تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-03-2014

میڈیا کا کیا دھرا

میڈیا بڑی عجیب شے ہے ۔ اس کا پردہ چاک کرنے کے لیے کالم نہیں ، کتاب درکار ہے ۔
تھر کے باسی اور ان جیسی دوسری مخلوقات کا معاملہ دیکھیے۔ سائنسی لحاظ سے ہماری طرح وہ ہومو سیپین (Homo Sapien)ہی کہلائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان ایسے نہیں ہوا کرتے ۔ انسانی بچّے کی نگہداشت بڑی احتیاط کا تقاضا کرتی ہے ۔ ہر معلوم مرض کے خلاف اس کے جسم میں مدافعت پیداکی جاتی ہے ۔ پھر اسے تعلیم دی جاتی ہے ۔ معیاری سکولوں میں تو والدین کی قابلیت بھی پرکھی اور نکھاری جاتی ہے کہ زیادہ وقت وہ انہی سے سیکھتا ہے ۔یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ نفسیاتی امراض کے معالج بچّے کے رجحانات اور ذہنی پیچیدگیوں کو سمجھ کر باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر اس کی شخصیت میں چھپی خوبیاں ڈھونڈ نکالیں ۔بعض محروم اورکمتری کے احساس تلے دبے ہوئے غریب غربا ان اقدامات کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ 
ایک انسانی بچّہ عام طور پر اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرنے بیرونِ ملک معیاری یونیورسٹیوں کا رخ کرتاہے ۔ یوں وہ دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیلے ہومو سیپین سے مانوس ہوتا ہے ۔ وہ ان کے علم ، تجربے اور خیالات سے مستفید ہوتا ہے ۔پھروہ ایک مضبوط شخصیت کا مالک بن کر وطن واپس لوٹتا ہے ، جہاں اسے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا ہوتاہے ۔ اس وقت تک وہ حقائق ڈھونڈنکالنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ وہ فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھتاہے ۔ اس سلسلے میں مجھے جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کا حوالہ دینا پڑے گا۔ اپنے ہم وطنوں پر انہوں نے نگاہ دوڑائی تو معلوم ہوا کہ کام کا ایک بھی شخص یہاں موجود نہیں ؛چنانچہ بیرونِ ملک سے شوکت عزیز نام کا ایک آدمی منگوایاگیا ۔ جناب شوکت عزیز تشریف لائے ، حکومت کی اور پھر انسانوں میں واپس تشریف لے گئے ۔ 
اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ انسان کہلوانا ایسا آسان نہیں۔ اسے تو تسخیرِ کائنا ت جیسے دشوار گزار کام کرنا ہوتے ہیں۔ ادھرمیڈیا تھر میں بسنے والی ایسی اشیا کو انسان قرار دے رہا ہے ، جن کی زندگی کا مقصد محض افزائشِ نسل تک محدود ہے ۔ حالات کا معروضی جائزہ لینے کے بعد کوئی بھی سمجھدار شخص اسی نتیجے پر پہنچ سکتاہے، جو جناب قائم علی شاہ نے اخذ کیا تھا : سب میڈیا کا کیا دھرا ہے۔ 
میڈیا کی دنیامیں آپ کو رنگا رنگ لوگ ملیں گے۔ بعض دولت اور مراعات کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں ، انہیں عزت بھی درکار ہے ۔ جناب ظفر اقبال صاحب نے کہا تھا ''یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا‘‘۔ 
میڈیا کے بارے حتمی رائے قائم کرنے کے لیے ایک ٹی وی پروگرام کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اس پروگرام میں میزبان نے آغاز میں درپردہ حکومتی مراعات سے لطف اندوز ہونے والی صحافتی شخصیات کا گریبان چاک کرنا شروع کیاتھا۔ اس پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سب کا احتساب کرنے والے خود اپنا حساب پیش نہ کر سکے ۔ دبائو اس قدر بڑھا کہ یہ پروگرام بند کر نا پڑا۔بمشکل دوبارہ شروع ہوا مگر اب اس کا انداز (Format) ہی بدل چکا تھا۔ بالکل وہی حال ، جو کندھے کی سرجری کے بعد مایہ ناز فاسٹ بالر وقار یونس کا ہوا تھا۔ یہ نہیں کہ محض ہوس پیشہ ہی میڈیا کے تالاب میں بستے ہیں‘ جناب رئوف کلاسرا جیسے بھی، جو حکومتی جرائم بے نقاب کرتے ہوئے اپنے پرائے کا فرق روا نہیں رکھتے۔ 
ٹی وی اور اخبارات کے علاوہ ایک سوشل میڈیا بھی ہے ۔ بعض واقعات میں اس نے بہت مثبت کردار اداکیا لیکن ایک جملے میں اگر اس کا تجزیہ کرنا ہو تو یہ حدیث سنیے : آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کرے ۔یہاں اس کے سوااور ہو ہی کیا رہا ہے ۔جیسا کہ جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے بیان کیا تھا، سازشی تھیوری پیش کرنے میں اس قوم کا کوئی ثانی نہیں ۔ ایک دن ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو طالبان کے موقف کا کیسے علم ہوتا ہے؟ پھر کہا کہ یہ میڈیا ہے ، جو اپنے مفادات کے لیے اس ضمن میں خبریں گھڑتاہے ۔ بہت خوب۔ تو شاہد اللہ شاہد کیا ہوئے‘ جو طالبان کا ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور طالبان کو جس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ۔ 
ملالہ یوسف زئی کا واقعہ پیش آیا تومجموعی طور پر سوشل میڈیا کی رائے یہ تھی کہ یہ ایک ڈرامہ ہے جو امریکی اصرار پر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے ۔ ملالہ کو فوجی ہیلی کاپٹر میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ بعد میں طالبان کمانڈر عدنان رشید نے اسے ایک خط بھی لکھا تھا ۔ اگر یہ ایک دھوکہ تھا اور اس کا مقصد شمالی وزیرستان آپریشن ہی تھا (جو کہ نہ ہو سکا) تو اس کا مطلب یہ تھا کہ مل کر ڈرامہ رچایا جا رہا تھا۔ (بعد میں مغرب نے ملالہ کو جس طرح استعمال کیا، وہ ایک الگ کہانی ہے)۔ ملالہ کا واقعہ اکتوبر 2012ء میں پیش آیا تھا اور اس سال پاک امریکہ تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر تھے ۔ طالبان سے فوج ایک طویل عرصے سے حالتِ جنگ میں تھی۔ سوشل میڈیا انتہا پسندی کا رجحان پھیلانے میں ایک نمایاں کردار ادا کر رہا ہے ۔ اربابِ اختیار کبھی فرصت پائیں تو اس ضمن میں حدود و قیود کا تعین کریں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved