تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     11-03-2014

لندن میں وائیکنگ نسل پر نمائش

دُنیا میں بڑے عجائب گھروں کی تعدادکم نہیں۔رُوس کے تاریخی شہرسینٹ پیٹرزبرگ سے لے کروی آنا، پیرس، لندن اور نیویارک تک ان سے مزین ہیں۔ ہمارے ایک محاورے کے مطابق لندن کے دل میں واقع برٹش میوزیم کو ماتھے پرجھومرکی طرح منفرد مقام حاصل ہے۔ تین سال پہلے اسی میوزیم نے حج کی تاریخ اور جغرافیہ پر ایک یادگار نمائش کا اہتمام کیا تھا۔ میں اور میری بیوی بھی اسے دیکھنے گئے اور دل ہی دل میں دُعا مانگی کہ حج کی تصاویر اور ماڈل دیکھنے کی رُوحانی خوشی اپنی جگہ، مگر کیا ہی اچھا ہوکہ ہمیں حج کی سعادت بھی نصیب ہو اور ہم اپنی آنکھوں سے ان مقامات کی زیارت کریں، جن کی ہم ساری عمر تصاویر دیکھتے آئے ہیں۔ اگلے ہی برس ہماری دُعا پوری ہوگئی۔ یہ ہوتاہے صدقِ دل سے دُعا مانگنے کا نتیجہ۔ بقول فیضؔ اگر ہم رسم دُعا ہی بھول جائیں تو وہ قبول کیونکر ہوگی؟
اب برطانیہ میں جس نمائش کا چرچا ہے اور برطانوی اخبارات اُس کے تبصروں سے بھرے ہوئے ہیں، وہ ایک قدیم وحشی اور خونخوار اور مار دھاڑ کرنے والے جنگجو قبیلے وائیکنگز (Vikings) کے بارے میں ہے۔ نمائش میں داخلے کے تقریباً تمام ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیںاور لگتا ہے کہ آپ کا کالم نگار یہ نمائش دیکھنے سے محروم رہ جائے گا۔ یہ قبیلہ برطانیہ پرکئی بار حملہ آور ہوا اور بہت سی بستیوں کی تباہی وبربادی کا باعث بنا مگر کچھ حملہ آوروںکو برطانیہ اتنا پسند آیاکہ وہ اسی جزیرے میں مستقل طور پر آبادہوگئے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ جس شخص کا نام بھی By پر یا اُس کی بستی کا نام Ness پر ختم ہوتا ہے یا وہ اپنی دادی کو Daleاور قریبی پہاڑی کو Fell کہتا ہے، وہ یقینی طور پر Vikings کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔انگریزی زبان میں حملہ آوروں نے بھی کئی الفاظ کا اضافہ کیا۔مثلاًNiggardlyکا لفظ حملہ آوروں کی زبان میں کنجوس کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
Vikings کا تعلق سیکنڈ ے نیویا سے تھا۔ یہ وہ خطہ ہے جو ان دنوں ناروے ، سویڈن ، فن لینڈ اور ڈنمارک کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ وہ فن جہازرانی کے ماہر تھے ، تجارت کرتے تھے ، نئے ممالک دریافت کرتے تھے ، سمندروں میں آنے والے طوفانوںسے ڈرتے تھے نہ تمام ان دیکھی بلائوں سے۔ وہ ہمت اورجرأت کے پیکر تھے اور تمام مردانہ خوبیوں کا مجسمہ ۔ تاریخ کا وہ دور جس میں اس قبیلے نے انسانی تاریخ کو بے گناہوں کے خون سے لکھا آٹھویں صدی سے شروع ہوکر بارہویں صدی میں ختم ہوا۔ پورے پانچ سو سال وہ بلا شرکت غیرے اور بلا روک ٹوک مغربی دُنیا کے سمندروں میں دندناتے پھرے۔ بیک وقت چار براعظم ان کی دسترس میں تھے۔ بقول اقبالؔ صحرا ہوں کہ دریا، اُن کے بال وپرکے نیچے تھے۔ اقبالؔ نے تو یہ شعر شاہین کے بارے میں لکھا تھا جو اُڑتا ہے، لیکن Vikings کی بڑی بڑی تیز رفتارکشتیاں شارک مچھلیوں کی طرح ہر بحر ظلمات کو بے خوفی سے عبور کر کے ساحلوں پرآباد بستیوں کی زندگی کو موت میں تبدیل کردینے میں مہارت رکھتی تھیں۔ اُن کا نام خوف اور بربریت کے مترادف تھا ، وہ رحم کے مفہوم ہی سے ناواقف تھے۔ سمندروں اور بحری گزرگاہوں پراُن کی اجارہ داری پانچ سو سال تک قائم رہی۔
اُنہوں نے جدید روس کی پہلی ریاست کی بنیاد رکھی۔ یوکرائن کے موجودہ دارالحکومت کیف(Kiev) کو آباد کیا۔ اُن کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد نسل در نسل قسطنطنیہ میں بازنطینی بادشاہوں کے باڈی گارڈ بنے۔آئرلینڈکا دارالحکومت ڈبلن بھی اُن کی آبادکاری سے دُنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ وہ فرانس کے مغربی ساحل پرنارمنڈی کے علاقے میں آباد ہوئے اور وہاں سے نارمن قبیلے کے نئے نام کے تحت انگلستان ، اٹلی ، ویلز، آئرلینڈ اور شام کو فتح کیا۔ اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ نارمن حملہ آوروں کی جارحیت کے مقابلے اور مزاحمت کے دوران برطانیہ میںآباد مختلف قبائل ایک قوم کی صورت میں ڈھل گئے۔ یہی مزاحمت ایک برطانوی بادشاہ الفریڈ کے نام کے ساتھ عظیم (Great)کے اضافے کا موجب اور جواز بنی۔ حملہ آور خود لامذہب تھے اس لیے اُنہوں نے گرجا گھروں کو لوٹنے اور پادریوں کے قتل عام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حملہ آوروں نے وحشت اور بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بربریت کے میدان میں چنگیز خان ، ہلاکو خان یا نادر شاہ سے بڑھ کر تھے یا ہم پلہ تھے تاہم کم تر تو ہرگز نہ تھے۔
مورخین بتاتے ہیں کہ وہ جہاز سازی اور دھاتوں کے استعمال کے ساتھ فنون لطیفہ (شاعری، داستان گوئی اور بازاری ڈراموں)پرعبور رکھتے تھے۔اُنیسویں صدی کے تاریخ دانوں نے ان حملہ آوروں کی قلمی تصویر بنوائی تو اُن کے وحشیانہ اور شیطانی کردارکو نمایاں کرنے کے لیے اُن کے سروں پر پہنے جانے والے آہنی خود پردو سینگوں کا اضافہ بھی کردیا۔ ہالی وڈ کے فلم سازیہ سنہری موقع کیسے گنواتے؟ اُنہوں نے اس قبیلے کی چیرہ دستیوں پرکئی فلمیں بنائیں جن میں Kirk Dougla جیسے مشہور اداکاروں نے سنگ دل بادشاہ کا کردار ادا کیا جو زندگی کے آخری لمحات میں اپنے گناہوں سے توبہ کر کے نیکی سے پہلی بار متعارف ہوتا ہے۔ 
عصرحاضر کے مورخین نے Vikingsکے تاریخی کردار پر نظر ثانی کرتے ہوئے بتایاکہ وہ صرف بحری قذاق نہ تھے بلکہ تاجر،آباد کاراور نئی دُنیائیں دریافت کرنے والے مہم جُو بھی تھے۔ اُنہوں نے کئی شہر آباد کیے، زیر کاشت علاقوں میں کئی گنااضافہ کیا اوربین الاقوامی تجارت کے اوّلین خطوط مرتب کیے۔ بقول اقبالؔ ان وحشی حملہ آوروںکا پہلا اُصول یہ تھا: ہر نئی تعمیرکو تخریب لازم ہے۔ تمام دُوسرے سامان کے علاوہ یہ لوگ غلاموں کی بطور جنس تجارت کرتے تھے۔آٹھویں صدی سے لے کر بارہویں صدی تک یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھااورامریکہ ابھی پتھرکے دور میں سے نہ نکلا تھا مگر عرب دُنیا تہذیب و تمدن کے عروج پر تھی۔ اس وقت کے سیکنڈے نیویا کی پوری آبادی آسانی سے بغداد میں سما جاتی۔وائیکنگ قبیلے کے لوگ روزمرہ استعمال کی جو چیزیں استعمال کرتے تھے اب ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ صدیوں تک اُن کے زیراستعمال جہازصرف انسانی تخیل میں تیرتے تھے، مگر 1996ء میں ایک عجب شے اتفاقاً منظرعام پرآئی ، یہ ایک وائیکنگ جہازکا ڈھانچہ تھا جو ڈنمارک میں ملا۔ لمبائی سو فٹ سے زیادہ تھی جس میں بادبان بھی تھے اور سینکڑوں ملاحوں کے چپو چلانے کاانتظام بھی تھا۔ ایک ہزارسال تک شاہراہ ریشم کے ذریعے مغربی یورپ کے ممالک ، وسط ایشیاء اور چین سے تجارت کرتے تھے، اس تجارت پرعربوں کا تسلط اور عملداری تھی۔ دور قدیم کی بستیوں سے برآمد ہونے والے ہزار سال پرانے سکوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔وائیکنگز خود تو لامذہب یعنی Pagan تھے مگر ان کے سکوں پر یہ الفاظ کندہ تھے۔۔۔۔۔''اللہ کے سوا اورکوئی معبود نہیں‘‘۔ اور یہ الفاظ عربی زبان میں کندہ کئے جاتے تھے یعنی لا الہ الا اللہ ۔
اس کالم نگار کی قسمت اچھی ہوئی تو برٹش میوزیم میں ہونے والی نمائش کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ نمائش پر ماہرین نے جو عالمانہ تبصرے کیے ہیں اور جو اخبارات اور رسائل نے شائع کیے ہیں وہ ان چھ چیزوں کونمایاں کرتے ہیں۔ اوّل:آفاقیت (Globalization)کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ دوم: قوموں کو قریب لانے اور ٹیکنالوجی (صنعت و حرفت) کا کلیدی کردار۔ سوم: قومی شناخت کی تشکیل اوراظہار میں فیشن کا مقام۔ چہارم: زبان یا رنگ و نسل سے بالا تر ہوکر اشیائے فروخت کی یہ خصوصیت کہ وہ اپنے صارفین کو ایک وحدت بنا دیتی ہیں۔ پنجم: روس کے ساتھ اچھے تعلقات کے فوائد۔ ششم: مغرب کی نظر میں اسلام کے احترام کی ضرورت۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved