تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-03-2014

کاش! ہم قائدؒ کا سبق نہ بھلاتے

(دوسری قسط)

 

بھارت کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا وقت بہت پہلے آ گیا تھا۔ جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا۔ ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنی پالیسی کا تجزیہ کر کے‘ اپنے نفع اور نقصان کو جانچتے۔ اگر جانچ لیتے‘ تو محاذ آرائی کے تباہ کن نتائج ‘ بھیانک شکل میں ہمارے سامنے تھے۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ہمارے لئے خلاف توقع بہتر ثابت ہوا۔ ہمارے پاس سودے بازی کے لئے کچھ نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان ہم دے چکے تھے۔ مغربی پاکستان میں 5ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا اور ہمارے 90ہزار فوجی اور شہری ‘ بھارت کی قید میں تھے۔ سودے بازی کی جاتی‘ تو بھارت کا پلڑا بھاری تھا۔ لیکن ایک بھٹو صاحب کی سیاسی مہارت اور دوسرے مسزاندراگاندھی کی دوراندیشی پر مبنی سوچ کی وجہ سے جو دستاویز شملہ معاہدے کی صورت میں سامنے آئی‘ اسے دیکھ کر ہر کسی نے کہا کہ دستیاب حالات میں اس سے بہتر معاہدہ ممکن نہیں تھا۔ ہمیں اپنا مقبوضہ علاقہ واپس مل گیا۔ شیخ مجیب الرحمن‘ پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسروں کی فہرست تیار کئے بیٹھے‘ بھارت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے۔ شیخ مجیب کی خوشنودی حاصل کرنا بھارت کی اپنی ضرورت تھی ۔ جبکہ ہم سے بھارت کو کوئی غرض نہیں تھی۔ اس کے باوجود بھارت نے ہمارا مطالبہ مان کر تمام قیدیوں کو غیرمشروط طور پر رہا کر دیا۔
شملہ معاہدے کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت عملاً کارگل ہمارے قبضے میں تھا۔ جب شملہ معاہدے کے بعد ہم نے سنبھلتے ہی دوبارہ محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر لیا‘ تو اس کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت نے کارگل کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے سیاچن پر دونوں ملکوں میں سے کسی کی فوج نہیں تھی۔ لیکن عالمی سطح پر کنٹرول ہمارا تصور کیا جاتا تھا۔ تمام غیر ملکی کوہ پیما‘ گلیشیئر پر جانے کے لئے پاکستان سے اجازت لیتے اور ہماری طرف سے ہی کارگل پر پہنچتے۔ یہ پریکٹس برسوں جاری رہی۔ بھارت نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان تعلقات میں بہتری کے عمل کو آگے نہیں بڑھا رہا‘ تو اس نے خاموشی سے سیاچن پر فوجیں بھیج دیں‘ جو قابض ہو کر مستقل طور سے وہاں بیٹھ گئیں۔ اب سیاچن کے بڑے حصے پر بھارت کا فوجی قبضہ ہے اور ہم بھی اپنی فوج جہاں تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکے‘ وہاں اپنی فوج مستقل رکھنے لگے۔ جو گلیشیئر تمام کا تمام مفت میں ہمارے پاس تصور کیا جاتا تھا‘ بھارت اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے دعویدار بن بیٹھا۔ یہ دوسرا خسارہ تھا‘ جو ہمیں دوطرفہ کشیدگی کے سبب اٹھانا پڑا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے دونوں سابق کمانڈر انچیف اعتراف کر چکے ہیں کہ ہمیں زیادہ خطرہ مشرق سے نہیں ‘ داخلی دشمنوں سے ہے۔ ظاہر ہے‘ یہ داخلی دشمن وہ دہشت گرد ہیں‘ جنہوں نے فاٹا میں ہمارے علاقوں پر قبضہ کر کے‘ دہشت گردی کے مراکز قائم کر رکھے ہیں اور ہمارے تمام شہروں میں اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں۔ جہاں سے وہ جب چاہتے ہیں‘ دہشت گردی کی واردات کر دیتے ہیں۔ کراچی ان کی بھتہ وصولی کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اب وہ پنجاب تک پھیل گئے ہیں اور ہمارے دارا لحکو مت میں خفیہ ٹھکانے بناچکے ہیں‘ جہاں سے وہ جی ایچ کیو اور اسلام آباد میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ہمارے حساس دفاعی مراکز پر حملے کر کے‘ قیمتی دفاعی اثاثوں کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔ عوامی شعور آج اس حقیقت کو قبول کر چکا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ کشیدگی اور محاذ آرائی کی پالیسی مزید جاری نہیں رکھنا چاہیے۔ عوام نے اپنی اس رائے کا اظہار گزشتہ انتخابات میں واضح طور سے کر دیا ہے۔ نوازشریف نے انتخابات سے پہلے اپنی خارجہ پالیسی میںبنیادی تبدیلی کا واضح اعلان کر دیا تھا اور انتخابی مہم کے دوران بھی مختلف بیانات اور انٹرویوز میں دہراتے رہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں گے۔ انتخابات میں عوام نے ان کی جماعت کو معقول اکثریت سے کامیاب کر کے‘ اس پالیسی کی توثیق کر دی۔ نوازشریف نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق سلسلہ جنبانی شروع کر دی تھی کہ اچانک رکاوٹیں کھڑی ہونے لگیں ۔ شہبازشریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ رکاوٹیں کیوں پیدا ہو رہی ہیں؟ ہمیں اس سوال پر منتخب ایوانوں‘ میڈیا اور سول سوسائٹی میں کھل کر بحث کرنا چاہیے کہ کیا بھارت کے ساتھ تعلقات پر ہمیں نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا ہم اس پالیسی میں تبدیلیاں کر کے‘ معمول کے تعلقات قائم کریں یا محاذآرائی کی پالیسی جاری رکھیں؟ تعلقات معمول پر لانے میں ہمیں کیا نقصانات ہوں گے؟ اور تعلقات میں بہتری لا کر ہمیں کیا فائدہ پہنچے گا؟ ان دونوں سوالوں کو الٹا کر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ میں اپنی رائے ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا اور وہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ مزید محاذآرائی‘ ہمیں ماضی کی نسبت زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بھارت‘ ہمارے ساتھ کشیدگی کو طول دینے کی قیمت ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر ہم مزید کشیدگی کی قیمت شاید ہی ادا کر پائیں۔ 
بھارت سے بگاڑ جاری رکھنے کی صورت میں‘ ہمیں اپنی تجارت اور معیشت کے لئے برصغیر سے باہر دیکھنا پڑے گا۔ بیرونی منڈیوں میں دوسرے برآمد کنندگان سے ہم قیمتوں اور کوالٹی میں کامیاب مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ ہماری کرپشن نے‘ ہمیں کھوکھلا کر رکھا ہے۔ پاکستان کے برآمدی مال کے غیرمعیاری ہونے کی شکایت عام ہے۔ کئی بار ہمیں جرمانے بھرنا پڑے۔ ہمارے لین دین کی شہرت بھی قابل رشک نہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی برآمد کرتے ہیں‘ اس کے بارے میں ہر جگہ یہی شک کیا جاتا ہے کہ کہیں ہیروئن تو نہیں چھپائی گئی؟ مال اور لین دین پر اعتراضات ختم بھی ہو جائیں‘ تو عالمی تجارت میں سازگار حالات کی
ضرورت اہم ہوتی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ چین اور ترکی کے سوا‘ ہمارے لئے کہیں بھی پرجوش خیرسگالی نہیں پائی جاتی۔ کچھ عرصہ پہلے تک عرب دنیا کے حالات ہمارے حق میں سازگار تھے۔ مگر اب وہاں بھی مقامی جھگڑے اتنا بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں توازن برقرار رکھنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب کا اپنا بلاک بنتا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کی منظم سیاسی طاقت‘ اخوان المسلمون اور قطر کے درمیان ایک نیا اتحاد تشکیل پا رہا ہے۔ عراق‘ شام‘ ایران اور لبنان کی منظم عسکری طاقت علیحدہ گروپ کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ ان ملکوں میں قبائلی عصبیت زیادہ پائی جاتی ہے۔ جب یہ ایک دوسرے پر ناراض ہوتے ہیں‘ تو بول چال تک چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاں آمدورفت پر پابندیاں لگانے لگتے ہیں۔ اپنے اپنے میڈیا کی نگرانی شروع کر دیتے ہیں اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے حریف کے خلاف پالیسیوں میں بدلائو لانے کے مطالبے کرتے ہیں۔ ان ملکوں کے درمیان جس نئی مقابلہ آرائی کا نقشہ بن رہا ہے‘ اس میں ہمارے لئے کیا امکانات ہو سکتے ہیں؟ ہماری خارجہ پالیسی بنانے والوں کی مہارت اور ان کے ریکارڈ کو دیکھا جائے‘ تویہ امید کرنا ممکن ہی نہیں کہ ہم بھارت کی طرح دونوں فریقوں کو مطمئن کر سکیں۔ بھارت اور مصر کے تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اب وہ سعودی عرب کے ساتھ بھی دفاعی معاہدہ کر چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی معیشت اور تجارت میں اس کے گہرے اثرات ہیں۔ امارات کی بینکنگ اور انشورنس میں بھارتیوں کا غلبہ ہے۔ شرق اوسط سے نکلیں‘ تو روس اور اس کے حلیفوں کے ساتھ ہمارے دکھاوے کے تعلقات بھی موجود نہیں ہیں۔تجارت اور تعاون تو بہت دور کی بات ہے۔ یورپ اور امریکہ سیاسی اور سٹریٹجک ساتھی ہیں۔ لیکن تجارت میں مفادات کو اہمیت حاصل ہے۔ امریکہ روس کے ساتھ بائیکاٹ کی پالیسی بھی اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن یورپ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح دیگر ملکوں کی تجارتی اور مالیاتی ترجیحات ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان کو یہاں بھی امتیازی پوزیشن حاصل نہیں۔ مثلاً امریکہ اگر ہم پر کسی بھی نوعیت کی پابندیاں لگاتا ہے‘ تو یورپ اس کا ساتھ دے گا۔ کیونکہ ہمارے ساتھ لین دین معطل کرنے پر ان کا کوئی نقصان نہیں۔ جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے پاک بھارت تجارت کا باہمی انحصار فطری ہے۔ ان کی ضرورت کی چیزیں ہمارے پاس ہیں اور ہماری ضرورت کی ان کے پاس۔ ہماری باہمی تجارت میں نقل و حمل کے اخراجات برائے نام ہیں۔ جہازراں کمپنیوں کے کرائے نکال کر‘ ہمارے بیشتر درآمدی مال کی قیمتوں میں 10 سے 20فیصد کمی فوراً آ سکتی ہے۔ ہمیں اپنے ذہن سے یہ ڈر بھی نکال دینا چاہیے کہ بھارت ہم سے نیپال یا بنگلہ دیش جیسا سلوک کر سکتا ہے۔ ہم اسے شمال اور یورپ کے لئے تجارتی رابطے فراہم کرنے کے اہل ہیں‘ جن سے وہ بہت فائدہ اٹھائے گا۔ خود ہمارے معدنی ذخائر بھارتی معیشت کو بھاری فائدے پہنچا سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ بھارت اپنی فوجی طاقت سے ہمیں مرعوب نہیں کر پائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے۔ (جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved