرز کے قریب لیے گئے خشک سالی کے قرضے کے ساتھ ہمارے حکمرانوں اور بابوئوں نے کیا حشر کیا تھا جس کے پیسے ہم آج تک اتار رہے ہیں ، وہ نیا قرضہ لے کر اسی طرح کی کہانی دہرائیں گے جو میں نے آپ کو ابھی سنائی ہے کیونکہ ہمارے حکمران اور سرکاری بابو عوام کو تکلیف اور بدترین بحران میں دیکھ کر اسے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے موقع میں بدل دیتے ہیں۔ اگر کسی نے عطیہ دیا تو اس کا حشر وہی ہوگا جو سیلاب متاثرین کے لیے ملنے والے پچاس ہزار ڈالرز کا ہوا ہے جو دس ماہ بعد بھی سرکار کے اکائو نٹ میں پڑے ہوئے ہیں کیونکہ سنا ہے ڈالرز سونے کے انڈے دیتے ہیں۔ جس ملک میں ہر سال 48 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہوں اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی 2050ء میں 45 کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہو، وہاں تیس بچے چولستان میں مریں یا ڈیڑھ سو تھرپارکر میں مرجائیں، کیا فرق پڑتا ہے !!
بے رحم صحرا کے قیدیوں کی صدیوں سے ایسی ہی قسمت لکھی گئی ہے ! اب ہر کوئی چنگیز خان تو ہوتا نہیں جو صحرا سے اٹھ کر پوری دنیا سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے چل پڑے!