تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     14-03-2014

آسیب کا سایہ

واشنگٹن کے مضافات میں دو ننھے بچوں کی لاشیں‘ ان کی ماں کے بستر پر پائی گئیں اور ان سے بڑے دو اور بچے شدید زخمی حالت میں گھر کے اندر پڑے تھے ۔ پولیس نے جرمن ٹاؤن کی دو عورتوں کو چاروں بچوں کو چاقو گھونپنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ ملزموں میں ان بچوں کی ما ں بھی ہے ۔ اگرایک ہمسایہ بر وقت پولیس کو فون نہ کرتا تو باقی دو بھی مارے جاتے۔ پولیس کا خیال ہے کہ عورتوں نے بچوں پر بدروحوں سے بچانے کا عمل Exorcismکیا۔ کاؤنٹی کے ریکارڈسے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں کی ماں اپنے دماغ کا علاج کراتی رہی ہے ۔ وہ طلاق یافتہ ہے اور فیس بک میں اپنے صفحے پر لکھتی ہے ''میں خدا کو مانتی ہوں اور شیطان (Devil) سے ڈرتی ہوں‘‘۔ 
امریکہ میں اس عمل کو دافعِ بلابھی کہا جاتا ہے اور اس کے ڈانڈے مذہب سے جوڑے جاتے ہیں ۔ اس موضوع پر 70ء کے عشرے کی ایک کامیاب فیچر فلم The Exorcistکی دھوم پاکستان تک پہنچی تھی ۔ فلم میں چند پادری ضروری مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ ایک نو عمر لڑکی کے سر سے اُس آسیب کا سایہ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آتا ہے تو جھاڑ پھونک کرنے والوں سے مردوں کی بھاری بھرکم آواز میں تہدید آمیز گفتگو کرتا ہے ۔ اس کے بعد "Ghost Busters" آئی جس کا مرکزی خیال اس مفروضے پر مبنی تھا کہ قبر ستانوں پر بستیاں بسانے والے بھوت پریت کی زد میں آ جاتے ہیں جنہیں اس جگہ سے بھگانے کے لئے پیشہ ور (جدید) عاملوں کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ "Poltergeist" کا موضوع حیات بعد موت تھا ۔ اگلے روز ڈیٹونا بیچ فلوریڈا میں ایک ماں اپنے تین کمسن بچوں کو کار میں بند کرکے سمندر میں اُتر گئی لیکن رضا کاروں نے چاروں کو ڈوبنے سے بچا یا ۔ ضعیف الا عتقاد لوگوں کے نزدیک اس عورت پر بھی ''عمل‘‘ کی ضرورت ہے ۔
یہ ''عمل‘‘ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہوتا ہے اور پاکستان اور ہندوستان میں بھی بچوں بالخصوص جواں سال لڑکیوں کو جناّت سے نجات دلانے کی ایک روایت موجود ہے‘ جو غالباً ہندو مت کا شاخسانہ ہے۔ انگریز حکمرانوں نے بر صغیر سے ستی کی رسم تو مٹا دی مگر انسان پر شیطان کے مبینہ تسلط کو دور کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔ جس گاؤں میں میرا بچپن گزرا اس میں جواں سال لڑکیوں کو چمٹے ہوئے بُرے جنّ نکالنے کا عمل ہوتا تھا۔ میرے کانوں میں دلخراش موسیقی کی بھیا نک صدائیں اب تک گونج رہی ہیں جو کسی گھر سے آتی تھیں ۔گاؤں میں مستند ڈاکٹر کا وجود نہ تھا ۔ بعض لوگ اپنی بن بیاہی لڑکی کو بدروحوں سے چھٹکارا دلانے کے لئے گھر میں ''چوکی‘‘ بنا تے تھے۔ لڑکی کو نہلا دھلا کر اور نئے کپڑے پہنا کر اس چوکی پر بٹھاتے تھے ''نچلی ذات‘‘ کے لوگوں کا گروپ جو گلی کوچوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ ڈھول تاشے بجانے کا دھندا کرتا تھا‘ آتا تھا۔ اندر سے کمرے کو بند کرکے ''چھینے‘‘ بجاتا تھا‘ مریضہ کو ''حال کھیلنے‘‘ پر مجبور کرتا تھا اور آخر میں لڑکی کا جنّ نکل جاتا تھا یا اس کی جان! 
ایک ایسے وقت جب پاکستان میں انسانی جان ارزاں ہو گئی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گولی کا نشانہ بنا رہے ہیں جواں سال لڑکیوں کے قتل کی ایسی وارداتیں بھی ہو جاتی ہیں ۔ ایک سال قبل انہی دنوں دھونکل سے خبر آئی کہ وزیر آباد سے بیس سال کی ایک لڑکی کی مسخ شدہ لاش ملی ۔احمد نگر روڈ کے راہگیروں نے صبح سویرے یہ لاش دیکھی اور پولیس کو اطلاع دی۔ لاش بستر کی ایک چادر میں لپیٹی گئی تھی اور اس پر شدید ضربوں کے علاوہ سوئیاں چبھونے کے سینکڑوں نشانات بھی تھے۔ پولیس کا خیال تھا کہ لڑکی کو جنّ نکالنے کے عمل کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے دوران وہ مر گئی ۔ پوسٹ ما رٹم رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ ''عمل‘‘ کے دوران لوہے کی ایک سلاخ استعمال کی گئی جس سے لڑکی کے جسم کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ۔ اس کی جلد پر جلنے کے نشانات بھی تھے جو غالباً گرم استری لگانے کے لگے تھے ۔پولیس کے ایما پر ایک این جی او نے لڑکی کو مقامی قبرستان میں دفن کیا ۔ گزشتہ ہفتے سکھر سے اطلاع ملی کہ ایک ادھیڑ عمر سفید ریش شخص شاہ میر شیخ نے بیوی پر تشدد کے الزام میں ایک رات حوالات میں گزاری۔ خاتون کو بالوں سے پکڑ کر ایک وین سے گھسیٹ کر باہر نکالتے ہوئے ساری دنیا نے دیکھا تھا۔ شاہ میر شیخ کا کہنا تھا کہ اس عورت پر جناّت کا سایہ ہے ۔
نفسیاتی اور اعصابی عوارض دوسری بیماریوں کی طرح انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں ۔ مثلاًیاد داشت کا زیاں‘ رعشہ‘ مرگی‘ فالج وغیرہ‘ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی کے لئے صرف120 نفسیاتی معالج یا نیورولوجسٹ موجود ہیں ۔ صدر باراک اوباما نے ایک نیا قانون لا کر نفسیاتی معالجوں تک ان لوگوں کی رسا ئی بھی آسان کر دی ہے جو اب تک صحت کے بیمے سے محروم تھے ۔ با ایں ہمہ اس ملک میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو جرمن ٹاؤن کے ایک گھر میں پیش آیا ۔اگرچہ ہالوین جیسے تہواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں نے بھوت پریت کا بھی مذاق اڑا یا‘ مگر اب تک ایسے لوگ موجود ہیں جو بد روحوں سے گلو خلاصی کے لئے مذہب کی آڑ لینا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اسلام نے جادو (سحر) کو کفر اور فتنہ کہا ۔ پھر بھی بر صغیر میں یہ کہاوت چل نکلی کہ جادو برحق ہے مگر جادو کرنے والا کافر۔اس ''عمل‘‘ کے پیچھے ''کالا علم‘‘ کار فرما دیکھا جاتا ہے ۔
ٹونے ٹوٹکے‘ جہالت کے شاخسانے ہیں۔ میڈیکل سائنس سے انسان کی بے خبری اور جدید علاج معالجے کی گرانی اور کمیابی‘ انسان کو خود ساختہ پیروں اورفقیروں کی کمیں گاہوں کا را ستہ دکھاتی ہے۔ اس طرح جھاڑ پھونک‘ اربوں ڈالر کی صنعت بن گئی ہے ۔جعلی پیر کبھی قبرستانوں میں بیٹھ کر سادہ لوح لوگوں بالخصوص عورتوں کو اُلو بناتے تھے۔ آجکل انٹر نیٹ کے ذریعے ان پر ڈورے ڈالتے ہیں اور گھر بیٹھے باقی دنیا میں اشتہا رات اور اپیلوں کی پتنگیں بڑھاتے ہیں ۔وہ سرطان‘ ذیا بیطس‘ ناقص دل‘ کمر درد اور دوسری لا علاج بیماریوں سے شفا کا وعدہ کرتے ہیں ۔ شوہر کو بس میں کرنے اور اولاد صالح کی پیش کش کرتے ہیں۔ دشمن کو زیر کرنے اور دوست کو بیماری سے نجات دلانے کے لئے تعویز دیتے ہیں۔ مغرب کے خواب دیکھنے والوں کو ویزے اور لاٹری کی جیت کا مژدہ سناتے ہیں اور وہ یہ سارے کام فی سبیل اللہ کرتے ہیں ۔
"Exorcism" مسیحیوں کے سب سے بڑے فرقے کیتھولک کے عقائد کا جزو ہے ۔وہ مانتے ہیں کہ شیطان‘ دنیا میں برائی پھیلاتا ہے اور بعض اوقات انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس فرقے کے پادری ایسے انسانوں پر ''عمل‘‘ کرتے اور انہیں شر سے نجات دلانے کا دعوی کرتے ہیں۔ 
کیتھولک پادری بھی مانتے ہیں کہ اگر ایک سو لوگ جنّ نکلوانے کے لئے ان کے پاس آتے ہیں تو ان میں بمشکل ایک فرد ایسا ہوتا ہے جو آسیب کی گرفت میں ہوتا ہے اور جسے ''عمل‘‘ درکار ہوتا ہے۔ باقی لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور ہم انہیں باقاعدہ ڈاکٹروں کے پاس بھجوا دیتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ امریکہ میں تعلیم عام ہونے کی بدولت ''عمل‘‘ کے امیدواروں کی تعداد پہلے سے بہت کم ہے مگر آج بھی مشرقی ساحل کے قدیم رُوٹ نمبر ون کی پندرہ سو میل طویل پٹی پر ہر چوتھے پانچویں میل کے بعد کسی نہ کسی گھر کے باہر پامسٹ کا سائن بورڈ آویزاں دکھائی دیتا ہے جو ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والوں کا کاروبار ہے ۔ امریکہ کے ماہرین فلکیات نے انسان کو چاند پر اتارا مگر یہاں جوتشی‘ رمال اور ستارہ شناس بھی بکثرت پائے جاتے ہیں ۔علامہ محمد اقبال کے بقول ؎
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا 
جو خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved