وہ قوم‘ وہ ذہنیت‘ وہ سوچ‘ جو کھیل کے میدان میں اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کی کرکٹ میچ میں صرف ایک جیت برداشت نہیں کر سکتی، وہ پاکستان کا وجود کیسے برداشت کر رہی ہو گی؟ وہ لوگ جو امن کی بھاشا کے راگ الاپ رہے ہیں‘ جو سرحدوں کو ایک لکیر کا نام دے رہے ہیں‘ وہ لوگ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزوں کی پابندیوں کو ختم کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں انہیں اگر بھارتی حکومت کی فطرت کا پتہ نہیں ہے تو وہ اس کا اندازہ کشمیری طلبا سے روا رکھے گئے بھارتی حکومت اور عوام کے سلوک سے بخوبی کر سکتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں کسی کھلاڑی کے اچھے کھیل کی داد کوئی بھی دے سکتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کرکٹ کھیلتے ہوئے بائولر کی پھینکی گئی اچھی گیند پر یا بلے باز کے کسی بہترین سٹروک پر فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح تماشائی اچھے کھیل پر بے ساختہ داد دیتے ہیں‘ لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے اچھے کھیل کو سراہنے کے سلسلے میں اس قدر تنگ ذہن نکلے کہ پوری دنیا بے ساختہ پکار اٹھی کہ ہندو اپنی گلیوں کی طرح سوچ میں بھی تنگی کا شکار ہے۔ آفریدی کے چھکوں پر تعریفی نعرے لگانے والے کشمیری طلبا پر بغاوت کا مقدمہ ان لوگوں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو جھگڑالو اور امن کا دشمن قرار دیتے نہیں تھکتے‘ جو سیا چن پر بھارتی قبضے کو جائز اور کارگل کو بھارت کے خلاف جارحیت کا نام دیتے ہیں۔
سبھی انسان دنیا میں بینائی لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ قدرتی طور پر بینائی سے محروم افراد کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔ جو بصارت سے محروم ہوتے ہیں ان کے ساتھ تو یہ مجبوری ہے کہ وہ ارد گرد اور دور نزدیک کی چیزوں اور رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ نہیں پاتے مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مکمل اور صحیح بصارت رکھنے والے بھی اپنے گرد وپیش کے حالات و واقعات کو کوتاہ نظری سے دیکھتے ہیںمگر جو اہل بصیرت ہیں وہ معاملات کو کوتاہ نظری سے نہیں بلکہ فہم و فراست، ہوش مندی اور دانائی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ جو بصارت رکھتا ہو وہ بصیرت کا بھی حامل ہو۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی اہل بصیرت کوئی راستہ دکھاتے ہیں تو وہ ان تمام لوگوں کو‘ جو بصارت تو ضرور رکھتے ہیں مگر بصیرت سے مکمل طور پر محروم ہوتے ہیں‘ نظر نہیں آتا اور اگر نظر آتا بھی ہے تو سیدھا نہیں بلکہ ہر شے الٹی نظر آتی ہے اور پھر وہ اہل بصیرت پر الزامات کے پتھر برساتے ہیں۔ یہی چند دانشور غربت اور پریشانیوں میں گھرے آج کے پاکستانیوں کو باور کرا رہے ہیں کہ ان کی تمام پریشانیوں کی اصل وجہ دو قومی نظریہ ہے اور ان کی غربت اور تکلیفوں کا حل صرف اس میں ہے کہ بھارت کو
اپنادوست بنا لیں۔ وہ کہتے ہیں‘ جب بھارت تمہارا دوست بن جائے گا‘ اس کے ساتھ تجارت شروع ہو جائے گی‘ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا کثرت سے شروع ہو جائے گا تو پھر دونوں ملکوں کے و ہی تعلقات ہو جائیں گے جو '' بٹوارے‘‘ سے پہلے تھے۔ پھر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہندو اور مسلمان کل بھی ایک تھے آج بھی اگر پھر ایک ہو جائیں تو ڈیڑھ ارب لوگ امن اور چین سے رہنے لگیں گے۔ جب اسلحہ اور فوجوں کی دوڑ ختم ہو جائے گی تو بھوک اور افلاس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ ان کی ہر تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ ہندو اور مسلمان کے درمیان دو قومی نظریہ کی صورت میں پیدا کی گئی تفریق میڈیا کے کچھ لوگوں اور اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ ہے‘ جس کی آڑ میں وہ اپنی دکانداری اور سیاست چمکاتے ہیں۔ وہ اپنی ہربات میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ قائد اعظم مذہب کو ریاست کیلئے لازم نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ بہت بڑے سیکو لر تھے۔ ان حضرات کے قائد اعظم کے بارے میں اس طرح کے دلائل کو حقائق اور سچائی کی آنکھ سے دیکھنے کیلئے حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے گاندھی کو لکھے گئے ایک خط کے مندرجات پیش خدمت ہیں۔
اگست1944ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے گاندھی کے نام خط میں لکھا تھا: ''قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرض سب شعبوں کے احکامات موجود ہیں۔ مذہبی رسومات سے لے کر روزمرہ کے امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک‘ فرد کے حقوق سے جماعت کے حقوق و فرائض تک‘ دنیاوی زندگی میں جزا سزا سے لے کر عاقبت کی جزا سزا تک‘ غرض ہر قول فعل اور حرکت پر قرآن مکمل احکام کا مجموعہ ہے لہٰذا جب میں آپ سے کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و بعد از حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوںکہ ہر مسلمان کیلئے قرآنی تعلیمات محض عبادات و اخلاقیات تک محدود نہیں بلکہ قرآن کریم مسلمانوں کا دین و ایمان اور قانون حیات ہے۔ مذہبی، معاشرتی، تجارتی، تمدنی، عسکری، عدالتی امور اور تعزیری احکام کا مجموعہ ہے۔ ہمارے رسولﷺ کا یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان کے پاس اﷲ کے کلام پاک کا ایک نسخہ ضرور ہو اور وہ اس کا بغور وخوض مطالعہ کرے تاکہ یہ اس کی انفرادی اور اجتماعی ہدایات کا باعث ہو‘‘۔
وہ دانشور حضرات جو قائد اعظم کو سیکو لر ثابت کرتے نہیں تھکتے‘ جو پاکستان کے نام سے وجود میں آنے والی ایک علیحدہ ریاست کو دو قو می نظریہ کا مرہون منت نہیں سمجھتے‘ ان کی غلط بیانی اور مقاصدپاکستان سے انحراف بانی پاکستان کا گاندھی کے نام لکھے گئے اس خط سے واضح ہو جاتا ہے۔
1943ء میں جب ابھی محمد علی جناحؒ کو قائد اعظم کا خطاب نہیں ملا تھا‘ جب پاکستان کا مطالبہ اور تجویز ایک خواب کی حیثیت رکھتی تھی مشہور برطانوی وقائع نگار بیورلے نکلسن نے ہندوستان کا ایک طویل دورہ کیا۔ اس دوران اس نے قائد اعظم محمد علی جناح اور گاندھی سمیت سرکردہ ہندو اور مسلم لیڈران سے تفصیلی ملاقاتیں بھی کیں۔ اپنے ہندوستان کے اس دورے کے اختتام پر '' ورڈکٹ آن انڈیا‘‘ کے نام سے کتاب میں اس نے لکھا ''کوہاٹ میں ایک ہندو کی لکھی ہوئی صرف ایک نظم نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان وہ فسادبرپا کیا کہ 155 افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس سے اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس نظم میںایک ہندو نے اسلام کی توہین کی تھی‘‘۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جو نفرت پائی جاتی ہے وہ اس قدر نمایاں ہے کہ اس کی وضاحت قارئین کی ذہانت کی توہین کے مترادف ہو گی۔ یہ وضاحت کبھی پانی تو کبھی کرکٹ میچ کی صورت میں دنیا کے ہر ذی شعور کے سامنے ہے۔