رحیم یار خان سے پنجاب کی طرف آنے والی تین گیس پائپ لائنوں کو بم دھماکوں سے تباہ کرنے والوں نے لاکھوں چولہوں اور سینکڑوں صنعتوں کو اڑتالیس گھنٹے سے بھی زیا دہ عرصہ کیلئے ''لاپتہ‘‘ کر دیا۔ اس تخریبی کارروائی میں غریب کسانوں کی پچاس سے زائد گائے بھینسوں کے علا وہ ایک عورت کو بھی لا پتہ کر دیا گیا۔ ادھر ایک پائپ لائن کی مرمت کی جاتی ہے تو ساتھ ہی کسی اور گیس پائپ لائن کو بم سے اُڑا دیا جاتا ہے۔ ٹرینوں کی بوگیوں کو اس کے مسافروں سمیت اور ریل کی پٹڑیوں کو بم دھماکوں سے آئے دن لاپتہ کیا جا رہا ہے لیکن کوئی اس کا کوئی سوموٹو نوٹس نہیں لیتا۔ حقیقت ایک کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے کہ 2005ء سے اب تک ایک مسلح تنظیم نے بلوچستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھاہے اور اس کا نشانہ صرف وہی لوگ بنتے ہیں جنہوں نے پاکستان سے محبت کو ایمان سمجھا ہوا ہے۔ ان میں اردو اور پنجابی بولنے والے استاد ہوں یا ڈاکٹر، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کوئلے کی کانوں کے مزدور ہوں یا ہنر مند‘ سب کو چُن چُن کر ویگنوں‘ بسوں اور ریل گاڑیوں سے اتار کر بے رحمی کے ساتھ گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے۔ چند ہفتے قبل سب نے دیکھا کہ ایس ایچ او کوئٹہ سٹی محب اﷲ کو شہید کرنے کے بعد پولیس لائن میں ان کی نمازہ جنازہ پرخود کش دھماکہ کرتے ہوئے اعلیٰ پولیس افسران سمیت درجنوں لوگوں کو شہید کر دیا گیا؟ ان سب دہشت گردانہ کارروائیوں کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بلوچ عوام کو ان کا حق نہیں دیا گیا‘ ان کے ساتھ ناانصافیاں کی جاتی رہیں اور اب وہ ان ناانصافیوں کا بدلہ لینے کیلئے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور اس کیلئے ہمیشہ کی طرح ''پنجابی تسلط‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلوچ عوام کو آج سے نہیں بلکہ پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے سے ان کے اپنے ہی لوگوں نے لوٹا ۔آج تک ان کے اپنے سردار ہی ان کو لوٹتے چلے آ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان قدرتی معدنیات سے بھرا ہوا ہے جس کے وسائل غیر بلوچی ہڑپ کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ حقیقت بھی ہے لیکن آج کی نئی نسل کے بلوچ نو جوان بھائیوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ سارا سچ نہیں۔ پنجاب ہو یا سندھ، خیبر پختونخوا ہو یا بلوچستان‘ ان سب کے عوام کو ان کے اپنوں نے ہی لوٹا۔ اگر سننا پسند کریں تو بتاتا چلوں کہ بلوچستان میں ایک سردار نے نے1885ء میں اپنے علا قے میں تیل اور معدنیات کے ذخائر صرف 200 روپے ما ہانہ پر برطانوی حکومت کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیاتھا۔ 1861ء میں جام صاحب آف لسبیلہ نے 900 روپے ماہانہ کے عوض برطانوی حکومت سے معاہدہ کرتے ہوئے اپنے علا قے سے انگریز کی تار اور ٹیلیفون لائنوں کی تنصیب اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 1883ء میں خان آف قلات نے دشت میں بیٹھ کر 25000 روپے کے عوض انگریز سے معاہدہ کرتے ہوئے کوئٹہ اور اس سے ملحقہ علا قے ان کی مکمل عملداری میں دے دیئے تھے۔ 1883ء میں ہی انگریز نے بگٹی سردار مہراب خان کو خدمات انجام دینے کے عوض5500 روپے ادا کیے جو انگریز کے انڈیا ریکارڈ میں آج بھی درج ہیں۔ یہ تاریخ کی سچائی ہے کہ بلوچ سردار تو خود ہی بلوچ عوام کے وسائل کو غیر ملکیوں کے ہاتھ بیچتے رہے اور اس فروخت میں وہاں کے بلوچ عوام کا ایک فیصد حصہ بھی نہ تھا۔ پاکستان بننے سے اب تک بلوچستان کو ملنے والے فنڈز کا حساب کیاجائے تو وہ اتنا تھا کہ اگر عوام پر خرچ کیا جاتا تو آج اس صوبے میں غربت اور جہالت کا نام تک نہ ملتا۔ کل اور آج کے بلوچ سیا ستدان اور ان کی اولادیں امریکہ برطانیہ، سوئٹزر لینڈ اور دوسرے یورپی ممالک میں عیش و عشرت سے زندگی گزار رہی ہیں۔ آخر یہ سب شاہانہ اخراجات کون ادا کررہاہے؟
جون2006ء میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کے ساتھ ایک انٹر ویو میں بلوچستان کے ایک سینیٹر نے دھمکی دیتے ہوئے کہاتھا : ''وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بلوچ نوجوان پچیس پچیس کروڑ روپے مالیت کے ہیلی کاپٹروں کو اڑاتے ہوئے پاکستان کے شہروں پر بم با ری کریں گے‘‘۔ یہ انٹرویو آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے لیکن کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کے یہ بلوچ نوجوان ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت کہاں سے حاصل کر یں گے؟ یہ ہیلی کاپٹر انہیں کون خرید کر دے گا؟ ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت حاصل کرنے والے کہیں یہ وہی نوجوان تو نہیں ہیں جن کے لاپتہ ہونے کی داستانیں ہیومن رائٹس اور سپانسرڈ میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کو سنا ئی جا رہی ہیں؟یہ بچے نہ جانے کب سے غائب ہیں اور ان کے والدین کو بلوچستان کے پس پردہ عالمی سازش کے کھلاڑیوں کی طرف سے یہی بتایا جاتا ہو کہ انہیں ایجنسیوںنے غائب کیا ہوا ہے۔
کروڑ وںروپے کے ہیلی کاپٹروں سے پاکستان کے شہروں پر بم گرانے کی دھمکیاں دینے والے سینیٹر صاحب سے پاکستان کے کسی ایک بھی چینل نے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ جناب فروری 2006ء میں جب آپ نے دوبڑی کوچوں میں برطانیہ کے مختلف علاقوںسے ساٹھ کے قریب لوگوں کو اکٹھا کرکے لندن میں برطانوی وزیر اعظم کی رہائش کے باہر پاکستان اور اس کے عظیم دوست جمہوریہ چین کے خلاف نعرے بازی کی تو وہ کیوں اور کس کے کہنے پر کی تھی؟ حیرت انگیز طور پر وہ لوگ جو کل تک ترقی پسندی کے نام پرروسی کیمپ میں بیٹھ کر امریکہ مخالف لوگوں کی مخبریاں کرتے تھے‘ وہی لوگ روس کے بکھرنے کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن کے نام پر مختلف تنظیموں کے نام پر لاکھوں ڈالر اپنی جیبوں میں ڈال کر امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے ''لاپتہ افراد‘‘ کی کہانیاں مخصوص چینلوں پر سب کو سناتے رہتے ہیں۔ ریل کی پٹریاں تباہ کی جا رہی ہیں‘ بلوچستان سے آنے والی ریل گاڑیوں پر فائرنگ کرتے ہوئے مسافروں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ شایدچور مچائے شور اسے ہی کہتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں پنجابیوں اور دوسرے آبادکاروں کو روزانہ چُن چُن کر قتل کیا جا رہا ہے‘ دیدہ دلیری کے ساتھ اور روز روشن میں کوئٹہ، گوادر اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں پنجاب کے جو آباد کارلا پتہ کیے جا رہے ہیں‘ ان کے بوڑھے ماں باپ‘ ان کی جوان بہنیں‘ ان کی بیوائیں‘ ان کے معصوم یتیم ہونے والے بچے کس سے فریاد کریں؟ نہ جانے یہ عرش ہلاتی چیخیں اور بین حکمرانوں تک کیوں نہیں پہنچ رہے ؟ بلوچستان میں پچھلے پچاس سالوں سے مقیم پنجابی اور دوسرے آباد کاروں کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور پھر ان کی سربریدہ لاشیں ملتی ہیں‘ ان کے بچے، مائیں اوربیوائیں کس ٹی وی چینل کے پاس جائیں؟ کوئی ہیومن رائٹس کی تنظیم کوئٹہ ، ژوب، پنجگور، چمن، مچھ اور گوادر کی سڑکوں پر، چوراہوں پر، دکانوں، ہوٹلوں، گلیوں اور بازاروں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لاپتہ کیے گئے ہزاروںافراد کیلئے آواز نہیں اٹھا رہی اور ہمارا میڈیا بھی‘ خدا جانے کسی مصلحت کے تحت خاموش ہے؟