لئے دئیے، کھچے کھچے، رچے بسے ، سب سے سوا، سب سے جدا، خطیبِ بے بدل، اپنے انداز کے علم الکلام کے ماہر، سینٹ سے بے دل اور قومی اسمبلی میں گاہے گاہے درشن کرانے والے، یعنی یہ ہمارے مایہ ناز وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان ہیں۔ اخبارات سے معلوم ہوا تھا کہ اس بار انہوں نے وزارتِ داخلہ اپنی پسند سے لی تھی اور سب کچھ ٹھیک کرنے کے عزم سے انہوں نے یہ منصب حاصل کیا تھا۔ اُن کے سیاسی قد کاٹھ کودیکھتے ہوئے بجاطور پر اُن سے کافی امیدیں بھی وابستہ تھیں ۔ اُن کی شعلہ نوائی اور خطابت کے شِکوہ ودبدبہ کا تو ایک زمانہ معترف ہے، قومی اسمبلی میں قائدحزبِ اختلاف اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اُن کا انداز باوقار اور آن بان والا تھا۔ عام میل جول سے وہ ہمیشہ گریزاں رہے اور میڈیا سے بھی بالعموم فاصلے پر رہتے ہیں یا اپنی پسندپر کسی اینکر پرسن کے پروگرام میں آتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ میں ان کے پیش رَو(Predecessor) جناب عبدالرحمن ملک ذرا مختلف قسم کے آدمی تھے۔ میڈیا کے ساتھ ان کے روابط (Interaction) کا عالم یہ تھا کہ اسلام آباد سے انہیں رخصت بھی میڈیا ہی کرتا اور کراچی ائیرپورٹ پر اُن کا استقبال بھی میڈیا ہی کرتا۔ کوئی میٹنگ ہو، میڈیا سر کے بَل حاضر ہوتا، حتیٰ کہ ایک بار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو کہنا پڑا کہ ملک صاحب فوٹو سیشن میں میرے برابر آجائیے، آپ کی برکت سے ہماری تصویر بھی آجائے گی اور انہی کا یہ قول زریں ہے کہ:'' میں تو بے وضو ملک صاحب کا نام بھی نہیں لیتا‘‘۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں مصالحت کے وہ مُتَخَصِّصْ (Specialist) تھے۔ ظاہر ہے روٹھنے کے بعد مل جانے کا لطف ہی کچھ اور ہوتاہے۔ وہ صاحبِ کرامت بھی تھے ، بروقت بتا دیتے تھے کہ فلاں شہر میں اتنے خود کش حملہ آور داخل ہوگئے ہیں۔ اگر اس شہر کے باسیوں کی شومیِٔ قسمت سے اُن کی پیشین گوئی کے مطابق خود کش حملہ ہوجاتا تواُن کی کرامت برحق ہوجاتی اور فرماتے کہ میں نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا اور اگر اُن کی خوش نصیبی سے یہ حملہ ٹل جاتا تو یہ اُن کی حسنِ تدبیر کا واضح ثبوت ہوتا، اس لئے دوچار پیشین گویاں اُن کی نوکِ زبان پر ہوتیں۔
ہمارے ممدوح چوہدری نثار علی خان صاحب کو پہلا جھٹکا سکندر حیات نے فاتحِ اسلام آباد بن کر لگایا۔ فاتحِ عالم سکندرِ اعظم کی روح اگریہ سب منظر دیکھتی تو سکندر حیات کی قسمت پر رشک کرتی کہ اسلام آباد کے چھوٹے سے ریڈزون کا فاتح اور چہار دانگِ عالم میںاُس کی شہرت کے ڈنکے اس شان سے بج رہے ہیںکہ اس کے مقابلے میں میری عالمی فتوحات ہیچ نظر آتی ہیں۔ وہ تو زمرد خان نے رنگ میں بھنگ ڈال دی، ورنہ چوہدری نثار علی خاں صاحب کے حسنِ انتظام اور حکیمانہ تدبیر کا عالَمی ریکارڈ قائم ہوجاتا۔ وہاں سے جو سلسلہ چلا ہے تو رکنے کا نام نہیں لیتا۔
اِس دوران اُن کے منہ سے نکلے ہوئے ''یہ کیا تماشا لگارکھا ہے؟ــ‘‘ کے جملے نے سینٹ کی آبرو خطرے میں ڈال دی اور تب سے آج تک یہ گتھی سلجھ نہیں پارہی اور ''سینٹ آف پاکستان‘‘ اُن کی خطابت کو ترس رہی ہے، حالانکہ اگر چوہدری پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر بن سکتے ہیں ، تو ہمارے چوہدری صاحب میں کس چیز کی کمی ہے، مگر اپنی اپنی قسمت ، کسی کی مجبوری بھی اُن کی مختاری نہیں بن پارہی۔
حالیہ سانحہ سیکٹر F-8اسلام آباد کا ہے، جس نے اسلام آباد کی فول پروف سکیورٹی کا نہ صرف پول کھول دیا بلکہ پہلے سے خوف زدہ حکمرانوں کو اور خوف زدہ کردیا۔ ہمارے حکمران (یعنی پارلیمنٹ کی دستوری کمیٹی کے فاضل اراکین) جب مہینوں پردے کے پیچھے بیٹھ کر اٹھارہویں آئینی ترمیم تصنیف فرمارہے تھے، تو انہیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ ملک کو وِفاق یعنی فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ اب آپ لاکھ قومی سلامتی کی پالیسیاں بنائیں ، صوبوں کی رضا مندی کے بغیر آپ کی حکمرانی اسلام آباد تک محدود ہے۔ لااینڈ آرڈر یعنی امن وامان صوبائی سبجیکٹ ہے۔ ہمارے اہلِ جنون کے لیڈر اور سونامی کی وعید سنانے والے کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت کے بل پر آپ صرف قومی بجٹ پاس کرسکتے ہیں ، کسی بھی قسم کی قانون سازی کے لئے ایوان بالا میں سادہ اکثریت لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ''تحفظِ پاکستان ایکٹ‘‘ پاس نہیں ہوپارہا ۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیوایم ویسے ہی مشکل موضوع ہیں ، کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنے حصے کے مطابق یا کچھ زائد لینے کے بعدبھی بیک وقت اقتدار واختلاف سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور صاحبِ اقتدار کڑھتے رہتے ہیں ۔ سردست مولانا فضل الرحمن حکومت میں شامل ہونے کے باوجود ''تحفظِ پاکستان آرڈی ننس‘‘ کی عَلانیہ مخالفت کررہے ہیں اور ایم کیو ایم اپنے کارڈ عین وقت پر اوپن کرے گی اور لازماً کوئی نہ کوئی سودے بازی (Bargaining) ہوگی۔
چوہدری صاحب کے حصے میں دوسری رسوائی سیکٹر F-8میں عدالت پر دہشت گردوں کے حملے، جج سمیت 14افراد کے قتل اور متعدد افراد کے زخمی ہونے اور تقریباً 45منٹ تک کسی مزاحمت کے بغیر قتل وغارت کی کارروائی جاری رہنے کے نتیجے میں آئی ۔ چوہدری صاحب اپنے سحرِ خطابت سے رات کو دن ثابت کرسکتے ہیں ، لیکن خطابت کے جوہر اور الفاظ کے ہیر پھیر سے نہ حقائق بدلتے ہیں ، نہ زخم بھرتے ہیں اور نہ ہی جن کے پیارے بچھڑ گئے ہیں ، ان کے صدمے کم ہوتے ہیں ۔ عوام کو تبدیلی اُس وقت محسوس ہوگی ، جب دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائی کو موقع پر ہی کامیابی کے ساتھ کاؤنٹر کیاجائے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے ، ورنہ بعد از مرگ واویلا اور مرثیہ پڑھنے اور انتظامی ناکامیوں کی نئی نئی تاویلات وتوجیہات پیش کرنے سے قوم کی بے یقینی ، احساسِ عدمِ تحفظ اور سلامتی کے اداروں اور نظام پر عدمِ اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
نئی قومی سلامتی پالیسی کے پورے خدوخال ہمارے سامنے نہیں ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے فلٹر ہوکر جو متفرق معلومات سامنے آرہی ہیں ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہم زمینی حقائق کے ادراک سے عاری ہیں ، فوری خطرات کے سدِّباب کا ہمارے پاس کوئی میکنزم یا حکمتِ عملی نہیں ہے، بس آئیڈیل ازم اورصفحۂ قرطاس پر بہتر سے بہتر ڈرافٹ تصنیف کرنے میں مصروف ہیں ، جس کے فضائل پر پارلیمنٹ میں ایک اچھی تقریر ہوسکے اور میڈیا پر مباحثے کا سٹیج سج جائے اُس کی حتمی تشکیل مسلم لیگ (ن) کے موجودہ دورانیے کے بقیہ چار سال میں ہوپائے گی یا نہیں، اس کا کسی کو علم نہیں۔
قوم کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ نئی قومی سلامتی پالیسی ہمارے وزیر داخلہ اور اُن کے تحت قائم اداروں کے حُکماء و فلاسفہ کا نتیجۂ فکر ہے یا یواین او یا کسی اورادارے کی ویب سائٹ سے لی گئی ہے، جیسا کہ بعض کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے دعویٰ کیا ہے۔ لیکن مریض کو تو شفا سے غرض ہوتی ہے، اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ دوا کس نے بنائی اور کہاں سے آئی۔
پس حد درجہ احترام کے ساتھ عرض ہے کہ چوہدری صاحب نے مایوس کیا، اُن سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں ۔ اسے قوم یا اہلِ نظر کی غلطی اور کوتاہی قرار دیا جائے کہ چوہدری صاحب کی امکانی فکری وعملی استعداد(Potential)کے بارے میں انہوں نے غلط اندازہ لگایا، بلاسبب غیرمعمولی توقعات وابستہ کرلیں اور پھر ظَنّ وتخمین اور اندازوں کا آئینہ کرچی کرچی ہوتا نظر آیا توانہیں صدمہ ہوا۔ یا پھر اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارا پورا حکمران طبقہ خوف میں مبتلاہے اور خوف ودہشت کی کیفیت نے اُن کی صلاحیتیں مفلوج کردی ہیں اور ان کی قوتِ فیصلہ کو سلب کر لیا ہے۔ یہ فکری انتشار اور یک سوئی کا فقدان اہلِ اقتدار تک ہی محدود نہیں ، حزبِ اختلاف کی نمایاں پارٹیاں بھی اسی میں مبتلاء ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے پاس کسی بھی مسئلہ میں پیش قدمی اور پس پائی کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کے ہیرپھیر سے بھی کام لے لیتے ہیں تاکہ حسبِ توقع نتائج نہ آنے پر اُن کیلئے Face Savingکی گنجائش رہے اور کہہ سکیں کہ ہم نے تو پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔ جب کہ اس کے برعکس بروقت اور درست فیصلہ کرنے کی اصل ذمہ داری حزبِ اقتدار پر عائد ہوتی ہے اور کامیابی کا کریڈٹ بھی انہیں کوجاتاہے اور ناکامی کی ذمے داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے اوراُن کے لئے ذمہ داری قبول کرنے سے گریز یا فرار کاکوئی راستہ باقی نہیں رہتا اورنہ ہی کفِ افسوس ملنے سے ناقص فیصلوں اور اقدامات کے نتائج کی تلافی ہوتی ہے۔