تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-03-2014

اب وزیراعظم تنہا ذمہ دار ہیں

سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے ۔کوئی دن میں اندازہ ہو جائے گا کہ وزیراعظم خوف اورگھبراہٹ کا شکار ہیں یا فیصلہ کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ۔ 
مِٹھی کے ہسپتال میں نوّے فیصد دوائیں استعمال ہی نہ ہو سکیں اور ذمہ دار واویلا کرنے والامیڈیا ہے۔ اسحٰق ڈار سونے کی جگہ چمڑے اور چمڑے کی جگہ سونے کے سکے چلاتے رہے۔ عمران خان کا وزیرِ اعلیٰ اس کے باوجو د پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے پر مصر ہے کہ وہ خود انکار کر چکے۔ 
عارف نے کہا تھا : مزاج میں آہنگ اور قلبی اطمینان اسی قدر ہوتا ہے جس قدرکہ وہ فطرت سے ہم آہنگ ہو ۔ تضادات کا بوجھ اٹھا کر سفر سہل تو کیا، گاہے ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسحٰق ڈار نے پاکستانی کرنسی کو سرفراز کر کے ایک کارنامہ انجام دیا ۔ اس پر وہ داد کے مستحق ہیں اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر مگر اپنے لیڈر ہی کی طرح ، ان کی دولت بھی بیرونِ ملک پڑی ہے ۔ مجبور آدمی، چنانچہ زیادہ تحسین کے مستحق ۔ 
پروردگار نے زندگی کو تنوّع میں تخلیق کیا ہے، امتحان اور آزمائش کے لیے اور دائمی طور پر وہ ایسی ہی رہے گی ۔ ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں، اگر انہیں پہچان لیا جائے تو آج کی افتاد کل کی راحت میں بدل سکتی ہے ۔ قرآنِ کریم یہ کہتا ہے: فان مع العسر یسراً۔۔۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی جڑی ہے ۔ 
وزیراعظم نے سچ کہا : چولستان اور تھر میں موسم کا فرق برائے نام ہے مگر وہاں اس طرح کا سانحہ کیوں نہ ہوا ؟ اس لیے کہ پاکستان واٹر کونسل نے تالاب بنادیے ہیں ،کنکریٹ 
کے فرش اور دیواریں ۔ پانی کی ایک ایک بوند بچ رہتی ہے ۔ سندھ میں یہ کیوں ممکن نہیں؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد مرکزی نہیں، یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ایک ارب روپے جو وزیراعظم نے دیے ہیں ، ضائع کر دیے جائیں گے، ترجیحات اگر درست نہ ہوئیں اور نگرانی کا نظام موثر نہ ہوا ۔ موسمیات کے سب سے بڑے ماہر کی رائے میں روپیہ بانٹنے کی بجائے سمندر کے نمکین پانی کو صاف کرنے پر صرف ہونا چاہیے۔ تھرہی نہیں، اس طرح ٹھٹھہ اور بدین کے مسائل بھی حل ہو ں گے ۔ جینے کو پانی چاہیے، پینے کو پانی چاہیے۔ تھر کے ایک عام خاندان کو کیا درکار ہے ؟ بکری کے دو بچّے ، مٹھی بھر کھجوریں اورپاکستان دنیا بھر میں کھجور پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے ۔ تھوڑی سی گندم اور ملک اس میں خود کفیل ہے ۔ حالیہ بے وقت بارشوں کے باوجود ، جن سے سیالکوٹ اور گوجرانوالہ میں گندم کی فصل متاثر ہوئی ، پیداوار میںصرف تین چار فیصد کمی آئے گی ۔ 
میرے بائیں ہاتھ کی کرسی پر تھر سے لائی گئی ایک اونی چادر پڑی ہے ۔ بدترین سردی میں اسے میں اوڑھتا ہوں۔ گھرمیں اسی علاقے کی بنی وہ خوبصورت دست کاریاں دھری ہیں، نیو یارک کے دوست جنہیں دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے ۔ رنگوں کا ایسا امتزاج اور ہنر مندی کا ایسا نمونہ کہ امریکہ کے سب سے بڑے اتوار بازار میں نیپال اور بھارت کی کاریگری ان کے مقابل ہیچ تھی ۔ اسلام آباد سے کچھ نمونے میں لے گیاتھا۔ مین ہیٹن میں اسی ہندو کے بھائی سے کشیدہ کاری کا ایک نادر نمونہ 150ڈالر میں خریدا ، تھر میں جس کی قیمت زیادہ سے زیادہ 15سو روپے ہوگی۔ اگر مزید خواتین کی تربیت کی جائے ، اگر ان کی ریاضت کو موزوں دام مل سکیں توچند برس میں تھر کے تمام گھر آباد ہو جائیں ۔ اگر ارباب رحیم کے بنائے سکولوں میں سے کچھ کو سہ پہر کے بعد ہسپتالوں کے طور پر برتا جائے،اگر اسی علاقے کے ایک ہزار ایم بی بی ایس ڈاکٹروں میں سے چند سو ترغیب دے کر وہیں مقرر کر دیے جائیں ؟ یہ کام مگر قائم علی شاہ نہیں کر سکتے ، ارباب غلام رحیم یا مخدوم امین فہیم کے فرزند بھی نہیں ۔ پیپلز پارٹی کی صفوں میں کوئی تو صاحبِ حمیت اور صاحبِ احساس ہو گا ۔ صرف تھرکا مسئلہ تو نہیں ، دیہی سندھ کے بعض دوسرے علاقے ۔ بلوچستان میں آواران کا زلزلہ ہم دیکھ چکے۔ مٹی سے نہیں، آدمی کو ملک سے محبت ہوتی ہے اور ملک اس ماحول کا نام ہے، قدرت جوتخلیق کرتی ہے اور جس میں ہم بروئے کار آتے ہیں ۔ تھر کی دفاعی اہمیت بھی ہے۔ سرحد پار سینما گھر دکھائی دیتے ہیں اور پختہ سڑکیں ۔ وہاں بھی ایسے ہی لوگ بستے ہیں ۔ ہندوئوں کے علاوہ ہالہ اور پیر جوگوٹھ کے مرید بھی ؛ حتیٰ کہ نسل در نسل شاہ رکنِ عالم کا نام جپنے والے، شاہ محمود جس کے وارث کہلاتے ہیں ۔ 
پشاور میں طالبان کا دفتر نہیں بن سکتا، بنا تو بنائے فساد بنے گا۔ شاہد اللہ شاہد نے کہا تھا : ہر مسجد ان کا دفتر ہے ۔ جی ہاں ، ایک خاص مکتبِ فکر کے انتہا پسندوں کی عبادت گاہیں ۔ لال مسجد ان میں سے ایک تھی، جس میں القاعدہ اور لشکرِ جھنگوی کے جانثار پناہ لیتے اور منصوبہ بندی کیا کرتے ۔ انہی کے برتے پر بلا اجازت انہوں نے سرکاری زمین پر عظیم الشان عمارتیں بنائیں ؛ حتیٰ کہ اسلام آباد کے سب سے قیمتی سیکٹر ای سیون میں ۔ مولوی عبد العزیز کاکہنا یہ ہے کہ مسئلہ تب ٹلے گا جب دہشت گردوں کو مجاہد مانا جائے ۔ نام تو وہ اللہ اور رسولؐ کا لیتے ہیں ، درس تو قرآنِ حکیم کا دیتے ہیں مگر معاشرے کو میثاقِ مدینہ سے پہلے کے تاریک قبائلی دور میں دھکیلنے کے آرزومند ہیں ۔ وہ آئین ، جس کے تحت مدینہ کے مشرکین اور مسلمانوں کو ایک امت کہا گیا ۔ انسانی جبلت پلٹ کر آتی ہے۔ صرف علم تدارک کر سکتا ہے یا خوف سے دبائی جا سکتی ہے۔ خوف ایک ہتھیار ہے ، سوچ سمجھ کر ریاست کو جسے استعمال کرنا ہوتاہے ، امن کے لیے !
تجزیوں میں اختلاف یقینی طور پر موجود ہے مگر اللہ کا شکر ہے کہ سول حکومت اور عسکری قیادت میں مشاورت جاری ہے۔ بند دروازوں کے پیچھے برپا اجلاسوں میں چیف آف جنرل سٹاف اور ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز بھی شریک ہوئے ۔ اس وقت یہ افسر بلائے جاتے ہیں جب اقدام کی تیاری ہو ۔ چودھری نثار کا ارشاد بجا کہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہے۔ انہی کو کرنا چاہیے، پختون خوا حکومت سے مشورے کے بعد ۔ بات چیت مگر خفیہ ہونی چاہیے ۔کمیٹیوں نے اسے سوانگ بنا دیا تھا۔ایک بزر جمہر تو اخبار نویسوں کے منہ بند کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ مارچ میں برف پگھلنے لگتی ہے۔ مئی میں بھارتی الیکشن مکمل ہو جائیں گے ۔ جیسا کہ وزیراعظم نے محسوس کیا ''را‘‘ شامل ہے اور مزید متحرک ہو سکتی ہے ۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی ، خدمتِ اطلاعات دولتی بھی، '' را ‘‘ کے ساتھ جس کے مراسم قدیم ہیں۔ مہلت زیادہ نہیں اور فیصلہ صادر کرنا ہے۔ امن کا قیام اگر اوّلین ترجیح ہو اور اللہ پر بھروسہ ، دنیا کی بہترین فوج اگر سول اداروں کی مکمل تائید سے بروئے کار آئے تو امن کا حصول زیادہ فاصلے پر نہ ہوگا، سری لنکا کی طرح۔ وزیرِ داخلہ کے بقول : انشاء اللہ سال بھر کے فاصلے پر۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کابینہ اور نون لیگ پارلیمانی پارٹی کی عظیم اکثریت آپریشن کے حق میں ہے۔ مہلت وزیراعظم نے ذاتی طور پر دی ہے؛ چنانچہ وہی نتائج کے ذمہ داربھی ہوں گے، تنہا ذمہ دار!
سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے ۔ کوئی دن میں اندازہ ہو جائے گا کہ وزیراعظم خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہیں یا فیصلہ کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved