تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-03-2014

کمائی بذریعہ صفائی

ملک میں افراتفری کا عالم ہے، کسی کو کسی کی خبر ہے نہ فکر۔ لگتاہے لوٹ مار لگی ہے، جس کے ہاتھ جو لگ رہا ہے وہ سمیٹ رہا ہے۔ ملکی وسائل اور دولت لٹائی جارہی ہے اور ایسے خوشنما حساب میں اڑائی جا رہی ہے کہ لٹانے والے کی تو خیر بات چھوڑیں لٹنے والے بھی مطمئن ہیں ،انہیں خبر ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ میرے جیسے ہر بات میں سے مثبت پہلو نکالنے والے تو خیر مزے سے بیٹھے ہیں ، ہر بات پر شور مچانے والے اور ہر چیزسے شک برآمد کرنے والے قنوطی بھی خاموش ہیں۔ پنجاب میں صفائی کے نام پر جو صفائی کی جا رہی ہے اورکی جانے والی ہے وہ بڑی ہوشربا داستان ہے۔
انسان جب سے روئے زمین پر آیا ہے، گند مچانا شروع کیاہوا ہے۔ جب تک انسان کی ضروریات محدود اور وسائل کم تھے گندگی کی مقدار بھی کم تھی ، جیسے جیسے انسانی ضروریات میں اضافہ ہوتا گیا گندگی بڑھتی گئی۔اسے سمیٹنے کا کوئی سائنسی طریقہ تو موجود نہ تھا مگر سہولت یہ تھی کہ Syntheticمیٹریلز کا وجود نہ تھا، تقریباً سارا Wasteقدرتی اشیاء پر مشتمل تھا ، جانوروں کا گوبرکھیت کی خوراک بن جاتا ،گائوں کے گندے پانی کے لیے ہرگائوں کے کنارے پر جوہڑ موجود ہوتا تھا جو عمل تبخیرکے ذریعے ایک حد میں رہتا تھا۔کاغذ‘کپڑے وغیرہ کپاس اور قدرتی ریشے سے بنتے تھے ، وہ بھی چند دن میں خاک ہو کر مٹی میں شامل ہو جاتے تھے۔شاپنگ بیگ‘ پلاسٹک کی بوتلیں ‘ٹین کے ڈبے اور سب سے بڑھ کر صنعتی انقلاب کے بعد کیمیکلز کے فضلے کو ٹھکانے لگانا ایک دشوار مرحلہ بن گیا ۔سینتھیٹک میٹریل نے زمین پر آلودگی کو ایک باقاعدہ مسئلہ بنا دیا اورکیمیائی فضلے نے اس پر مزید مسائل کھڑے کر دیے۔ فضائی آلودگی‘ماحول کی خرابی اور حفظان صحت کے مسائل نے اس معاملے کو گمبھیر بنا دیا۔اب صورتحال ایسی تھی کہ اسے عام حساب سے نہ توکنٹرول کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس مسئلے کا کوئی حل موجود تھا۔صنعتی ترقی کے بعد ماحول کی آلودگی کو ختم کرنا روایتی طریقوں سے ممکن نہ رہا،اس کے لیے Waste Management کا تصور وجود میں آیا اوراس کے لیے شہری علاقوں میں سہولیات فراہم کرنے والے ادارے صفائی کے ذمہ دار ٹھہرے۔
قابو سے باہر ہوتے ہوئے صفائی کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے شہروں میں میونسپل کمیٹیاں‘کارپوریشنیں اور بعدازاں سٹی حکومت وغیرہ کا تصور وجود میں آیا اور صفائی کا انتظام اس کا ایک لازمی بلکہ بنیادی حصہ ٹھہرا۔ پہلے یہ معاملہ براہ راست کارپوریشنوں کے ماتحت تھا، بعد میں تھرڈ پارٹی ایگریمنٹ کا تصور وجودمیں آیا تو ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں بن گئیں اور صفائی کی ذمہ داری سرکاری اداروں سے نجی کمپنیوں کے پاس آ گئیں۔دنیا میں یہ تصور کافی عرصے سے وجود میں آ چکا تھا مگر ہمارے ہاں ابھی سرکاری ادارے ہی صفائی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔دنیا بھر میں عموماً یہ نجی کمپنیاں بڑی حد تک کاروباری ہونے کے بجائے ماحول سنوارنے کے اخلاقی تصور سے مالا مال ہیں اور مختلف ادارے‘صنعتی گروپ‘ این جی اوز اور سرمایہ دار ان کو فنانس کرتے ہیں اور باقی حصہ وہاں کے عوام خود ڈالتے ہیں۔ خود حصہ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام اپنا کوڑا کرکٹ ادھر ادھر پھیلانے کے بجائے گھر کے سامنے 
موجود ڈسٹ بن میں ڈالتے ہیں، میونسپلٹی کے کوڑے دان استعمال کرتے ہیں۔ دکاندار‘ کاروباری ادارے اور بڑے کمرشل پلازے اپنا ویسٹ شہر میں قائم مخصوص جگہوں پر جا کر ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات وہ باقاعدہ ادا ئیگی بھی کرتے ہیں، کوئی شخص آنکھ بچا کر یا رات کے اندھیرے میں اپنا کوڑا کرکٹ غیرمخصوص جگہ پر نہیں ڈالتا۔ ہمارے ہاں معاملہ ہی دوسرا ہے۔صفائی پر مامور محکمے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور عوام ہر ممکن حد تک گندگی پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔نتیجتاً صفائی کا تصور ہی ختم ہوگیا۔
دیکھا دیکھی اب یہاں بھی ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کے تصور کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ اس کے لیے موجودہ قوانین میں ترمیم بھی کی گئی اور ہمیشہ کی طرح سسٹم ٹھیک کرنے کے بجائے نیا سسٹم بنانے کی راہ ہموارکی گئی۔ یہاںکمپنیز ایکٹ 1984ء کے سیکشن 42کے تحت کمپنیاں بنائی جا رہی ہیں۔اس سیکشن کے تحت یہ کمپنیاں نفع یا حصول صنعت کے لیے نہیں بنائی جا سکتیں، لہٰذا سارا خرچہ سرکار پر ڈال دیا گیا۔
پہلے پہل لاہور میں یہ تجربہ کیا گیا اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے نام سے ایک کمپنی بنائی گئی۔ یہ کمپنی ہمارا رول ماڈل ہے۔ لاہور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے پاس صفائی کی مد میں ایک ارب روپے کا بجٹ تھاجس سے بظاہر لاہورکی صفائی ممکن نہ تھی؛ تاہم اسے بڑھا کر اور ادارے کی صلاحیت بہتر کر کے یہ معاملہ حل کیا جا سکتا تھا مگر اس کا شارٹ کٹ یہ نکالا گیا کہ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بنا کر اس کا بجٹ آٹھ ارب روپے کر دیا گیا۔اس دوران دو تین حیران کن باتیں ہوئیں۔ پہلی یہ کہ لاہور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے سارے عملہ صفائی کی تنخواہیں تو حکومت کے ذمے رہنے دی گئیں لیکن ان کی سروسزکمپنی کو ٹرانسفرکر دی گئیں، یعنی وہی سارا نالائق عملہ دوسری طرف منتقل کر دیا گیا اور اس کی تنخواہوں کا بوجھ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پر ہی رہا۔دوسرا کام یہ کیا کہ صفائی کے شعبے کی ساری ٹرانسپورٹ‘مشینری اور آلات محض ایک لاکھ روپے کی لیز پر نئی کمپنی کو ٹرانسفر کر دی گئی۔کروڑوں اربوں کا سامان صرف ایک لاکھ روپے کے عوض نئی کمپنی کو دے دیا گیا۔ لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے اپنا سارا معاملہ دو ترک کمپنیوں سے کیا اور آٹھ ارب روپے کا بجٹ انہیں ٹرانسفر کر دیا۔لاہور یقینا صاف ہوگیا مگر آٹھ ارب روپے کے عوض۔ ترک کمپنیاں عملہ صفائی سٹی گورنمنٹ کا استعمال کر رہی ہیں،کروڑوں اربوں کی مشینری ایک لاکھ روپے کی لیز پر استعمال کر رہی ہیں اور خرچہ ایک ارب سے آٹھ ارب روپے ہوگیا ہے ، یعنی آٹھ گنا۔ لاہو رکا یہ صفائی کا انتظام پنجاب حکومت کا رول ماڈل ہے اوراب یہی ماڈل مزید پانچ شہروں ملتان‘ سیالکوٹ‘ فیصل آباد‘گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں آزمایا جانے والا ہے۔
ایک لاکھ روپے لیز کے اسی ایگریمنٹ SAMAیعنی (Solidwaste Asset Management Agreement) کے تحت ملتان میں بھی ساری مشینری‘گاڑیاں اور آلات صفائی نئے بنائے گئے جو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو ٹرانسفر ہو جائیں گے اور اس کی لیز کا عوضانہ بھی ایک لاکھ روپے ہو گا۔ ملازمین کو تنخواہیں سرکاری کھاتے سے ملیں گی اور ایک دن یہ سارا انتظام کسی ترک کمپنی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ فی الحال سرکاری افسران ہی موج میلہ کر رہے ہیں۔ معاملات کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے مگر کوئی شخص کودلچسپی ہی نہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس معاملے میں بے تحاشا پیسہ ہے۔ معاملے کو ٹھیک کرنے سے یہ پیسہ کسی کی جیب میں نہیں جائے گا بلکہ عوام پر خرچ ہو گا مگرعوام سے کسی کو خاص دلچسپی نہیں ہے۔ صرف ایک چیز پر ہی روشنی ڈالیں تو چشم کشا حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔ملتان میں اس کمپنی کو تیل کی فراہمی کا ٹھیکہ ایسے شخص کے پاس ہے جس نے بولی دیتے ہوئے تیل کا جو ریٹ دیا وہ ڈیزل کے کنٹرول ریٹ سے بھی کم ہے۔دوسرے یہ کہ وہ ڈیزل کی پرچی دینے کے بجائے سرکاری افسران کو نقد رقم فی لٹر دیتا ہے ۔۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ظاہر ہے وہ فی لٹر نقد رقم سرکاری حساب سے تو نہیں دیتا ہو گا۔ شنید ہے کہ وہ ایک سو سترہ روپے لٹر والے ڈیزل کے عوض سرکاری افسران کو تقریباً اسی روپے فی لٹر نقد ادا کرتا ہے اور اس اسی روپے میں سے سرکاری افسران چالیس پچاس روپے ڈیزل پر خرچ کرتے ہیں۔اس طرح فی لٹر تقریباً سینتیس روپے ٹھیکیدارکی جیب میں اور تیس چالیس روپے فی لٹر افسران کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔
ملتان میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے جو چیئرمین ہیں‘ ان کا ایک علیحدہ قصہ ہے اور ان کے پاس صفائی کا اپنا علیحدہ تجربہ ہے‘ اس پر پھر کبھی سہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved