جمعہ 14مارچ کو مال روڈ لاہور پر نرسوں پر پولیس کے وحشیانہ تشدد نے اس ریاست اور اس پر براجمان حکمرانوں کے ظالمانہ کردار کوایک مرتبہ پھر بے نقاب کر دیا۔یہ نرسیں پانچ روز سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہی تھیں۔یہ احتجاج کوپر روڈ پر واقع ڈی جی ہیلتھ کے دفتر کے سامنے شروع ہوا تھا۔ جمعہ کے روز انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ حکومت آئی ایم ایف کے احکامات کی حکم عدولی کرتے ہوئے ایڈہاک نرسوں کو مستقل نہیں کر سکتی اس لیے ان کا کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں ہو گا۔اس پر نرسوں نے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مال روڈ پر پُر امن احتجاج کا آغاز کیا جس کے جواب میں پولیس نے تشدد کرتے ہوئے ان پرلاٹھی چارج کیا۔ وہ نرسیں جو انتہائی کم اُجرت اور سرکاری ہسپتالوں کے بدترین حالات میں دن رات مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کرتی ہیں ، انہیں بالوں سے پکڑ کر سڑک پر گھسیٹا گیا اور انتہائی بربریت سے پنجاب پولیس کے ''جوانوں‘‘ نے انہیں زدو کوب کیا۔ سات ماہ کی حاملہ ایک نرس تشدد سے شدید زخمی ہو گئی اور ابھی تک اس کی حالت تشویش ناک ہے۔ دس سے زائد نرسوں کو گرفتارکرکے ریس کورس تھانے میں قید کر دیا گیا۔آخری خبریں آنے تک نرسوں کا احتجاج جاری تھا اور حکمرانوں نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔
پنجاب سمیت پورے پاکستان میں سرکاری ہسپتال پہلے ہی غریبوں کی ''قتل گاہ‘‘ بن چکے ہیں۔ ادویات سمیت بنیادی ضروری اشیاء کی عدم دستیابی سے لے کر معائنے کی مشینوں کی خرابی تک، کوئی بھی شعبہ درست حالت میں نہیں ہے۔ہسپتال غلاظت کی آماجگاہ بن چکے ہیں جہاں مختلف مافیا لوٹ مار کر رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کا کوڑا بھی کرپشن کے ذریعے فروخت ہوتا ہے اوراس سے بھی مال بنایا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل چوہوں کے نومولود بچوں کوکھانے کی خبریں بھی میڈیا پرآ چکی ہیں۔ جہاں صحت کا بجٹ 0.7فیصد سے بھی کم ہو اور ہزاروں ارب روپے سالانہ اسلحے کی خریداری پرخرچ کیے جاتے ہوں وہاں علاج معالجے کی سہولیات میں بہتری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ موجودہ مالی سال کے لیے وفاقی حکومت نے صحت کے لیے صرف 9.9ارب روپے مختص کیے تھے جبکہ25.7ارب روپے صحت سے متعلقہ ترقیاتی کاموں کے لیے رکھے گئے تھے ۔اسی طرح پنجاب حکومت نے صوبائی اور ضلعی سطح پر صحت کے شعبے کے لیے صرف 82ارب روپے مختص کیے۔اسی بجٹ میں پنجاب حکومت نے پولیس ، ''امن عامہ‘‘ اور انتظامی امورکے لیے 194ارب 77کروڑ روپے رکھے تھے جبکہ وفاقی حکومت نے 8.8فیصد کے بجٹ خسارے کے باوجود دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافہ کرتے ہوئے 627ارب روپے مختص کیے ، اس میں فوج کی پنشن اور دیگر بہت سے اخراجات شامل نہیں ۔یہ اعداد و شمار ریاست کی ترجیحات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق صحت کے شعبے پر اخراجات کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 192میں سے 188واں ہے۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت حکمران طبقے کی اکثریت اپنا علاج بیرون ملک سے کرواتی ہے اور اس کا بل بھی محنت کش عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ملک میں سینکڑوں نئے سرکاری ہسپتالوں کی ضرورت ہے لیکن عوام دشمن پالیسیوں کے تحت پہلے سے موجود ہسپتالوں کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور میں واقع لیڈی ولنگڈن ہسپتال کی مسماری کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں ۔ایک طرف کروڑوں مریضوں کو علاج کی سہولیات میسر نہیں اور دوسری طرف ہزاروں تربیت یافتہ نوجوان ڈاکٹر بیروزگار ہیں یا
بیرون ملک جانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں سب سے نازک حالت نرسوں کی ہے۔ 10کروڑکی آبادی کے صوبے میں سرکاری شعبے میں صرف 15ہزارنرسیں موجود ہیں جن میں سے 5ہزار عارضی بنیادوں پر یا کنٹریکٹ پرکام کر رہی ہیں،ان میں سے 2800کو نکالا جا چکا ہے۔ صحت کی سہولیات کے معیارکا اندازہ نرسوں، ڈاکٹروں اور مریضوں کی تعداد کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔عالمی قوانین کے تحت انتہائی نگہداشت کے شعبوںجیسے آئی سی یو میں دو مریضوں کے لیے ایک نرس کا ہونا لازمی ہے۔اسی طرح جنرل پریکٹس میں مریضوں کے علاج کے لیے ایک ڈاکٹرکی مدد کے لیے تین نرسوں کا ہونا لازمی ہے۔اس ملک میں جہاں ڈاکٹروں کی تعداد ہی مریضوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے وہاں باقی سٹاف کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا۔یہاں کے سب سے بہترین یونٹس میں بھی نرسوں کی تعداد عالمی معیار سے انتہائی کم ہے۔ یہاں 3ڈاکٹروںاور50مریضوں پر صرف ایک نرس مقرر ہے۔افرادی قوت کی اس شدید کمی کی وجہ سے مریضوں کی شرح اموات میں اضافہ اور صحت یابی کی شرح میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ پنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں بھی گنتی کے ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف بیمار عوام کے
سمندرکا علاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حکمرانوں کی اسی بے حسی کے باعث نجی شعبے کی منافع خوری بھی بڑھ رہی ہے اور ہر جگی نجی ہسپتال کھمبیوں کی طرح اگتے ہوئے نظر آ رہے ہیںجن میں مریض کو گاہک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جلد سے جلد، زیادہ سے زیادہ پیسہ بٹورنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔غیر ضروری ٹیسٹوں اور ادویات کے ذریعے مریض کی جیب سے آخری پیسہ تک نچوڑ لیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان نجی ہسپتالوں کے علاج کے دوران اپنی قیمتی اشیا یہاں تک کے اپنا گھر بھی بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے باوجود بھی علاج کا معیارانتہائی ناقص رہتا ہے اور ہر نجی ہسپتال مختلف تشخیص کرتا نظر آتا ہے۔نجی شعبے میں کینسر ہسپتالوں سے لے کر چھوٹی ڈسپنسریوں تک، ہر جگہ لوٹ مار کی جا رہی ہے۔اسی بہتی گنگا میں سب سے زیادہ منافع ادویات بنانے والی کمپنیاں بنا رہی ہیں جن کے منافعوں پرکوئی روک ٹوک نہیں۔گزشتہ دو برسوں میں ادویات کی قیمتوں میں غیر قانونی اضافے کے 105کیس منظر عام پر آ چکے ہیں جبکہ حال ہی میں ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد اضافے کو بھی قانونی چھتری فراہم ہو چکی ہے۔ لاہور میں واقع پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ناقص ادویات کے باعث سو سے زائد مریض ہلاک ہو گئے لیکن کسی کو بھی سزا نہیں ملی۔اس ایک واقعے سے ہی منصفین کا حقیقی کردار واضح ہو جاتا ہے۔
(باقی صفحہ 13 پر)