تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     16-03-2014

کراچی کی تشویشناک صورت حال

وزیر اعظم جناب نواز شریف نے کراچی کا حال ہی میں ایک اور دورہ کیا ہے۔ان کے دورے کی دیگر وجوہ میں ایک یہ بھی ہے کہ گزشتہ ستمبر سے جاری پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے باوجود سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں پر قابو نہیں پایا جا سکا اور فائرنگ ، ٹارگٹ کلنگ گرینیڈ حملوں اور بم دھماکوں کی وجہ سے شہریوں کی ہلاکتیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے کی مثال دی جا سکتی ہے جس کے صرف ایک دن یعنی 12مارچ کو 14افراد جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت تھی‘ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور قومی معیشت کے اعصابی مرکز میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال پر تشویش کے اظہار کے بعد وزیر اعظم نے کراچی کا دورہ کیا اور اپنے دورے کے دوران میں جہاں انہوں نے پولیس ‘رینجرز کے سربراہان اور صوبائی انتظامیہ بشمول وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے ملاقات کی‘ وہاں انہوں نے تاجر برادری اور صنعت کاروں سے بات چیت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ کراچی سے بدامنی اور لاقانونیت ختم کر کے دم لیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے اس دورے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کراچی میں جاری اس آپریشن پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسے مزید موثر اور بارآور بنانے کے لیے کئی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن میں پولیس کی میرٹ پر بھرتیاں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون شامل ہے تاکہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
کراچی میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ کئی دہایوں پر محیط ہے۔ ایک لمبے عرصہ تک گزشتہ تقریباً تمام حکومتوں نے اس سلسلے میں جس مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا،کراچی کا یہ مسئلہ اسی کی پیداوار ہے۔ حکومت کی طرف سے بگڑتے ہوئے حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے اقدامات جنہیں آپریشن کا نام دیا جاتا ہے‘صرف اس وقت کیے جاتے رہے ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا تھا۔نواز شریف کے پہلے اور بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں کراچی میں فوج‘پولیس اور رینجرز کے آپریشن اس وقت لانچ کیے گئے جب تاجر برادری‘ کاروباری طبقے اور صنعت کاروں نے حکومت پر دبائو ڈالا کیونکہ لاقانونیت ‘بدامنی‘ آئے دن کی ہڑتالوں اور بھتہ خوری سے ان طبقات کے مفادات کو نقصان پہنچتا تھا۔جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے ‘شہر میں عدم تحفظ اور قتل و غارت سے جس قدر اسے نقصان ہوتا ہے‘اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، لیکن حکومت کے کان پر کبھی جوں تک نہیں رینگی۔کراچی کے مسئلے کے تمام سیاسی ‘سماجی ‘معاشی اور دیگر پہلوئوں کا جائزہ لے کر کبھی اس کے طویل المیعاد حل کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ سٹاپ گیپ حل کے طور پر کبھی پولیس اور رینجرز کے ذریعے اور کبھی فوج کو ذمہ داری دے کر حالات کو عارضی سنبھالا دینے کی کوشش کی گئی ۔ نتیجتاً کراچی کے حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے ان کے سامنے بے بس ہیں۔ بھتہ خوری‘ٹارگٹ کلنگ اغوا برائے تاوان‘فرقہ وارانہ تشدد‘بم دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات میں اس قدر تیزی آ چکی ہے کہ ان کے آگے بندباندھنے کے لیے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے۔
موجودہ آپریشن کا پس منظر بھی یہی ہے ، اس کے آغاز سے قبل یعنی گزشتہ سال کراچی میں جرائم پیشہ اور دہشت گردوں کے ہاتھوں جانی نقصان اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ حکومت کو یہ اقدام کرنا پڑا۔پولیس اور شہریوں کے درمیان رابطہ رکھنے والی کمیٹی (Citizen Police Liaison Committee) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2013 ء میں اڑھائی ہزار سے زائد افراد تشدد اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے۔ موجودہ حکومت مئی کے انتخابات میں کامیاب ہو کر جب برسر اقتدار آئی تو اس پر کراچی کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے سخت دبائو تھا۔ تاجروں‘صنعت کاروں اور کچھ سیاسی حلقوں کی طرف سے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔ یہ آپریشن گزشتہ برس شہرکے اوائل میں شروع کیا گیا تھا۔ اس برس اگست میں 280افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اگر حکومت تاخیر سے کام لیتی تو نہ صرف شہر کے حالات قابو سے باہر ہو جاتے بلکہ نئی حکومت عدم استحکام کا بھی شکار ہو سکتی تھی کیونکہ متاثرہ حلقے مداخلت کے لیے فوج سے براہ راست اپیل کر رہے تھے۔ حکومت نے اس آپریشن کو بہت غورو خوض اور تمام حلقوں سے مشاورت کے بعد شروع کیا تھا۔شدید دبائو کے باوجود فوج کی بجائے پولیس اور رینجرز کو یہ فریضہ سونپا گیا اور سب سے بڑھ کر صوبائی حکومت کو مکمل اعتماد میں لے کر اس آپریشن کی نگرانی اس کے سپرد کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔
اگرچہ کراچی کے حالات پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا ؛ تاہم اس آپریشن سے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس میں پولیس اور رینجرز کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے؛ تاہم دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ غالباً اس وجہ سے وزیراعظم نے آپریشن کو جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
صرف کراچی میں امن اور سکون کی خاطر ہی نہیں بلکہ ملک کی بقاء کے لیے اس آپریشن کو جاری رہنا چاہیے کیونکہ اسے ایک جمہوری اور عوام کی منتخب حکومت نے قومی اتفاق رائے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں شروع کیا ہے۔ اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس آپریشن نے وفاق اور صوبوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی ایک مثال قائم کی ہے حالانکہ مرکز اور سندھ میں دو علیحدہ علیحدہ سیاسی پارٹیوں کی حکومت ہے جنہیں ماضی میں ایک دوسرے کی سخت حریف سمجھا جاتا تھا ، لیکن ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی بقاء کی خاطر دونوں میں اشتراک عمل پایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں بھی اس قسم کا اشتراک عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اورصوبہ خیبر پختون خوا میں بھی ن لیگ کی مرکزی اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کے درمیان اس قسم کا اشتراک عمل قائم ہو جائے گا تاکہ دہشت گردی کے چیلنج سے موثر طور پر نمٹا جا سکے۔
کراچی میں حالات جب اچانک خطرناک موڑ لیتے ہیں تو بعض حلقوں کی طرف سے سندھ کی صوبائی حکومت کو آپریشن سے الگ کرنے اور وفاق کی طرف سے خصوصاً فوج کی مداخلت کے لیے دبائو میں اضافہ ہو جاتاہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وفاقی حکومت ابھی تک اس دبائو میں نہیں آئی اور موجودہ آپریشن کو صوبائی حکومت کی نگرانی اور رینجرز اور پولیس کی مدد سے ہی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ وزیراعظم نواز شریف اور اس سے قبل اپنے کراچی کے دورہ کے دوران میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نہ صرف اس آپریشن پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ اسے صوبائی حکومت کی نگرانی میں مزید مربوط اور موثر بنانے کی ہدایات بھی جاری کر چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کی اس سوچ سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب ہو گی بلکہ ملک میں جمہوریت بھی مستحکم ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved