شہر مقتل گاہیں کیسے بن جاتے ہیں۔ یوں تو کسی بہت بڑے شہر میں اس بات کے امکانات موجود ہوتے ہیں کہ وہ جرائم کی آماج گاہ بن جائے‘ اس لیے کہ بڑے شہر لاکھوں اجنبیوں کے ہجوم ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے شہر، دیہات اور قصبوں میں انسان دھاگے کی وہ تاریں ہوتی ہیں جو مضبوط کپڑے کی طرح آپس میں بُنی ہوتی ہیں۔ پورے معاشرے کا ایک سوشل کنٹرول سسٹم ہوتا ہے جس میں جرم اور مجرم کو پناہ نہیں ملتی۔ یہ دونوں اس وقت پھلتے پھولتے ہیں جب انہیں افرادی قوت زیادہ میسر آ جائے یا پھر اسلحہ کی بہتات اور انتظامیہ کی آشیرباد ان کے ساتھ ہو۔ لیکن بڑے شہروں کا معاملہ ہی مختلف ہوتا ہے‘ وہاں کون، کب اور کیسے آ کر آباد ہوا، کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ نہ کوئی کسی کے آبائواجداد کو جانتا ہوتا ہے اور نہ ہی کسب معاش کو۔ ایک واجبی سا تعلق اور وہ بھی کسی ضرورت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں امن اور سکون دو وجہ سے قائم اور مستحکم ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی آبادی کو منظم طریقے سے بڑھایا جائے اور کسی اصول اور ضابطے کے تحت توسیع دی جائے جبکہ دوسرا‘ ایک ایسی انتظامیہ جو انصاف فراہم کرنے کے معاملے میں بے داغ ہو۔ اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انصاف عدالت سے ملتا ہے۔ عدالت تو اس وقت سامنے آتی ہے جب انصاف کا قتل ہو جائے۔ انصاف، تھانے، پٹوار خانے‘ ٹیکس کے دفتر، واپڈا، واسا اور دیگر مقامات پر ملتا ہے جہاں انسانوں کو روز اپنے مسائل اور ضروریات کے حوالے سے سابقہ پڑتا ہے۔ انہی دفاتر پر انصاف ملتا ہے اور یہیں انصاف کا قتل بھی ہوتا ہے‘ لیکن اس مملکتِ خداداد پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں انصاف بھی زبان، نسل، سیاسی گروہ کے رشتے اور توسط سے ملتا ہے یا پھر سرمائے کے بل بوتے پر۔ کراچی شہر میں شدت پسندی کی بنیادیں خاصی گہری ہیں۔ ایک غیر مربوط اور بغیر منصوبے سے آباد ہونے والا انسانوں کا جنگل اور اس پر انصاف کی فراہمی سے انکار۔ لوگوں کو جب علم بلکہ یقین ہو جائے کہ ان کے کام کسی زبان، مسلک، عقیدے یا سیاسی گروہ کے حوالے سے ہوتے ہیں تو پھر یہ گروہ مضبوط ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد سے اس شہر اور پاکستان کی بیوروکریسی میں اُردو بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ انصاف کی روایت تھی نہیں اس لیے ان کو اس زبان کے تعلق نے مراعات یافتہ طبقہ ہونے کا احساس دلا دیا‘ لیکن 1970ء کے انتخابات کے بعد جب سندھی بولنے والوں نے اسی راستے پر چلنے کی کوشش کی جو اُردو بولنے والی اکثریت کا تھا‘ تو تصادم کا آغاز ہوا۔ سالوں کا غصہ پورے کراچی کو دو گروہوں میں تقسیم کر گیا۔ اس کا مداوا تو اسی طرح ممکن تھا کہ ہر سطح پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے لیکن اس کی فکر کس کو تھی۔ پورا ڈھانچہ بددیانت اور بے انصاف ہو چکا تھا۔ شہر بڑھتا گیا، نہ انسانوں کی آمد کا کوئی حساب اور نہ کوئی معاشرتی کنٹرول۔ بددیانتی اور بے انصافی میں صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ طاقت کا حصول اور بے پناہ طاقت کا حصول تاکہ اپنے گروہ، مسلک اور لسانی گروپ کی بات منوائی جا سکے۔ جرم پہلے انفرادی ہوتا ہے‘ پھر گروہی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اسے سب کی مشترکہ حمایت اور سرپرستی حاصل ہونے لگتی ہے۔ دنیا بھر کے مافیا اسی طرح وجود میں آئے۔
پشتون علاقے میں پشتون قومیت کی نظریاتی بنیاد عرصہ دراز سے موجود تھی۔ اس کی جڑیں مغلیہ دور میں لڑائیوں، سکھوں کے بر سر اقتدار آنے اور انگریزوں کی بالادستی کی کوششوں میں موجود تھیں۔ انگریزوں کی افغانستان میں عبرتناک شکست نے پشتون غرور میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پاکستان کے اسلامی نظریے کے مقابلے میں بھی اس قوم پرستی کو
بالقصد آگے بڑھایا گیا‘ لیکن روس کے افغانستان پر حملے نے اس خطے میں قوم پرستی کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ وہ جو عمر بھر قوم پرستی کا نعرہ بلند کرتے تھے، افغانستان پر روس کے حملے کے بعد روس کے حمایتی بن گئے اور مزاحمت کی علم بردار ایک عالمی اسلامی مزاحمتی سوچ بن گئی۔ اس سوچ نے پشتون علاقوں میں امتِ مسلمہ کے ان تمام سرگرم کارکنوں کو جمع کر دیا جو ملتِ اسلامیہ کو ایک جسم و جان سمجھتے تھے۔ مدتوں پشتون قوم پرستی کا نعرہ بلند کرنے والے عالمی سیاست کی بھول بھلیوں میں الجھ گئے اور امریکہ روس کی لڑائی میں بھول گئے کہ اسلام کے نعرے کی جذباتیت اس میدانِ جنگ کو کہاں لے جائے گی۔ روس کی شکست کے بعد افغان جہادی گروہوں کی خانہ جنگی نے اس معاملے کو اور الجھا دیا۔ کہیں کہیں پشتون، تاجک اور ازبک قومیت کے شاخسانے ابھرنے لگے لیکن کئی سال کی خانہ جنگی اور قتل و غارت سے تنگ آئی ہوئی افغان قوم کو طالبان کے اقتدار کی صورت ایک پُرامن دور میسر آ گیا۔ اس دور کی ٹھنڈی ہوا ملحق پاکستانی علاقوں کو آنے لگی تو لوگ اپنے مقدمے لے کر طالبان کی عدالتوں میں جا پہنچے اور وہیں سے فیصلے کروانے لگے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں عدل کی فراہمی کا نظام اور پولیس کا ماحول اس قدر بوسیدہ ہو چکا تھا کہ اس کے سامنے کسی بھی فوری اور درست انصاف کرنے والے گروہ کا چراغ جلنا بہت ہی آسان تھا۔ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں سے لے بلوچستان کے علاقے ژوب تک لوگوں میں یہ تاثر ابھرنے لگا کہ ایک متبادل نظام موجود ہے جو فوری انصاف مہیا کرتا ہے۔ اس تاثر نے ایک بہت بڑی آبادی کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔
موجودہ دور کا ماڈرن لائف سٹائل اور اس کی آزادیاں پشتون معاشرے کا کبھی مسئلہ نہیں رہیں۔ وہ تو اپنی روایات میں بندھے سادہ زندگی گزارنے کے عادی لوگ تھے۔ حجاب اور برقعہ ان کی اجتماعی زندگی کا حصہ تھا، نماز روزہ ان کی روایات میں شامل اور حصول دین کی خاطر کسی مدرسے کا طالب علم ان کے شادی کے گیتوں کا ہیرو تھا۔'' تورہ طالبازے ناجوڑیم‘‘ ( اے کالے طالب میں بیمار ہوں)۔ یہ شادی کے گیتوں کا ایک مصرعہ ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ طالب پشتون معاشرے میں کس قدر اثر رکھتا ہے۔ پشتونوں نے تو کئی دہائیاں بدامنی کی دیکھی تھیں اور کئی سو سال ان کے ہاں عدالتی انصاف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ البتہ جرگے ان کے جھگڑوں کے فیصلے کرتے تھے۔ اس اچانک تبدیلی نے ان کے اندر ایک خواب زندہ کیا کہ انصاف اور امن و امان اتنی آسانی سے بھی قائم ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی اس لڑائی نے پاکستان میں بھی ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جو ریاستوں کی سرحدوں کی بجائے پوری امتِ مسلمہ پر یقین رکھنے لگا۔ اس طرح مزاحمت کو ایک عالمی تحریکِ کا درجہ ملتا گیا۔ اس سارے ماحول میں گیارہ ستمبر اور افغانستان پر امریکی حملہ ہو گیا۔ بدقسمتی سے اس زمانے میں پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستان کے گزشتہ بیس سالہ مؤقف سے بالکل برعکس امریکہ کا اس طرح ساتھ دیا کہ مختصر سی جنگ میں ستاون ہزار دفعہ جہاز پاکستان ہوائی اڈوں سے اڑے اور افغانوں پر بم برساتے رہے۔ ایسے تمام لوگ جو پوری دنیا سے اس مظلوم قوم کی مدد کرنے آئے تھے انہیں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ اس دوران پاکستان کی سرحدوں کو مقدس بنانے کے لیے ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ لیکن شاید اس کے مقابلے میں پوری امت کی سوچ رکھنے والوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد پیدا ہو چکی تھی۔ پاکستان اپنے آغاز سے ہی ایک نظریاتی بحث کا شکار تھا۔ اس ملک میں ایک وسیع آبادی اسلامی قوانین کے نفاذ کو ملک کی وجہ تخلیق سمجھتی تھی اور قوم کی واضح اکثریت ان تمام مغربی اخلاقیات سے متنفر تھی اور اُسے اپنی ثقافت پر حملہ تصور کرتی تھی۔ ایسے میں زبردستی مغربی اخلاقیات‘ میڈیا کے ذریعے اور سرکاری سرپرستی میں اس ملک پر تھوپنے کی کوشش کی گئی۔ یوں ایک سلگتی ہوئی نفرت نے پورے ملک کی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک وہ جو ترقی کے نام پر مغربی لائف سٹائل چاہتے تھے اور دوسرے وہ جو اپنے گھروں پر ثقافتی حملوں کی یلغار سے خوفزدہ تھے۔ اس نفرت کے پودے کو دو چیزوں نے ہوا دی‘ ایک انصاف کی عدم فراہمی اور دوسرا امن و امان کی خرابی۔ جس ملک میں گلگت سے لے کر گوادر تک ہر پولیس سٹیشن بھتہ خور گروہ کے ''دفتر‘‘ کا درجہ رکھتا ہو اور وہ ہر جائز اور ناجائز کاروبار کرنے والے سے ماہانہ وصول کرتے ہوں‘ جہاں کسی بھی دفتر میں بغیر بھتے کے کام نہ ہوتا ہو‘ جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو بلاوجہ اٹھا کر لے جائیں‘ ان پر مقدمے بنائیں اور مقدمہ خارج کرنے کے لیے بھتہ وصول کریں‘ جہاں آپ کو احساس ہو کہ ریاست آپ کا تحفظ نہیں کرے گی‘ بلکہ آپ فلاں لسانی گروہ، فلاں سیاسی پارٹی یا فلاں مسلک سے تعلق رکھیں گے تو آپ کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہو گا‘ تو ایسے ملک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے پودے کو نہ کوئی پھلنے پھولنے سے روک سکتا ہے اور نہ کوئی طاقت اس کا سر کچل سکتی ہے۔