ٹین کے نہیں، ہم بھی مٹی کے بنے ہیں۔ ہمارے سینوں میں دل ہیں، ان دلوں پر زخم۔ عمران خان سمیت، سب واعظ نمک پاشی بند کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی طوفان اٹھے۔ ایک ہی مولوی عبدالعزیز کافی ہے۔
ہدف کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ امن کا حصول۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ حاصل کیسے ہو؟ ظاہر ہے کہ حکمت اور تدبیر یعنی جامع منصوبہ بندی کے ذریعے۔ کوئی بات چیت کا حامی ہے تو کیوں یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ طالبان کا کارندہ ہے۔ کوئی آپریشن کا قائل ہے تو وہ امریکی ایجنٹ کیسے ہو گیا؟
جزئیات میں جا کر دیکھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی شخص یا گروہ کے مجموعی روّیے کا انہماک سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہیں، جو کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کو مجاہد مانتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں، جن کے لیے امریکی پالیسی شریعت کے مترادف ہے۔ عفریت دو ہیں۔ ایک انکل سام اور دوسرے طالبان۔ امریکہ سے پنڈ چھڑانا چاہیے اور ان سفاکوں سے بھی، باقی حکمتِ عملی!
مولوی صاحبان کو چھوڑیے۔ مذہبی طبقہ دین کے دورِ زوال میں جنم لیتا ہے۔ جن کا ایجنڈا مذہب کے نام پر سیاست ہو، ان سے کیا امید؟ عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ڈالر بٹورنے کے لیے جنگ کی آگ بھڑکانے پر تلے ہیں تو حیرت ہوتی ہے اور دکھ بھی۔ اکیلے وہ دانا ہیں اور باقی سب احمق؟ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی: یا رب انہی میں سے ان میں ایک پیغمبر بھیج ، جو انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔ سورہ یونس کی سوویں آیت یہ کہتی ہے: ''جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، اللہ ان پر گندگی ڈالتا ہے‘‘۔ ''رجس‘‘ جو گندگی کی بدترین شکل ہے۔ رسولِ اکرم ؐ کا اصل ورثہ اخلاص اور دانائی ہے۔
خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ کے مارے کیسے کیسے بزرجمہر مسلمانوں میں پیدا ہو گئے Schizophrenic، جو اپنے سوا ہر ایک کو جہنم واصل کرنے کے آرزومند ہیں۔ سادہ سی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ فقط شریعت کا نعرہ کوئی چیز نہیں، اس پہ عمل کرنا ہوتا ہے اور بہترین حکمت کے ساتھ۔ طالبان میں عالمِ دین کون ہے؟ کون سی شرعی عدالتیں انہوں نے قائم کیں اور کب ڈھنگ کا کوئی ایک بھی کام انہوں نے کیا۔ کسی بھی کمانڈر کے منہ سے نکلا ہوا کلمہ، خاکمِ بدہن، ان کے نزدیک شریعت ہے۔ کیا وہ ان خارجیوں کے وارث نہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ جن کے معیار پر پورے نہ اترے اور شہید کر دیے گئے؟ کیا طالبان کے اکثر حامی قائد اعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ نہیں کہتے؟ کتنے ثبوت درکار ہیں؟
کون کافر ہے، جو مذاکرات کی کامیابی کا آرزومند نہیں۔ مذاکرات کا مگر یہ کون سا طریقہ ہے؟ خاموشی سے بات چیت جاری تھی، پھر کمیٹیاں بنا دی گئیں، ایک دو افراد کے علاوہ دونوں طالبان کی حامی۔ اکثر نے چھچھورے پن کا مظاہرہ کیا۔ ان کا کام مدد کرنا تھا، جس طرح سری لنکا میں ناروے والوں نے کیا۔ جس طرح پاک بھارت خاموش سفارت کاری کرنے والوں نے کہ اکثر کے نام بھی کوئی نہیں جانتا، جس طرح تیمور اور سوڈان
میں۔ وہ سارا وقت ٹی وی سے چمٹے رہتے۔
اب جو دوسری کمیٹی بنی ہے، اس میں اوّل تو اکثر ناقص ہیں۔ رہے رستم مہمند تو تباہی لانے کے سوا وہ اور کیا کریں گے؟ مرکزی اور صوبائی حکومت نہیں، تحریکِ انصاف بھی نہیں، وہ طالبان کے نمائندے ہیں۔ کابل میں تھے تو دل و جان سے پرویز مشرف کی پالیسیوں کے حامی تھے۔ عمران خان نے پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئرمین، خاموش طبع گلزار خان کو نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، پھر اچانک یہ کیا ہوا؟ کہا جاتا ہے کہ خود حکومت نے ان کا نام تجویز کیا۔ آخر کیوں؟ اس میں کیا بھید ہے؟
فواد حسین فواد کیا کریں گے؟ پنجاب میں نوجوان ڈاکٹروں کا مسئلہ آنجناب نے بگاڑا تھا۔ حکمت کے لیے حکمت کار چاہئیں۔ ''لکل فنّ رجال‘‘ ہر کام کے ماہرین ہوتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کم از کم ان سے بات تو کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ کیا کریں گے؟ پسِ منظر اور پیچیدگیوں سے وہ آشنا ہی نہیں۔ اللہ کرے، ہمارے اندازے غلط ہوں۔ مذاکرات کامیاب رہیں۔ جس احتیاط کی ضرورت تھی، وہ بہرحال بالائے طاق ہے۔ حال یہ ہے کہ خود وزیرِ داخلہ کے بقول، ایک دو وزیروں کے سوا، سب کے سب آپریشن کے حامی ہیں۔ خود کہا: نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی میں ایک خاتون نے بات چیت کی حمایت کی تو ''نہیں نہیں‘‘ کا غلغلہ اٹھا۔ مولوی صاحبان کے سوا، ساری اپوزیشن بے زار۔ تحریکِ انصاف کی اکثریت بھی۔ صرف تین آدمی حامی ہیں، وزیر اعظم، وزیرِ داخلہ اور عمران خان۔ کپتان کی پارٹی کے وہ سادہ لوح، جو لیڈر کو دیوتا سمجھتے ہیں۔ جاوید ہاشمی، شاہ محمود اور جہانگیر ترین طالبان سے حسنِ ظن کا ارتکاب کیسے کر سکتے ہیں؟ اسد عمر کیوں خاموش ہیں؟
اچھا ہے کہ کپتان، اس کے دوست اور وزیر اعظم میں بات ہوئی۔ نواز شریف نے اس گھر کی تعریف کی، جس پر کپتان کو گالی دی جاتی تھی۔ خوشی کی بات ہے کہ انہیں اعتماد میں لیا۔ خدا کرے کہ یہ عمل ثمر بار ہو۔
فوج کا موقف واضح ہے۔ آئی ایس پی آر نے کل جو پریس ریلیز جاری کی، اس میں لکھا ہے کہ مسلّح افواج دہشت گردی کے عفریت سے لڑنے کی پوری تیاری کر چکیں، فیصلہ البتہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ اس کے طے کردہ خطوط میں وہ بروئے کار آئے گی۔ یہی مسلّح افواج کا کردار ہونا چاہیے، یہی روّیہ۔ ذمہ داری اب وزیر اعظم کی ہے، وزیرِ داخلہ اور عمران خان کی۔ کپتان کے بارے میں کچھ زیادہ میں عرض نہیں کرنا چاہتا۔ وضع داری کے کچھ تقاضے ہیں۔ مقبولیت کے بعد اس کا رویّہ مگر یہ ہو گیا ہے کہ وہ برگزیدہ ہے، باقی سب احمق، جاہل بلکہ بدنیت۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔
مذاکرات کا فیصلہ ہوا تو میں لاہور میں تھا، فوراً ہی دنیا ٹی وی پہ عرض کیا تھا: صرف ایک مقصد کا حصول ممکن ہے، طالبان میں سے جو قدرے معقول ہوں، وہ الگ کر لیے جائیں۔ نذیر ناجی شریک تھے۔ کہا: نکتہ بہت اچھا ہے مگر وضاحت کرنی چاہیے۔ وضاحت مقصود ہی نہیں تھی۔
بات چیت کامیاب بھی رہے تو سنگین مسائل درپیش ہوں گے۔ ہتھیار ڈالنے والے بحال کیسے ہوں گے؟ 50 ہزار شہدا کے جانشین ہیں۔ محسودوں کے فرزند بھی، جو کئی نسلوں تک انتقام فراموش نہیں کرتے۔ وردی پوش مجاہد جن کی کڑیل جوانیاں لہو میں نہا گئیں۔ انہیں ملحوظ رکھنا ہو گا۔ نعرہ بازوں اور سادہ لوحوں کا نہیں، یہ اہلِ حکمت کا کام ہے اور وہ کہاں ہیں؟
اہلِ دانش عام ہیں، کمیاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ
پنجابی کی ضرب المثل یہ ہے: چور نالے چتّر۔ فارسی میں کہتے ہیں: چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد۔ چور کی جرأت تو دیکھیے کہ دیا ساتھ لایا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا: بدّو، سفرِ حج کے لیے جس شاہراہ پر توگامزن ہے، وہ ترکستان جاتی ہے۔ ٹین کے نہیں، ہم بھی مٹی کے بنے ہیں۔ ہمارے سینوں میں دل ہیں، ان دلوں پر زخم۔ عمران خان سمیت، سب واعظ نمک پاشی بند کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی طوفان اٹھے۔ ایک ہی مولوی عبدالعزیز کافی ہے۔