تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-03-2014

ایک گڑا مردہ اور انتظار حسین کا بیلچہ (آخری قسط)

اب دوبارہ یگانہ کی طرف آتے ہوئے ۔اس نے تو غالب سے باقاعدہ ماتھا لگا رکھا تھا اور مقابلے کی ٹھانی ہوئی تھی جبکہ میرا تو غالب کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ ہی نہیں تھا‘حالانکہ کچھ لوگوں نے یہ سعادت حاصل کی تھی۔مثلاً سلیم احمد کی ایک کتاب کا نام تھا ''غالب کون؟‘‘جبکہ انیس ناگی کی ایک کتاب کا عنوان تھا ‘''غالب‘ ایک اداکار‘‘۔میں غالب کی شاعری سے اختلاف ضرور کرتا رہا ہوں کہ اس کا مجھے حق بھی حاصل تھا لیکن تہذیب کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے۔اس لیے اس کے لیے مجھے شمس الرحمن فاروقی کا سہارالینے کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی؟سہارا البتہ ہمارے دوست اور انتظار حسین کے ممدوح خاص ناصر کاظمی نے میر تقی میر کا لیا اور علی الاعلان لیا‘حتیٰ کہ میر کے حوالے کے بغیر ناصر کا ذکر ممکن ہی نہیں ہے‘اور‘انتظار کے علاوہ شیخ صلاح الدین اور حنیف رامے وغیرہ اس کے خاص مصاحبین میں شامل ہوا کرتے تھے۔لندن کی ایک نشست میں گوپی چند نارنگ نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اگر میر نہ ہوتا تو ناصر کاظمی نہ ہوتا۔موصوف نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ناصر کاظمی نہ ہوتا تو ظفر اقبال بھی نہ ہوتا‘جبکہ یہ خلافِ حقیقت اس لیے بھی ہے کہ ناصر کے ساتھ تو شروع سے ہی میرا اینٹ کھڑکا چل نکلا تھا اس لیے اپنے آپ پر اُس کا سایہ کیسے پڑنے دے سکتا تھا۔لوگ تو اس زمانے میں یہاں تک کہہ رہے تھے کہ ؎
شعر ہوتے ہیں میر کے‘ ناصر
لفظ ہی دائیں بائیں کرتا ہوں
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے ناصر کو ماننے میں کوئی تامّل تھا۔بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میں نے اُسے ''آبِ رواں‘‘ کا مسّودہ دیا اور اس پر دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی جس پر اُس نے یہ کہا کہ میں خوشی سے لکھوں گا۔بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ میں نے تمہار ے اس مصرعے
یہاں بھی ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا
سے دیباچے کا عنوان بھی نکال لیا ہے‘یعنی ''ہم سبو کی تلاش‘‘۔لیکن بعد میں میں نے حنیف رامے کے پرچے ''نصرت‘‘ میں ''میرا بائی کا بہنوئی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ مارا اور یوں دیباچے والی بات آئی گئی ہو گئی۔چنانچہ میری ایسی حرکتوں کو ناصر کے مصاحبین کا یہ جتھہ بھی نوٹ کیا کرتا تھا‘ اس لیے ان کے ہاں بھی ایک طرح کی دلسوزی کا پیدا ہونا قدرتی امر تھا۔غالباً انتظار کو وہ زمانہ ابھی بھولا نہیں ہے حالانکہ بعد میں موصوف نے میری کتاب''عیب و ہُنر‘‘ کا خوبصورت دیباچہ لکھا اور ہمارے تعلقات خاصی حد تک نارمل رہے‘ اور ‘ اب تک چلے آ رہے ہیں۔ناصر کی طرح چونکہ فراق گورکھپوری بھی میرسے براہِ راست متاثر تھا‘ اس لیے یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ناصر نے میر کا اثر براہِ راست نہیں بلکہ فراق کی معرفت لیا ہے۔ فراق میری نظر میں اتنا بڑا شاعر نہیں جتنا کہ گردانا جاتا ہے کیونکہ جس شاعر کے ہاں بھرتی کے اشعار کی کوئی حد ہی نہ ہو‘ وہ بڑا شاعر کہلانے کے قابل نہیں ہو سکتا۔پھر ‘بھارتی نقادوں نے آج تک کُھل کر نہیں بتایا کہ اس کے نوعمر اکلوتے بیٹے نے خودکشی کیوں کی تھی۔ایک بُرا انسان کبھی اچھا شاعر نہیں ہو سکتا۔پھر‘ اس کے ہاں عمدہ اشعار بھی بس گنتی کے ہی نکلتے ہیں۔
سو‘ایک دوسرے سے یہ لین دین جب لاہور میں جاری تھا تو میں اوکاڑہ کے دیہات میں بیٹھا اپنی جان پر کھیل رہا تھا ‘اورفاروقی کے ساتھ تعارف سے بہت پہلے ''آبِ رواں‘‘ اور ''گلافتاب‘‘ شائع ہو چکی تھیں جبکہ مؤخر الذکر کے بارے میں فاروقی کا کہنا تھا کہ دیوانِ غالب کی اشاعت کے بعد یہ تہلکہ خیز ترین کتاب آئی ہے جبکہ جیلانی کا مران ''غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ کے بارے میں کہہ چکے تھے کہ یہ کتاب دیوانِ غالب کے مقابلے پر رکھی جا سکتی ہے۔ اس پس منظر میں مجھے کیا پڑی تھی کہ میں غالب پرہاتھ ڈالنے کے لیے فاروقی یا کسی کا بھی سہارا لیتا۔ اور ‘اوکاڑہ میں رہتے ہوئے میری پی آر جس درجے کی ہو سکتی تھی اِس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔یگانہ کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ خود شاعری کے حوالے سے مفلس و نادار تھا‘ اس لیے اس نے ''غالب شکن‘‘ بن کر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ مجھے ایسی عُسرت کا سامنا‘ الحمدللہ‘ کبھی نہیں رہا۔
پھر‘ جس فاروقی کے ساتھ ایک معمولی بات پر دو سال تک میرا مقاطعہ رہا‘ اس سے غالب کے معاملے میں میری طرف سے کوئی سہارا لینا ویسے بھی نہایت احمقانہ بات ہے۔چلیے ‘ میں نے تو فاروقی کو چڑانے کے لیے ایک دوبار کہیں کہہ دیا کہ اُس نے مجھے غالب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے تو انتظار صاحب نے اس کا چرچا بار بارکرنا بیحد ضروری سمجھا‘ اور اس طرح اس سارے فساد کی جڑ ٹھہرے۔فاروقی کی طرح احمد ندیم قاسمی نے بھی اپنے رسالے میں مجھے بیحد پروموٹ کیا (اور ‘شاید میری وجہ سے اُن کا رسالہ بھی پروموٹ ہوا ہو) لیکن جہاں فنی اور اصولی اختلاف کا موقعہ آیا تو میں نے یہ کام بھی کُھل کر کیا۔لیکن ان دونوں حضرات کے ساتھ میرے اس شعر کے مصداق رابطہ بھی رہا کہ ؎
بندھے ہیں دیر سے دونوں اِسی کے ساتھ ‘ظفر
یہ درمیاں میں جو ٹوٹا ہُوا تعلق ہے
چنانچہ ‘ اب تک ''کی تیسری جلد کی اشاعت کا موقعہ آیا تو میں نے ان سے پس سرورق لکھنے کی درخواست کی جسے قبول کرنے میں انہوں نے ذرا بھی دیر نہ لگائی۔اُدھر فاروقی جلد اوّل کا ایک دھانسو قسم کا دیباچہ لکھ ہی چکے تھے۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نوک جھونک بھی چلتی رہتی ہے اور تعلق بھی برقرار رہتا ہے۔ اس تنازعے کے بعد جب چوتھی جلد شائع ہوئی تو میں نے فاروقی کو بطور خاص بھجوائی‘ جس کے ضمن میں ایک لطیفہ یہ بھی رہا کہ انتظار حسین نے اس کتاب کو ابھی تک در خور اعتناء نہیں سمجھا حالانکہ میں نے انہیں اس دوران ایک بار یاد بھی دلایا کہ وہ میری کتاب ''کھا‘‘ گئے ہیں لیکن انہوں نے اس کی نفی کی لیکن ابھی تک اس پر رائے ظاہر نہیں کی‘ اور‘ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم دونوں کالم نویس بھی ہیں اور کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ موادبھی چاہیے ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے کام لینا ہی پڑتا ہے‘ اور ‘ اگر ایسا نہ کریں تو ہمارا کالم پڑھے گا کون۔ اگرچہ لوگ اس بارے اپنے اپنے اندازے لگاتے رہتے ہیں لیکن اس میں لڑائی بھڑائی کا تو شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ہم ایک دوسرے کے ماننے والے اور ہمعصر ہیں‘ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا،چنانچہ جھوٹ سچ کی کسی حد تک ملاوٹ بھی کرنا پڑتی ہے۔ پھر یہ ایک دوسرے کو یاد کرنے کا ایک بہانہ بھی ہے کہ ملاقات تو بس کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ اس لیے تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیے!
آج کا مقطع
میرے اندر جو کھلا کرتا ہے اِک پھول‘ ظفر
اس کی خوشبو کہیں باہر نہیں جانے والی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved