تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     17-03-2014

اب جب کہ

اب جبکہ ہزارہااندیشوں ، خدشات اور ابتدائی ریہرسل کے بعد مذاکرات کے فیصلہ کن راؤنڈ کے لیے فضا ہموار ہوگئی ہے ۔ حکومت کی اصل کمیٹی تشکیل پاچکی ہے اور مذاکرات کے پُرزورداعی جناب عمران خان اور حکومت ایک پیج پر آگئے ہیں ۔ یہ بھی تأثر دیاجارہا ہے کہ اس سارے عمل کو مسلح افواج کی آشیرباد بھی حاصل ہے،اگر ایسا ہے توپوری قوم کو اخلاص کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے کہ یہ مذاکرات کامیاب اور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ پاکستان اور اہلِ پاکستان نے بہت ظلم سہہ لیے ہیں اور بہت کشت وخون ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کے بقول اگر مزید قطرۂ خون بہائے بغیر امن مل جائے تواس سے بڑی خوشی کی خبر اورکیا ہوسکتی ہے۔ جناب محمد نواز شریف نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا اورخود چل کر خان صاحب کی رہائش گاہ پر چلے گئے اور سرکاری کمیٹی پر ان دونوں رہنماؤں کا اتفاقِ رائے بھی ہوگیا جس کے بعد بظاہر مذاکرات کا فیصلہ کن راؤنڈ شروع کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ مولانا سمیع الحق بدستور آن بورڈ ہیں،مولانا فضل الرحمن کو یقیناً نظرانداز کئے جانے کا احساس ہوگا کیونکہ وہ بجاطور پر اپنے آپ کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر سمجھ رہے تھے۔ چونکہ کسی بھی ممکنہ آپریشن کے نتیجے میں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت قبائلی عوام کے بعد سب سے اہم متاثرہ فریق ہوتی، لہٰذا اس کا آن بورڈ ہونا اور اسے بھی اعتماد میں لیا جانا ضروری تھا، سویہ مرحلہ بھی بحسن وخوبی سرہوگیا۔
جماعتِ اسلامی چونکہ خیبر پختونخوا حکومت کا حصہ ہے، سواس حوالے سے بالواسطہ انہیں بھی آن بورڈ سمجھیے ، لیکن مذاکرات کی غیر معمولی حامی اس جماعت کو حکومت نے براہِ راست اعتماد میں نہیں لیا؛ تاہم پروفیسر ابراہیم کی صورت سے وہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیںاوراس سارے عمل کے عینی شاہد بھی ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ مثبت کردار بھی اداکرسکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا موقف واضح نہیں ہے، یہ دونوں پارٹیاں بیک وقت دونوں موقف اپنائے ہوئے ہیں ؛ البتہ ان کا اصل رُجحان فوجی آپریشن کی جانب ہے ؛ تاہم ایم کیوایم کا موقف واضح ہے۔ نظام ِاقتدار سے باہرکی مذہبی جماعتیں ٹی وی اسکرین پر ٹِکر چلوا کر یا موقع ملنے پر ٹیلیویژن مباحثوں میں حصہ لے کر اپنا موقف بیان کرتے رہتے ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں ، لیکن جدید جمہوری اور بطورِ خاص پارلیمانی نظامِ جمہوریت میں انہیں قابلِ توجہ نہیں سمجھاجاتا تاوقتیکہ وہ سسٹم کو جام کرنے یا مفلوج کرنے کی صلاحیت ثابت نہ کریں ۔ یعنی شرافت ، امن پسندی یا صلاحیت ِفسادوانتشار (Nuisance Value) کا نہ ہونا کمزور اور بے اثر ہونے کی دلیل سمجھا جاتاہے۔ 
تحریکِ طالبانِ پاکستان اور ان کے اتحادی یا حامی گروپوں کے مطالبات تو سب کو معلوم ہیں اور وہ یہ ہیں:(1)جنگ بندی: پہلے ان کا مطالبہ یہ تھا کہ چونکہ حکومت جارح ہے اس لیے جنگ بندی میں پہل بھی وہی کرے؛ تاہم بعد میں انہوں نے خود پہل کرکے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کردیااوراب انہیں چاہیے کہ اس میں غیرمشروط توسیع کریں تاکہ مذاکرات نسبتًا پرامن اور خوش گوار ماحول میں جاری رہیںاور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ (2) پاکستان کی جیلوں میں اُن کے قیدیوں کی رہائی اور ظاہر ہے کہ ان پر قائم مقدمات کی واپسی اُن کی رہائی کی جانب پہلا قدم ہوگی کیونکہ اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے، توان کی ضمانت پر رہائی عدالتوں کی منظوری سے ہوگی، غیرمشروط رہائی مقدمات کی واپسی کی صورت میں ہوگی اور طالبان کو بھی اپنے ہاں یرغمالی افرادکو رہاکرنا ہوگا۔(3)املاک اور جانوں کے نقصان کا معاوضہ جس کا تخمینہ یقینا وہ لگائیں گے اوراس شق پر طویل بحث مباحثہ اوراعصاب شکن بارگیننگ (سودا بازی) ہوگی۔ (4)قبائلی علاقوں سے پاکستانی مسلح افواج کا انخلا: حکومت کا مستقل جنگ بندی اورامن کے علاوہ کوئی اور دو ٹوک مطالبہ سامنے نہیں آیا سوائے اس کے کہ مذاکرات پاکستان کے دستوری نظام کے تابع ہوں گے ، لیکن یہ ایک علامتی سا مطالبہ ہے ،اس سے کوئی اساسی یا جوہری تبدیلی مذاکراتی عمل میں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی۔ (5)طالبانِ پاکستان کا آخری مطالبہ نفاذِ شریعت ہوگا۔
جرگہ یا ڈائیلاگ قبائلی روایات کا حصہ ہے اوراس میں وہ ملکۂ تامّہ اور مہارتِ کاملہ رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ان کے اعصاب کافی مضبوط ہیں ۔ میری رائے میں طالبان پوائنٹ ٹو پوائنٹ یعنی اپنے اہداف کے حصول کے لیے بتدریج آگے بڑھنا چاہیں گے اور آخر میں نفاذِ شریعت کے مسئلے پر معاہدے میں بریک ڈاؤن کا مرحلہ بھی آسکتا ہے۔ بریک ڈاؤن کی صورت میں طالبان کی جیب خالی نہیں ہوگی، وہ کچھ نہ کچھ حاصل کرچکے ہوں گے اور ناکامی کا ملبہ بھی آسانی سے حکومت پر ڈال سکیں اور حکومت کا دامن اس مرحلے پر خالی ہوگا۔اس لیے حکومت کا فائدہ پوائنٹ ٹو پوائنٹ مراحل طے کرنے کے بجائے ایک جامع معاہدے میں ہوگا تاکہ وہ قوم کے سامنے سرخ رُو ہوسکے ، ورنہ کفِ افسوس ملنے اورگلے شکوے سننے اور سنانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت کے لیے یہ مرحلہ قابلِ رحم ہوگا۔ 
آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا؟ قوم کو بہترین کی توقع ضرور رکھنی چاہیے ، لیکن خدانخواستہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں بدترین نتائج اوررَدِعمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان اپنی قوت اب مجتمع اور محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تاکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہ کابل پر حکمرانی کا دور واپس لاسکیں اور پھر اسے بیس کیمپ بنا کر دنیا بھر میں نفاذِ شریعت کی راہ ہموار کرسکیں۔ 
ہماری رائے میں مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ان کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کررہے ہیں یااُن کا کانام ''طالبان کمیٹی‘‘ ہے۔ اُن کا ایک دینی اور علمی چہرہ بھی ہے اور اسی وجاہت نے انہیں یہ مقام عطا کیا ہے۔ پس اُن کی ترجیحی دینی واخلاقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ طالبان کے ترجمان کے بجائے حَکَم اور ثالث کا کرداراداکریں اوردونوں کے غلَط کو غلَط اور صحیح کو صحیح کہیں ۔ وہ اﷲتعالیٰ کے سامنے بھی جواب دہ ہیں اور قرآن کی ہدایت یہی ہے:''اورکسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ عدل نہ کرو، عدل کرو، یہی شِعار تقویٰ کے قریب ترین ہے‘‘۔(المائدہ:8) اسی طرح اُن اکابر علماء و مشائخ کی بھی دینی وملّی ذمہ داری ہے جن کے ساتھ طالبان کا استاذی شاگردی یا پیری مریدی کا تعلق ہے کہ وہ انہیں اپنے پاس بلا کر یااُن کے پاس جا کر اُن پر اِتمامِ حجت کریں کہ اُن کا فہمِ شریعت ناقص ہے اور پاکستان میں داخلی طور پرجو بھی دہشت وتخریب، قتل وفساد اوراغوا کی کارروائیاں کی جارہی ہیںیاکی گئی ہیں، شریعت میں اُن کا کوئی جواز نہیں بنتااوراس پرانہیں اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے اﷲتعالیٰ اور تمام متاثرہ مظلومین سے معافی مانگنی چاہیے۔
جہاں تک عمران خان اور سید منور حسن کا تعلق ہے، اُن کا موقف تو یہ ہے کہ ساری دنیا سے بے نیاز ہوکر اور الگ تھلگ رہ کر ہمیں اپنے معاملات سنوارنے چاہئیں،گویا ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو!
اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت بیرونی دنیا سے مکمل لاتعلقی اختیار کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے؟ سو امریکہ اور مغربی دنیا اس سارے سلسلے کو مانیٹرکرے اور اپنے عالَمی مفادات کی میزان پر انہیں پرکھے ۔ اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی 35نکات پر مشتمل قرارداد کی صورت میں سامنے آچکاہے جس میں کہا گیاہے کہ یورپی یونین میں جی ایس پی سٹیٹس ملنے کے بعد اس کے نتیجے میں عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ پس ہماری قیادت کو چاہیے کہ آنکھیں،کان اورذہن کے دریچے کھلے رکھے اور جوبھی اقدامات وہ طے کریں، ان کے متوقع اثرات ونتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے پارلیمنٹ اور پوری سیاسی قیادت کو مستقل اعتماد میں لیں تاکہ پوری قوم کی حمایت اور تعاون سے کسی بھی ناخوش گوار صورتِ حال کا مقابلہ کیا جاسکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved