مہاتما بدھ نے کہا تھا:''دنیا دکھوں کا گھر ہے‘‘ ۔ ہماری دنیا ہمارا پاکستان ہے جو واقعتاً اِن دنوں دکھوں کے موسموں میں گھرا ہوا ہے۔ ہر صبح کی شام ہوتی ہے اور ہر رات کی صبح ، خزاں کے بعد بہار بھی آتی ہے مگر ہمارے ہاں تو''پت جھڑ‘‘ طویل ہوتی جارہی ہے۔اِدھر ہمارے ''کار پرداز‘‘ہیںکہ کمیٹیوں کو بنانے اور توڑنے کی'' لُڈو‘‘ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ روز لاشیں گرتی ہیں،خون بہتا ہے مگر حکمرانو ں کی نظر میں جیسے یہ انسان نہیں مرتے بلکہ مدِ مقابل کی چال سے فقط '' لڈو کی گوٹیا ں‘‘ ہی مر رہی ہیں۔ عوام ہیں کہ امن کے استقبال کے لیے پھول لیے ہرآن منتظر رہتے ہیں مگر پھول ان کے ہاتھوں میں سوکھ جاتے ہیں۔انتظار کی اس کیفیت کو آج کا شاعر ڈاکٹر رامش یوں بیان کرتا ہے :
روز رہتا ہوں منتظر اس کا
روز پھولوں کے ہار لیتا ہوں
انتظار بھی تو ایک سُولی کا نام ہے، عوام الناس فیصلے کرنے والوں کی طرف اُمید اور بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔ امن، چین اور خوشحالی کا انتطار بھی تلخ خواب بنتا جا رہا ہے۔ اب تو ایسے خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دی جاتی ہیں۔ ہماری فصیلوں پر لہو کے چھینٹے دکھائی دیتے ہیں اور ہم ابھی فیصلہ کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ بات چیت، مذاکرات، معاہدے، جنگ سے کہیں اچھے ہوتے ہیں مگر یہ دو فریقوں، دو ملکوں کے درمیان ہوا کرتے ہیں۔ یہاں تو ایک طرف حکومت ہے اور دوسری طرف حکومت کی رٹ اور آئین کو تسلیم نہ کرنے والے۔۔۔۔۔اس بات چیت میں حکومت مبینہ طور پراپنی فوج بٹھانے کا سوچ رہی ہے۔ کتنی ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اگر مذاکرات فوج ہی نے کرنے ہیںتو پھر موجودہ جمہوری حکومت کا کیاجوازرہ جاتا ہے۔ پھر کیا جناب الطاف حسین کے مشورے پر کان نہ دھرے جائیں؟دریں اثنایہ خبر آئی ہے کہ فوج نے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کردیاہے تاہم وہ حکومت کے ساتھ اس ضمن میں تعاون کرے گی۔
پشتو کے عظیم شاعر خوشحال خان خٹک کے شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے :
'' اہلِ شر کے لیے پنجۂ شاہین پیدا کراور اہلِ خیر کے لیے کبوتر سے بھی زیادہ حلیم وخاکسار بن جا‘‘۔
حکیم الامت علامہ اقبال ہمیشہ حالات کے مطابق ڈھل جانے کی تلقین کرتے ہیں ؎
گزر جا بن کے سیل ِ تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
مگر ہمارے پاس اقبال اور خوشحال خان خٹک کے افکار پر دھیان دینے کا وقت ہی کہاں ہے؟ ہم تو چاہتے ہیں کہ جادو کی چھڑی ہاتھ آجائے اورہم '' کھُل جا سم سم‘‘ کہیں اور دروازے کھلتے چلے جائیں ۔۔۔۔۔امن اورخوشحالی کے دروازے۔
فی الوقت ہم دکھوں کی دھند میں لپٹے راستوں کی تلاش میں ہیں۔اس وقت کوئی آئیڈیل حکومت ہوتی یا ہمارا کوئی واقعتاً لیڈر ہوتا تو یہ صورت حال ہرگزنہ ہوتی۔اصل مسئلہ قیادت کا فقدان ہے۔اگر کرپشن کی کہانیاں عام نہ ہوتیں،ہمارے نمائندوں کے لچھن اچھے ہوتے، وہ صادق امین ہوتے،ان کے رہن سہن اور خاص طور پر پارلیمنٹ لاجز کا ماحول مثالی ہوتا،آئین اور قانون سب کے لیے برابر ہوتا تو طالبان کبھی شریعت کے نفاذ پر زور نہ دیتے ، مگر نہ جانے ہم پر امن کا آٹھواں در کب کھلے گا؟یہ سوال اپنی جگہ مگر اس وقت ہمارے شاعر ڈاکٹر رامش نے شاعری کا آٹھواں در ہمارے سامنے ضرورکھول رکھا ہے۔ ڈاکٹر رامش چھوٹی بحر میںبڑی بات کہنے پر قادر دکھائی دیتا ہے ۔ اگر چہ وہ شاعری سے تلوارکا کام نہیں لیتا مگر وہ شعرکی خوشبو سے دل کے موسم بدلنے کی آرزو ضرورکھتا ہے۔کوئی بھی باشعور شخص اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اکیسویں صدی کا انسان، سو طرح کے دکھوں میں گھرا دکھائی دیتا ہے۔ وہ گھر سے نکلتا ہے مگر اسے یقین نہیں ہوتا کہ وہ سلامت واپس اپنی دہلیز پر پہنچ پائے گا یا نہیں ۔ مائیں گھر سے بچوں کو رخصت کرتے وقت ان کے بازوئوں پر امام ضامن باندھنے لگی ہیں۔ زندگی اِس قدر تیز رفتا ر ہے کہ لوگوں کا سکون غارت ہو چکا ہے۔استاد شاعر بیدل حیدری نے ایسی زندگی پرکچھ یوں تبصرہ کیا تھا ؎
ہم تو بس ہاتھ پائوں مارتے ہیں
زندگی دوسرے گزارتے ہیں
عوام کی اکثریت ان دنوں بس ہاتھ پائوں مارتی ہے ، زندگی تو پارلیمنٹ کے ممبران، ہمارے سیاستدان یا بیوروکریٹ گزارتے ہیں۔ ڈاکٹر رامش آج کے ماحول کو اس طرح شعر میں ڈھالتے ہیں ؎
یہی آج گھر گھر ہوا خوف طاری
سروں پہ کوئی ناگہانی ہے گردش
واقعتاً ہمارے سروں پر کوئی ناگہانی گردش ہے۔ایک عجیب سے خوف نے جینا محال کر دیا ہے۔ مسائل زدہ عوام جائیں تو کہاں جائیں۔ بس لوگ کولہو کے بیل کی طرح رات دن گردش دوراں کے ساتھ دوڑ لگا رہے ہیں ؎
جتا ہے اگر بیل کولہو پہ کوئی
اسے لا محالہ نبھانی ہے گردش
رامش زندگی کا مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کرتاہے۔ وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔اس کے اشعار میں آج کے انسان کے دکھ جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں۔
جسے بیل بن کر کمانا پڑا ہے
لہو تک اسے بیچ کھانا پڑا ہے
''آٹھواں در‘‘ کھول کر دیکھیں توکئی اچھوتی زمینیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ بعض ردیفیں بظاہرنامانوس مگر قدرے انوکھی اور جدید ہیں۔ شاعر نے چیونٹیاں، دیمک، سورج، گردش، سانپ کالے جیسی ردیفوں میں بھی شعر نکالنے کی کوشش کی ہے۔اصل بات یہ کہ وہ جمود کا تالا توڑنا چاہتا ہے۔ وہ یکسانیت سے بے زار ہے اور نئی بات سے آغاز کرنے کی تمنا لیے ہوئے ہے۔ جی ہاں، پاکستانی عوام کی طرح وہ بھی اس روز مرہ اورکولہو کے بیل کی سی زندگی سے نالاں ہے۔ شاید اسی لیے وہ اپنے قارئین پر شاعری کا آٹھواں در‘‘ کھولتانظر آتا ہے :
توڑ ڈالوں جمود کا تالا
آٹھواں در بھی کھول کر دیکھوں
ان کو اونچا سنائی دیتا ہے
ان سے اونچا ہی بول کر دیکھوں
مجھے یقین ہے ، شاعر کی آوازارتعاش ضرور پیدا کرے گی،فی الحال میں بقول حیدردہلوی یہی کہو ں گا:
ابھی ماحول عرفانِ ہنر میں پست ہے حیدر
یکایک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی
بلا تبصرہ کچھ مزید اشعارآپ کے ذوق شاعری کی نذرہیں:
غضب ہے یہ کھا کر غذائیں مری
ڈھٹائی سے ہیں پل رہی چیونٹیاں
..................
شام کو پر اتار لیتا ہوں
شب سکوں سے گزار لیتا ہوں
..................
فصیلِ شہر پہ اندھے سپاہی
بہت یہ فیصلہ نقصان میں ہے
..................
ابھی اور باقی ہے تکمیل میری
مرا تن بھی چاک پر گھومتا ہے
..................
نئی ایک تعمیر کے نام پر
فقط ہیں بدلتی رہی تختیاں
..................
فقط ایک پُتلی جو کردار میں ہے
وہی آج پردھان سرکار میں ہے
ذرا تھام پختہ ارادے کا تیشہ
کہ موجود رستہ بھی دیوار میں ہے
یہاں لوگ قیمت لگاتے ہیں سب کی
سجا ہر کوئی جیسے بازار میں ہے