میں نہیں جانتا کہ اپنی من پسند شریعت کے نفاذ کے لیے طالبان کیوں ہزاروں افراد کو ہلاک کر رہے ہیں‘ جب بعض ادارے ایک گولی چلائے بغیر ان کے نظریات کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک معزز ادارے کے تجویز کردہ قوانین پاکستان کو قدیم دور میں دھکیل رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے کیے جانے والے خود کش حملے اتنی تباہی نہیں لا سکتے جتنے اس کے تجویز کردہ قوانین۔ حال ہی میں اس ادارے کی طرف سے تجویز کیا گیا کہ لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد مقرر نہیں کی جانی چاہیے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اُنہیں ان کے شوہروںکے حوالے کرنے سے پہلے ان کی بلوغت کا بھی انتظار نہ کیا جائے۔ یا اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک لڑکی‘ جس کی عمر فرض کریں آٹھ سال ہے، کی شادی اس کی عمر سے چار یا پانچ گنا بڑے مرد سے کر دی جائے اور وہ بچی اس کے ساتھ جانے پر مجبور ہو گی۔ کیا اس چھوٹی بچی کو اپنی زندگی کے اس اہم ترین فیصلے میں کوئی اختیار نہیں ہو گا؟۔ اس ضمن میں جسمانی بلوغت سے بھی زیادہ اہم بات ذہنی بلوغت ہے تاکہ وہ اپنے شریک حیات کے چنائو کی اہل ہو، یا کم از کم اپنی رائے دے سکے۔ اس ضمن میں مذہب اُس کی رائے کا احترام کرتا ہے اور اسے اجازت بھی دیتا ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ ایک آٹھ سال کی بچی صاحب رائے نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ مذہب کی طرف سے خود کو دیے گئے حقوق سے استفادہ نہیں کر سکتی۔ موجودہ عائلی قانون کے تحت مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت درکار ہوتی ہے لیکن اس ادارے کے مطابق شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا تصور غیر اسلامی ہے۔ اگرچہ مرد کی حاکمیت کے اس معاشرے میں ہمیشہ سے ہی اس قانون کی پامالی کی گئی ہے کیونکہ بیوی کو شوہر کو مزید شادیوںکی اجازت دینا ہی پڑتی ہے، اس کے باوجود ایوب خان کے دور میں بنایا گیا یہ عائلی قانون خواتین کو کم از کم کاغذی کارروائی کی حد تک اختیار دیتا ہے۔
چند ماہ پہلے اس ادارے نے ڈی این اے ٹیسٹ کو ماننے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ اس سے آبروریزی کے مجرم کو پکڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس سے انکار کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ اس کے ارکان اس بات پر مصر ہیں کہ ایسے کیسز کی شہادت دینے کے لیے چار عاقل و بالغ، نیک اور صالح مردوں کی ضرورت ہے جو عدالت میں گواہی دے سکیں کہ اُنہوں نے اس جرم کو اپنی آنکھوںسے ہوتے دیکھا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پختہ اینٹوں سے بنے ہوئے مکانات کے معاشروں میں ایسی گواہی ناممکن ہے کیونکہ ایسے گھنائونے جرائم کرنے والے چاردیواری کے اندر ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب زیادتی کا ارتکاب گن پوائنٹ پر ہو تو وہ کسی کو بھی اس کا گواہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیا گن بردار مجرموں کے سامنے صالح مرد اپنی نیکی کی سند پیش کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کو اس واقعے کا گواہ بننے کا موقع دیں؟ یہی وجہ ہے کہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو بمشکل ہی سزا مل پاتی ہے۔
جب سول سوسائٹی نے احتجاج کیا کہ اقلیتوں پر توہین کے جھوٹے مقدمے بنانے والوںکو سزائے موت دی جائے تو کونسل کے کچھ اراکین نے اس تجویز کی شدت سے مخالفت کی۔ چونکہ توہین کے کیس میں ملزم کو سزائے موت ملتی ہے، اس لیے عدل کا تقاضا ہے کہ اس کا جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی اسی سزا کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس کی مخالفت کی گئی۔ اس کے بعد کونسل نے خواتین کے تحفظ کے ایکٹ 2006ء کی مخالفت کی۔ یہ ایکٹ ضیا دور میں بنائے گئے حدود آرڈیننس، جس کے تحت آ بروریزی کا شکار ہونے والی عورت پر بھی مقدمہ بنتا ہے، سے تحفظ دیتا ہے۔ قومی اسمبلی کا پاس کردہ Domestic Violence Bill سینٹ میں التوا کو شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ کونسل کی اس پر ہونے والی تنقید کا ڈر بھی ہو سکتا ہے۔
کم عمر لڑکیوں کی شادی کرنے کے فیصلے پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے عورتوں کی شادی کرنے کی قانونی عمر، جو اٹھارہ سال ہے، سے کم کر کے تیرہ سال کرنے کا مطلب آبادی میں اضافہ ہے۔ مہذب دنیا، جو اپنی آبادی میں اضافے کو کنٹرول کر چکی ہے، میں عورتوں کی زیادہ عمر میں شادی کرنے کا رواج ہے لیکن پاکستان، جس کی آبادی دھماکہ خیز انداز میں بڑھ رہی ہے اور جو اپنی موجودہ آبادی کی کفالت کرنے کے لیے دنیا بھر سے رقوم مانگ رہا ہے، میں لڑکیوں کی شادی کی عمر مزید کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، حالانکہ عزت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جب تک معاشی خودانحصاری حاصل نہ کر لیں، اپنی موجودہ آبادی میں اضافہ قابل تعزیر جرم قرار دے دیں۔ بہرحال اس حالیہ تجویز سے یقینا لڑکیوں کے حقوق مجروح ہوں گے کیونکہ وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے کی مجاز نہیں ہوںگی۔ کیا کوئی پوچھ سکتا ہے کہ جو حق اسلام نے خواتین کو دیا ہے، اسے کیوں چھینا جا رہا ہے؟
مردوںکو ایک سے زیادہ شادیوںکی اجازت اُس دور میں دی گئی تھی جب جنگ و جدل کا زمانہ تھا اور جنگوں میں مرد جاں بحق ہو جاتے اور عورتیں بیوہ ہو جاتیں۔ چونکہ عورتیں ملازمت یا کاروبار نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے ان کو سہارے کے لیے مرد کی ضرورت ہوتی تھی۔ چنانچہ فطری طور پر مرد کو زیادہ شادیوںکی اجازت دی گئی، لیکن یقیناً آج ایسا نہیں ہے۔ کیا ہمیں واپس ماضی میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی عالمی فہرست میں ہم اونچی پوزیشن رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین انتہائی اذیت ناک زندگی بسر کرتی ہیں۔ نئے فیصلوں سے ان کی زندگی مزید جہنم بن جائے گی۔
(ادارے کا اس کالم کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)