تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-03-2014

سماج‘ ریاست اور فساد فی الارض

رجم کی سزا دراصل ایسے ہی مجرموں کے لیے ہے، جو انسانی آبرواورجان ومال کو کھلونا بنالیں ، سماج کو خوف اورعدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیں۔ قرآن مجید نے فساد فی الارض کے مجرموں کو 'تقتیل‘ کی سزا دینے کی ہدایت کی ہے۔ قتل میں مبالغہ کریں تو یہ تقتیل ہے، سادہ لفظوں میں عبرت ناک طریقے سے قتل۔اللہ کے آخری رسولﷺنے ایسے مجرم کو رجم کرادیا جو خواتین کی عزت وآ بروکے لیے خطرہ بن گیا تھا۔رجم تقتیل ہی کی ایک صورت ہے۔
شہباز شریف کی بے چین روح انہیں مظفر گڑھ لے گئی۔ ''غنڈے عزتوں سے کھیلیںاورپولیس انہیں تحفظ دے،ایسا نظام نہیں چلنے دوں گا‘‘۔اگروہ اسی جملے کو حکومتی پالیسی کا سرعنوان بنا لیں تو اللہ کی رحمت اس سما ج پر ہی نہیں،ان کی ذات پر بھی برسے گی۔کیاہی اچھا ہوکہ شہبازشریف صاحب جس طرح جرم کے بعد بروئے کارآتے ہیں،اسی طرح جرم سرزد ہونے سے پہلے بھی سرگرم ہو جائیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے بھوک بانٹنے والوں سے صلح کر لی۔ وہ تو جرم کے بعد بھی بروئے کار نہیں آئے۔ ہر آ دمی نے اپنی قبر میں جا نا ہے ، اللہ نے جرم و سزا کا معاملہ اسی لیے انفرادی رکھا ہے۔لوگ مر جا تے ہیں مگر جینے والوں کے لیے ایک سوال چھوڑ جاتے ہیں : ان کی موت کا کون اورکتنا ذمہ دار ہے؟یہ سوال تھرکی اداس فضاؤں سے اٹھ رہا ہے اورمظفر گڑھ کی آنسو بہاتی بستی کنڈی پتافی جتوئی سے بھی۔
جرم اور سزا کا تعلق عدالت قائم کر تی ہے اوراس باب میں حالات کی رعایت پیشِ نظر ہوتی ہے۔ قحط کے دنوں میں بھوک کے زیرِ اثر ایک روٹی چُرانے والے کی سزا وہ نہیں ہو سکتی جوڈکیتی کے کسی مجرم کی ہو سکتی ہے ؛ حالانکہ دونوں اصلاً چوری ہی کرتے ہیں۔ شریعت، عقل اور انسانی قانون،سب اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔یہ طے ہے کہ جو جرم پورے سماج کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دے،اس کی سزا شدید تر ہو نی چاہیے۔ قتل، مثال کے طورپرایسا ہی ایک جرم ہے۔اس کی سزا دنیا کے ہر قانون میں سخت ہے۔فساد فی الا رض شدید ترین جرائم میں سے ایک ہے۔اس کی بدترین صورت بالجبر کسی کی آ برو سے کھیلنا ہے۔ اگر یہ معاملہ اجتماعی ہو تو اس کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ شریعت، عقل، قانون، سب کا تقاضا ہے کہ مجرموں کو عبرت ناک سزا ملے۔کوئی مجبوری، نفسانی خواہش کا وقتی غلبہ، کوئی جواز ایسا نہیں جو ان مجرموں کے حق میں پیش کیا جائے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہاں لوگ شریعت کی بات کرتے ہیں اور زنا بالجبر کا ثبوت مظلوم کے کندھے پہ ڈال دیتے ہیں۔ بالرضا اور بالجبر کی سزامیں فرق نہیں کرتے اور اسے اللہ کا قانون قرار دیتے ہیں۔ ہم میں وہ بھی ہیں جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اورساتھ ہی سزائے موت کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔کیا ایسے مجرم سزامیں کسی تخفیف کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ دہشت گردی اوراجتماعی زیادتی دونوں، لاریب فساد فی الارض ہی کی صورتیں ہیں اور دونوں کی سزا بھی ایک ہی ہو نی چاہیے... تقتیل۔
شریعت ہو یاقانون، سب کا منشا یہ ہے کہ مظلوم کی داد رسی ہو، سماج میں امن ہو۔حکومت کے پاس قوتِ نافذہ ہوتی ہے۔ قانون موثر نہ ہوتو جرم کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ اسی طرح حکومت اخلاقی اقدار سے بے نیاز اور تن آسان ہو تو بھی ،جرم باقی رہتا ہے۔قانون اگر انسانی فطرت اور سماج سے ہم آ ہنگ نہ ہو تو نتیجہ خیز نہیں ہو تا۔اہلِ علم کا کام یہ ہے کہ وہ اس پہلو سے قانون کا جائزہ لیں ۔ علماکواپنے فہمِ دین پر بھی مسلسل غور کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کس حد تک شریعت اور فطرت کے منشا کے مطابق ہے۔اسی طرح اربابِ اختیارکا کام ہے کہ وہ ریاستی اداروں کا جائزہ لیں کہ وہ جرم کے فروغ میں کس حد تک ذمہ دار ہیں۔ سماجی ماہرین سماجی تناظر کو واضح کریں۔ معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے اب سب پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے اور یوں مل کر ایک حکمت عملی بنانی چاہیے جو عام آدمی میں احساسِ تحفظ پیدا کرے۔ پاکستان میں اس طرح کا کوئی ادارہ موجود نہیں‘ اگر کوئی ہے تو اپنا کردار ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر رہا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ سماج کہیںاورجارہا ہے اور تعبیراتِ دین کسی اور طرف۔ 
ہماری خواتین آج جس طرح سماجی رسوم،حکومتی نااہلی، طاقت کی منہ زوری اور مذہبی تعبیرات کا ہدف ہیں، شاید ہی کوئی دوسراطبقہ ہو گا۔ ہماری بچیاں ان سب کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اورسماج میں کوئی قابلِ ذکر ردِ عمل پیدا نہیں ہو تا۔کہیں سوارا اور بدل ِصلح جیسی رسمیں ہماری بچیوں کو کھا جاتی ہیں ،کہیں طاقت ور اور حکومتی اہل کاروں کا گٹھ جوڑ ہے جو ان کو خود سوزی پر مجبور کر دیتا ہے۔بلوچستان میں جواں سال لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا گیا۔ ایک سیاسی جماعت نے ملزموں کو سینیٹر بنا دیا،دوسر ی نے حکومت میں شامل کرلیا۔ کوہستان میں بیٹیوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کسی مذہبی جماعت نے اُن پر ہونے والے ظلم کے خلاف ریلی نہیں نکالی۔کیا اس لیے کہ اس ظلم کا ذمہ دار امریکہ نہیں تھا اور اس کے ساتھ کوئی سیاسی مفاد وابستہ نہیں تھا؟اِس ظلم کا خاتمہ دینی حلقوں کی ترجیح ہے نہ ریاست کی۔آخر ہم نے ایسی مظلوم خواتین کے لیے خود سوزی یا گھٹ گھٹ کر مرنے کے سوا کوئی راستہ چھوڑا ہے؟ شہباز شریف پھر غنیمت ہیں کہ پسِ مرگ واویلا تو کرتے ہیں ، باقی صوبوں میں تو یہ بھی نہیں ہو رہا۔
مظفرگڑھ جیسے حادثات کو روکنے کی ایک ہی صورت ہے، ایک موثرسماجی تبدیلی۔یہ تمام ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کی مشترکہ کوششوں ہی سے ممکن ہے۔علما کو سوچنا ہے کہ ان کی دینی تعبیرات مظلوم کی داد رسی کا باعث ہیں یا ظالم کا ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں۔حکومتوں کو دیکھناہے کہ انہیں پس مرگ واویلا کرنا ہے یاظلم کو رحمِ مادر ہی میںروکنا ہے۔ سماجی اداروںاور تنظیموں کوبھی مقامی تہذیبی پس منظرمیں کوئی لائحہ عمل بنا نا ہے۔ سیاسی اورمذہبی جماعتوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ ظلم بین الاقوامی ہی نہیں، مقامی بھی ہو تا ہے۔ان معاملات میں میڈیا کو بطورِخاص داد دینی چاہیے کہ ان مظالم کو نمایاں کرنے اوراس باب میں سماج کو حساس بنانے میں اس کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔یہ مظالم تو صدیوں سے جاری تھے ، لوگوں نے اسے قسمت اور معمول سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ میڈیا اور غیر حکومتی کوششوں سے اب خواتین کو بھی ایک مکمل انسان کا درجہ ملنے لگا ہے۔ خواتین پر ہونے والے ظلم کو بھی ظلم سمجھا جا رہا ہے۔
آج امن اور انصاف ہمارے بنیادی مسائل ہیں۔سماج اور ریاست کو انہیں مو ضوع بناناہوگا۔جہاںامن اور انصاف نہ ہو وہاں سماج اور ریاست کے وجود بے معنی ہیں۔ اس کے لیے مروجہ دینی تعبیرات سے لے کرریاستی ڈھانچے تک، ہر چیز نظرثانی کی محتاج ہے۔شہباز شریف کہتے ہیں: ''ایسے نظام کو نہیں چلنے دوں گا‘‘۔اللہ کرے ان کایہ عزم امرِ واقعہ بن جا ئے ، اس کے لیے انہیں ہم سب کی مدد کی ضرورت ہوگی۔۔۔ ہم عالم ہیں یا عامی ، سرکاری اہل کار ہیں یا کسی غیر حکومتی تنظیم کے نمائندے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved