کشیدگی میں جنگ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘ جبکہ امن اور تعاون کی صورت میں جنگ کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً جنگ کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت‘ دونوں ہی کسی فائدے اور سہولت سے محروم نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے درمیان نہ کوئی تجارت ہے اور نہ ہم ایک دوسرے کے زمینی راستوں سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔ہمارے راستوں کو استعمال کر کے‘ بھارت کے فائدے‘ ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہوں گے۔ اگر اسے یہ فائدے حاصل کرنے کی سہولت مل جائے‘ تو وہ کسی بھی طرح کی کشیدگی پیدا ہونے پر‘ اسے ختم کرنے کی طرف توجہ دے گا اور ایسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرے گا‘ جس میں وہ بڑے فوائد سے محروم ہو جائے۔ اس طرح اور بہت سی چیزیں ہیں‘ جن سے باہمی سودے بازی کے لئے پاکستان کا پلڑا بھاری رہے گا۔ کئی چیزوں میں بھارت ہم سے زیادہ فائدہ اٹھائے گا اور شاید اس سے زیادہ فائدہ ہم اٹھائیں گے‘ مگر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انحصارِ باہمی ہم دونوں کو امن اور استحکام کو تحفظ دینے اور اسے برقرار رکھنے پر مجبور کرے گا۔ اس وقت جو امن موجود ہے‘ اس سے محرومی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی‘ ماسوائے جنگی نقصانات کے۔ لیکن جو امن ثمر آور ہو گا‘ اسے برقرار رکھنا دونوں کی مجبوری بن سکتا ہے۔موجودہ صورتحال میں ہماری سودے بازی کی پوزیشن تادیر برقرار نہیں رہے گی۔ شمال مغرب میں تجارتی رسائی کے دیگر ذرائع پیدا کرنے سے ہم بھارت کو زیادہ عرصے تک نہیں روک سکیں گے۔ ایک دوسرے کو سہولتیں پہنچانے کی ہماری طاقت‘ ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال نیا بھارتی منصوبہ ہے‘ جس کی تفصیل پڑھنے کے بعد میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔ اس منصوبے کے تحت بھارت ‘ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو وسطی ایشیا میں داخلے کا ذریعہ بنانے کے انتظامات کر رہا ہے۔ ایک انٹرنیشنل نجی کمپنی اس بندرگاہ پر بڑے پیمانے کی سہولتیں فراہم کرنے کا انفراسٹرکچر تعمیر کرے گی۔بھارت کے پاس کنٹینرز کی آمدورفت کے لئے پنڈت جواہرلعل نہرو پورٹ ہے۔ گجرات میں ایک دوسری بہت بڑی کارگو پورٹ موجود ہے۔ ان دونوں بندرگاہوں کی اتھارٹیز مل کر ‘ ایرانی بندرگاہ کی زمینی سہولتوں کے لئے‘ بہت بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تعمیر کریں گی۔ ایران چاہ بہار کو درآمد و برآمد کا ایک عظیم تجارتی مرکز بنانا چاہتا ہے۔ انفراسٹرکچر تعمیر ہونے پر ایران‘ اس بندرگاہ سے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ تک‘ ایک کاریڈور تعمیر کر دے گا۔اس منصوبے سے بھارت‘ پاکستان کو بائی پاس کر کے‘ سنٹرل ایشیا تک پہنچ جائے گا۔بھارت وسطی ایشیا کی ریاستوں میں پورا تجارتی انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کے قیمتی مواقع دیکھ رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے راستے ماضی کی نسبت کافی غیرمحفوظ ہو چکے ہیں۔ ایران ‘ بھارت کی اس ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنے ملک میں انٹرنیشنل زمینی تجارت کے لئے مطلوبہ انفراسٹرکچر تعمیر
کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ اس طرح دونوں کی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ بھارت ‘ وسطی ایشیا اور یورپ کے ساتھ تجارت کے زمینی راستے لینے کے علاوہ ‘افغانستان کے ساتھ تجارتی رابطوںکی سہولت اور سٹریٹجک موجودگی حاصل کر لے گا۔ ایران کے نئے انفراسٹرکچر میں امریکی مفادات کے لئے بھی لامحدود گنجائش پیدا ہو گی۔ افغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی محض ایک متھ ہے۔ امریکہ اسٹریٹجک پوزیشن کو آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔ افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کے زمینی انفراسٹرکچر پر مکمل اعتماد نہیں رہ گیا۔ وہ جلد ازجلد متبادل انتظام کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ امریکہ شرق اوسط میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور بادشاہوں اور امارات کے حکمرانوں کا مخدوش مستقبل دیکھتے ہوئے‘ ایران کے ساتھ معاندانہ تعلقات میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ خصوصاً وہ عراق میں ایرانی مداخلت پر فکرمند ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی صورت میں وہ افغانستان سے وسطی ایشیا اور ایران کی مدد سے ‘عراق کے ساتھ رابطوں کے نئے امکانات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے اندر بدامنی کی وجہ سے امریکہ‘ ایران کے ذریعے سنٹرل ایشیا میں پہنچنے کے امکانات سے مایوس ہو چکا تھا۔ جیسے ہی ایران میں نئی حکومت قائم ہونے کے بعد صدر روحانی نے‘ امریکہ سے رابطے کئے‘ تو بھارت کی بجھی ہوئی امیدیں تازہ ہو گئیں اور وہ بھی چاہ بہار کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے سرگرم ہو گیا ہے۔ خطے میں مشترکہ مفادات کا نیا ڈھانچہ‘ سٹریٹجک تعاون کی نئی ضرورتیں اور نئے سٹیک ہولڈرز پیدا کرے گا‘ جس میں روس اور بھارت کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات بھی شامل ہو جائیں گے۔ دہلی اور واشنگٹن میں پہلے ہی سے سٹریٹجک تعاون موجود ہے۔ وہ دونوں خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ جب وسطی ایشیا اور شرق اوسط میں باہمی تعاون کا نیا انتظام وجود میں آئے گا‘ توخیال کیا جا رہا ہے کہ چین‘ گوادر کی بندرگاہ پر سہولتوں میں اضافہ کر کے‘ بحرہند میں اپنی موجودگی یقینی بنائے گا اور اسے روکنے کے لئے امریکہ اور بھارت پہلے ہی سے منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔ نیا انتظام وجود میں آ گیا تو پاکستان کی وہ اہمیت باقی نہیں رہے گی‘ جو اس وقت اسے حاصل ہے۔ پاکستان اگر چاہے‘ تواس نئے انتظام کا حصہ بن کر کلیدی حیثیت حاصل کر سکتا ہے اور ایسا صرف وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاندانہ تعلق کو باہمی تعاون میں بدل کے کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں بھارت کے لئے‘ پاکستان میں دستیاب سہولتوں کو برقرار رکھنے کی ضرورت بڑھ جائے گی اور اسی تناسب سے کشیدگی غیرنفع بخش چوائس ہو گی۔ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چاہ بہار کا راستہ اختیار کرنے کے لئے اسے بھاری اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے بھی اور راستوں کی طوالت کی وجہ سے بھی۔ آج پاکستان کے نزدیکی راستے‘ بھارت کے لئے انتہائی اہم ہیں اور ہمارے لئے یہ موقع ہے کہ ہم بہتر شرائط پر باہمی تعلقات بحال کر لیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس چوائس کی افادیت گھٹتی چلی جائے گی اور اگر نیا انفراسٹرکچر تعمیر ہو گیا‘ تو اس کی بنیاد پر تیار ہونے والے نیٹ ورک کی افادیت کی اپنی ایک قدر بن جائے گی‘ جو راستوں کی طوالت سے بڑھنے والے اخراجات کی تلافی کا ذریعہ بن کر ‘ پاکستان کے مختصر راستوں کی افادیت بھی کم کر دے گی۔
ہمارے لئے وقت کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی سال کے اندر امریکہ‘ افغانستان سے افواج کو واپس لے جائے گا لیکن اس کے مفادات اور دلچسپی یہاں سے ختم نہیں ہو گی۔ وہ جنگی مقاصد کے لئے افرادی قوت کی ضرورت سے آزاد ہو چکا ہے اور اس نے فوجوں کے بغیر جنگ چھیڑنے اور لڑنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اگر افغانستان میں طالبان نے جنگی سرگرمیاں بڑھا دیں‘ تو امریکی روبوٹ میدان میں آ جائیں گے اورہو سکتا ہے نئی طرز کی جنگ کا پہلا تجربہ وہیں پہ شروع ہو جائے۔ امریکہ نے اپنی فوجوں کی تعداد میں کمی کر کے‘ مستقبل کا سگنل دے دیا ہے۔ پاکستان نے بات چیت یا ملٹری آپریشن کے ذریعے داخلی امن قائم کرنے کا مستحکم ارادہ کر کے انتہائی اہم فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت بظاہر جو تذبذب نظر آ رہا ہے اگر وہ چند روز میں ختم ہو گیا‘ تو دہشت گردی کے خلاف عملی اقدام کرتے ہی‘ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور تعاون کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔ ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ ڈیڑھ دو سال گزر گئے‘ تو پھر حالات کے تیور بدل جائیں گے۔ نئی تبدیلیوں کا جو عمل شروع ہونے جا رہا ہے‘ اس کی نئی شکل جلد ہی تیار ہو جائے گی اور اس کے بعد رنگوں میں تھوڑی بہت تبدیلی کے سوا اور کچھ نہیں کیا جا سکے گا۔ چیزیں عدم سے وجود میں آنے کے بعد‘ اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر مستقل حیثیت حاصل کرلیتی ہیں۔ہمارے لئے کسی بھی علاقائی تنظیم میں شامل ہونے کے مواقع شاید باقی ہی نہ رہیں۔ کیونکہ نیا انتظام معرض وجود میں آ گیا‘ تو بھارت ہمارے علاقے کی ہر تنظیم پر حاوی ہو جائے گا اور ہمارا اس میں داخل ہونا مشکل سے‘ مشکل تر ہوتا جائے گا۔ ابھی ہم اپنے خطے کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم کے بانیوں میں شامل ہو کر‘ اچھی اور موثر پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ موقع نکل گیا‘ تو ہمارے پاس صرف چین رہ جائے گا یا اس کا اتحادی شمالی کوریا۔ قائد اعظمؒ کے تصور میں ایسا پاکستان کبھی نہیں رہا ہو گا۔ عالمی بے رخی کا ہدف اور تنہائی کا قیدی۔ (ختم شد)