تھرپارکر میں قحط سالی آئی تو ایک بار پھر مملکت خداداد پاکستان کے اس المیے کی یاد آئی جس نے ملک کو مسلسل منافقت کا شکارکر رکھا ہے۔ یہ منافقت اٹھارہ کروڑ عوام نہیں بلکہ ایک فیصد سے بھی کم اس طبقے کی علامت ہے جس کے دل ودماغ اور وفاداریاں غیر محسوس طریقے سے بیرونی سرمائے نے خرید رکھی ہیں اور وہ لوگ آپ کو روزانہ میڈیا پر اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی‘ عورتوں کی بے حرمتی‘ غربت و افلاس‘ بچوں کی اموات‘ آبادی میں اضافے اور اس طرح کی دیگر خامیوں پر دھواں دھار تقریریں کرتے نظر آ تے ہیں ۔ یہ لوگ مخصوص عالمی دنوں پر واک بھی کرتے ہیں اور موم بتیاں بھی جلاتے ہیں۔ یہ اس شخص‘ گروہ یا جماعت سے نفرت کا اظہارکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس کا اسلام سے تھوڑا سا بھی تعلق ہو۔ایسے لوگوںکے خلاف گفتگو کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے‘ غصہ تیز ہو جاتا ہے‘ آواز حقارت سے بھرپور ہو جاتی ہے اور ان کا بس نہیں چلتا کہ ہر داڑھی والے‘ ماتھے پر محراب کا نشان سجائے اور ٹخنوں سے اونچی شلوار والے شخص کو زندہ دفن کردیں۔ان کے ہمنوادانشور‘ کالم نگار اور اینکر پرسن ان کی آواز میں آواز ملاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنی تحریروں اور پروگراموں میں تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جب کبھی اس ملک میں زلزلہ یا سیلاب آئے ‘ قحط سالی ہو یا کوئی اور قدرتی آفت آجائے توان کی حیرت اور شرمندگی کے لیے اللہ کے وہی نیک بندے خلقِ خدا کی خدمت میں جوق در جوق میدان میں آ نکلتے ہیں ۔ وہی اللہ کو حاکم اعلیٰ ماننے والے‘ اسی کے سامنے سربسجود ہونے والے‘ اسی کی بڑائی اور عظمت کا درس دینے والے ہی اللہ کی مخلوق کی خدمت اور دادرسی کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے ملک کے یہ دانشور آج تک اس بات پر یقین نہیں کر پائے کہ لوگوں کی خدمت اور انسانوں کی مدد کا تعلق مذہب‘ اللہ پر ایمان اور آخرت کی جوابدہی سے وابستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ کمیونسٹ ممالک یعنی روس‘ چین ،کوریااور کیوبا وغیرہ سے آج تک کوئی بڑا مخیر شخص پیدا نہ ہو سکا اس لیے کہ کمیونزم نے جبراً دہریت کو فروغ اورمذہب کو دیس نکالادیا۔
سول سوسائٹی‘ این جی اوز اور انسانوں کے دکھ میں بے حال ہوتے انسانی حقوق کے علمبردار آپ کو کسی آفت‘ بیماری‘ قحط‘ زلزلے اور سیلاب میں نظر نہیں آئیں گے۔ یہ لوگ کون ہیں اور ان کو پالتا کون ہے؟ ان کو پالنے والے کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ میرے ملک میں کس ایجنڈے کے تحت اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں؟ یہ اب پوشیدہ طور پر بھی نہیں بلکہ علی الاعلان اس ملک میں پھیلی ہزاروں این جی اوزکو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ان کے کل سرمائے کو اگر اکٹھا کیا جائے تو اس ملک میں قحط‘ بیماری‘ خشک سالی اور غربت کا خاتمہ ہو جائے ، لیکن ان کا یہ سرمایہ بڑی بڑی گاڑیوں‘ عالی شان دفتروں‘ ناقابل یقین حد تک بڑی تنخواہوں‘ ریسرچ رپورٹوں‘ سیمیناروں‘ آگاہی کے لیے لٹریچر‘ واک اور عالمی کانفرنسوں کے دوروں پر خرچ ہوجاتا ہے۔ جو لوگ ان ساری مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں وہ سول سوسائٹی کے خوبصورت نام کے ساتھ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو روز یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم لوگ جاہل‘ ان پڑھ‘ ظالم‘ فرسودہ عقائد رکھنے والے اور پرلے درجے کے حیوان ہو جن میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
پاکستان میں این جی اوزکو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے ساٹھ کے قریب بڑے بڑے ڈونرز نے اپنے دفاتر کھولے ہوئے ہیں۔ ان ڈونرز میں بڑی بڑی مغربی حکومتیں بھی شامل ہیں اور ان کے اندر مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی۔ حکومتوں کے ڈونرز نے اپنے اپنے سفارت خانوں میں یہ دفاتر کھول رکھے ہیں اور'' خواہش مند ‘‘ مرد و خواتین ان دفاتر میں پراجیکٹ بنا کر لے جاتے ہیں اور فنڈ حاصل کرتے ہیں۔ ان میں چند بڑے ڈونرز کے نام‘ ان کے کام اور ہیڈکوارٹرز ملاحظہ کریں۔ Action Aid (لندن)‘ یہ غربت ختم کرنے کے لیے فنڈ دیتی ہے۔ Acumen Fund (نیویارک)، یہ معاشرتی مسائل کے حل تلاش کرنے پر ڈالر دیتی ہے۔ Aus Aid (کینبرا ،آسٹریلیا) غربت کے خاتمے کے لیے‘ CFLI-CIDA (اوٹاوا‘ کینیڈا) غربت کے خاتمے کے لیے‘ یہ آغا خان کی سب سے بڑی ڈونر ہے۔ CRS (بالٹیمور،امریکہ) عورتوں‘ بچوں اور اقلیتوں کی فلاح‘ Church World Service (امریکہ) اقلیتوں کا تحفظ‘ Concern Pakistan(ڈبلن، آئرلینڈ)‘ غربت کا خاتمہ، DFID(لندن) عورتوں‘ بچوں اور غریبوں کی فلاح۔ DIL- Development in Literacy (کیلیفورنیا‘ امریکہ) بچیوں کی تعلیم‘ FES (بون‘ جرمنی) لوگوں کی عوامی مسائل میں شمولیت بڑھانا‘ FNST (جرمنی)‘ آزادی کی ٹریننگ‘ GEP-Gender Equality Project (برطانیہ )اس کا نام ہی اس کاکام بنادیا گیا ہے، GTZ (جرمنی) لوگوں کی حالت بہتر بنانا‘ Lloyd Foundation (کیلیفورنیا‘ امریکہ)‘ ایڈز کے خاتمہ میں تحقیق‘ KFW (جرمنی) اداروں کو بہتر بنانا‘ NORAD (اوسلو‘ ناروے)، معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی بہتری، OXFAM (آکسفورڈ‘ برطانیہ) غربت کے خاتمے اور آفات میں کام کرتی ہے‘ RNE (ہالینڈ) انسانی حقوق‘ خواتین اور اقلیتیں‘ SAVE THE Children (لندن)‘امریکہ) بچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد، SSI (سسکس‘ برطانیہ) نابینا افراد کے لیے، SDC (برن، سوئٹزرلینڈ) پسماندہ افراد کے لیے، TAF (سان فرانسسکو‘ امریکہ) جمہوریت اور عورتوں کے حقوق، Tracaire(آئرلینڈ) جمہوریت‘ انسانی حقوق اور اقلیتیں، USAID (واشنگٹن)یہ ہر اس گروہ کو سرمایہ فراہم کرتی ہے جو پاکستان میں امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرے۔
ان تمام ڈونرز نے اپنے فنڈز یا سرمایہ جن اہداف میں خرچ کیا ان میں 87 فیصد اہداف خواتین سے متعلق ہیں۔ ان کے کل سرمائے سے جو کام کیے گئے ان میں ٹریننگ یعنی کورسز‘ سیمینار وغیرہ‘ معلومات کا تبادلہ‘ گاڑیوں کی خریداری یا فراہمی‘ کمپیوٹر‘ مشینری وغیرہ۔ ان عالمی ڈونرز کے علاوہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے بھی ہیں اور مختلف ممالک کے سفارت خانے بھی اس ملک کی سول سوسائٹی کو براہ راست سرمایہ فراہم کررہے ہیں۔
یہ سول سوسائٹی‘ یہ انسانی حقوق کے علمبردار‘ یہ خواتین کے دردمند اور غربت و افلاس کے خاتمے کے علمبردار جو سارا سال اپنی تقریروں‘ تحریروں‘ سیمیناروں اور لٹریچر سے عورتوں‘ بچوں‘ اقلیتوں اور غریبوں کی آواز بنے پھرتے ہیں ، ان میں کوئی اپنے ائرکنڈیشنڈ دفاتر‘ پرتعیش رہائش گاہوں اور خوبصورت ماحول کوچھوڑ کر تھرپارکرکے لق دق و صحرا میں ان خانماں برباد عورتوں‘ بچوں اور انسانوں کی مدد کے لیے نہیں گیا۔ یہ سب اس وقت بھی نظر نہ آئے جب زلزلے کے دوران منوں مٹی‘ سیمنٹ اور سریے کے نیچے انسان دفن ہو رہے تھے اور مدد کے لیے چیخ رہے تھے۔ ان کی صورتیں سیلاب زدگان کی مدد میں بھی نظر نہ آئیں۔ ان سیلاب کی آفت کے شکار لوگوں میں بچے بھی تھے اور عورتیں بھی‘ اقلیتیں بھی تھیں اور غریب بھی۔ ان تمام این جی اوز نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ ان آفتوں پر خوبصورت رپورٹیں شائع کیں جو تصویروں سے مزین تھیں اوران کی دیدہ زیب طباعت کروائی گئی ۔ انہوں نے ان لوگوں کی آبادکاری اور بحالی پر سیر حاصل بحثیں کیں اور ٹیلی ویژن پر ان کی حالتِ زار پر لمبے لمبے بھاشن دیے ۔لیکن جب یہ سب لوگ ٹیلی ویژن پروگراموں میں جلوہ گر تھے اوربڑی بڑی باتیں کررہے تھے تو اس دوران وہ لوگ جن کے دل میں اللہ کا خوف تھا‘جو اس کی آیات پڑھ کر آخرت کے خوف سے کانپ اٹھتے تھے ۔وہ پہاڑوں‘ میدانوں‘ صحرائوں‘ دریائوں اور وادیوں میں دیوانہ وار جا پہنچے۔خلق خدا کو آفت سے بچانے کے لیے ، کھانا ، کپڑا اور چھت مہیا کرنے کے لیے ان سے پہلے کوئی ان لوگوں تک نہ پہنچ سکا۔ اس لیے کہ انہیں لوگوں کی مدد کے لیے کسی ڈونر کی ضرورت نہیں ہوتی‘ ان کا ایجنڈا اور ٹارگٹ گروپ سرمایہ فراہم کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ انہیں اللہ نے حکم دے رکھا ہے کہ تمہارے سرمائے اور وسائل میں کس کا حق ہے۔ خوفِ خدا کو نکال کر ملک ایک ایسی چراگاہ بن جاتے ہیں جہاں صرف بھیڑیوں کا راج ہوتا ہے۔ مال و دولت کی ہوس میں گم ...خونخوار بھیڑیے۔