یہ کالم پروین رحمان کی یاد میں ہے۔ وہی پروین رحمان جو ڈاکٹر اختر حمید خان کی جانشین تھی، اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر ۔ اس پراجیکٹ کو جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے Slump Project کا درجہ حاصل ہے۔
یہ کالم میں 8 مارچ 2014ء کو لکھ رہی ہوں جو خواتین کا عالمی دن ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیمینارز‘ تقریروں اور ٹاک شوز کا سلسلہ گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ میں کل ایک ریڈیو مذاکرے میں شریک تھی جس کا موضوع معاشرتی ترقی میں خواتین کا کردار تھا۔ میرا ذہن بار بار پروین رحمان کی طرف جاتا رہا جو اس دھرتی کی شاندار اور بے مثال عورت تھی۔ جس نے اپنی تمام عمر غربت میں پسے ہوئے ان لوگوں کا بوجھ بانٹتے گزاردی جنہیں دھرتی پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ صلے کی تمنا اور ستائش کی پروا کیے بغیر اپنا کام عبادت سمجھ کرکرتی رہی۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پروین رحمان کا یاد آنا بے معنی نہیں، اس لیے کہ مارچ کے اسی پُربہار مہینے کی 13 تاریخ کو اس کی پہلی برسی ہو گی۔ جی ہاں، گزشتہ برس 8 مارچ 2013ء کو خواتین کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منانے کے ٹھیک 5 دن بعد‘ پروین رحمان کو دفتر سے گھر جاتے ہوئے بہیمانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔22 جنوری 1957ء کو ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمان پروفیشنل آرکیٹیکٹ تھی۔ ہائوس بلڈنگ اور اربن پلاننگ میں جدید تعلیم سے آراستہ
تھی۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کا حصہ بننے سے پہلے وہ بطور آرکیٹیکٹ پُرآسائش اور شاندار زندگی گزار رہی تھی۔ اسّی کی دہائی میں‘ سماجی رہنما اختر حمید خان سے ملاقات پروین کی زندگی میں تبدیلی لائی ۔ اختر حمید خان وہ قابل فخر نام ہے جنہوں نے کراچی کے مضافات میں لاکھوں افراد پر مشتمل غریبوں کی قاعدے قانون کے بغیر بسنے والی بے ہنگم بستی میں رہنے والوں کی زندگی بدلنے کا سوچا۔ یہ بستیاں چونکہ قانون کے دائرے سے باہر آباد ہوتی تھیں اس لیے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ وہاں کی ذمہ داریاںادا کرنے پر راضی نہیں تھی۔ اورنگی کے لاکھوں لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم تھے۔ وہاں سیوریج کا کوئی نظام نہ تھا۔ انسانی غلاظت کے ڈھیر جگہ جگہ تھے جس سے تعفن کی فضا میں سانس لینا دشوار تھا۔ لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار تھے۔ سکول کالج ناپید تھے۔ ڈاکٹر اور ڈسپنسری کا وجود بھی نہیں تھا، لوگ بے روزگار تھے۔ سماجی اور جسمانی بیماریاں دن بدن پھیلتی جا رہی تھیں اور اس پر ظلم یہ کہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ان کا بوجھ بانٹنے اور یہاں اصلاحات کرنے سے انکاری تھی۔ اختر حمید خان نے ان غریبوں کی زندگیاں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ 1980ء میں انہوں نے اس بڑے اور مشکل منصوبے
پر کام کا آغاز کیا اور 1983ء میں اختر حمید خان‘ بانی اورنگی پائلٹ پراجیکٹ نے پروین کو جوائنٹ ڈائریکٹر بنا کر اس عظیم منصوبے کا حصہ بنایا اور اس کے بعد پروین رحمان نے اورنگی ٹائون کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور کچی آبادی کے مکینوں کی زندگیوں میں انقلابی اصلاحات لانے کے لیے دن رات کام کیا۔ کراچی شہر کی آبادی کا تقریباً ساٹھ فیصد ان کچی بستیوں میں رہتا تھا۔ بغیر قاعدے قانون کے بننے والے مکانات میں سیوریج کا نظام تک نہیں تھا۔ 1980ء سے اب تک کی کوششوں کے بعد ساڑھے چھ سو سکول‘ سات سو کلینک اور چھوٹی ڈسپنسریاں قائم ہو چکی ہیں۔ Low cast sanitation پروگرام کے تحت بہترین سیوریج سسٹم بنا دیا گیا ہے۔ پروین رحمان کو دنیا بھر میں Sanitation expert کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ وہ ترقی پذیر ملکوں مثلاً نائیجیریا اور یوگنڈا میں بھی لوانکم ہائوسنگ سوسائٹیز کے حوالے سے ہونے والے منصوبوں میں اپنی ماہرانہ رائے دیتی تھیں۔ اورنگی کی ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی خواتین کو ویمن سیونگ پروگرام کے شاندار منصوبے میں شامل کرنا پروین رحمان کا ایک اور اچھوتا کارنامہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت خواتین کے 42 گروپس بنائے گئے ہیں جن کے ممبران کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے جنہیں چھوٹے قرضے بھی دیئے جاتے ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی اشیاء کو بہتر جگہوں پر فروخت کرنے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ پھر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بچت سکیم کے تحت محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس بچت سے قرضے بھی دیے جاتے ہیں اور کمیونٹی اصلاحات پر پیسے لگائے جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے لوگوں کو اپنے مسائل کا احساس دلا کر انہیں حل کرنے کی ترغیب دینا اس پراجیکٹ کا سب سے اہم مقصد ہے۔ کمیونٹی سروس کے تحت اورنگی کے نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جاتا ہے‘ انہیں روزگارکی تلاش میں آسانی ہوجاتی ہے۔ چھوٹی گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہاں کی ساٹھ فیصد ا ٓبادی سیلف ایمپلائڈ ہے۔ ڈاکٹر اختر حمید کے بعد پروین رحمان جیسی مستقل مزاج اور پُرعزم ڈائریکٹر کی کوششوں سے آج اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کو دنیا بھر میں ایک رول ماڈل کا درجہ حاصل ہے۔ لوانکم ہائوسنگ اینڈ پلاننگ کے حوالے سے دنیا بھر میں اس پراجیکٹ پر ریسرچ کی جاتی ہے۔
2001ء میں پروین رحمان کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے World habitat award سے نوازا گیا۔ اورنگی کے غریبوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے پروین نے جو شاندار کوششیں کیں اور جو لائحہ عمل اختیار کیا‘ اس کی بنیاد پر انہیں انٹرنیشنل واٹر اکیڈیمی اوسلو نے تاحیات ممبر شپ کا اعزاز دیا۔ غریب بستیوں کے مکینوں کے حقوق کے لیے سانولی رنگت اور سادہ سے نقش و نگار والی یہ بہادر خاتون کراچی کے طاقتور لینڈ مافیا کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اپنے آخری پراجیکٹ میں وہ قبضہ ہونے والی زمینوں کو دستاویز کی صورت میں جمع کر رہی تھیں۔ اورنگی ٹائون کی زمین بھی قبضہ مافیا یہاں کے لوگوں سے خالی کرانا چاہتا تھا جس کے سامنے یہ بظاہر کمزور خاتون ایک چٹان کی طرح کھڑی ہو گئی۔ انہیں ہمیشہ دھمکیاں ملتی رہتی تھیں‘ ان کے ورکرز کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا مگر وہ ڈری نہیں۔ 13 مارچ 2013ء کو دفتر سے گھر جاتے ہوئے پروین کو قتل کردیا گیا۔ بعداز مرگ 23 مارچ 2013ء کو حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ شجاعت سے نوازا۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ